شاعری

شاہراہ ریشم (جیالوجی کے تناظر میں)

کنور صابر علی خان

صَنعت و تعمیر میں ایک نام ہویدا ہے
دنیا جسے دیکھ کر انگشت بدنداں ہے
ہمت و جرات اور تکنیکی مہارت کا
شاہراہ قراقرم تو اِک زندہ نمونہ ہے
خنجراب کے درّے سے آغاز ہوا تیرا
اسلام آباد کی شاہراہ سے اتصّال ہوا تیرا
ہزاروں کی بلندی سے تیرہ سَو پہ تیرا آنا
پھر نَو سو کلومیٹر طویل تجھ کو بنا لینا
سنگلاخ ہمالہ سے ،نوکیلے قراقرم سے
دامنِ ہندوکش سے،بھونچالوں کے مرکز سے
براموش کی وادی سے ،سِدّ بتورا سے
بڑھتی تو رہی آگے ، ہر ایک رکاوٹ سے
انڈس بھی رستے میں، ہنزہ بھی صف آرا تھا
اَستور و گلگت کا ،مَچلتا ہوا دھارا تھا
پگھلتے ہوئے گلیشیر تھے ، گلوف کا بھی خطرہ تھا
ہر آڑ بنانے کا اک عزمِ مصمّم تھا
جیالوجی کے تناظر میں، ہوگا نہ تیرا ثانی
ہر نہج کی چٹانوں کا، تھا سلسلۂ لاثانی
آتشی ہو کہ متغیّر ،آبی ہو کہ سیلابی
کیمبیرن سے ریسنٹ تک، تھی سب کی فراوانی
تیری گزرگاہ میں کُچھ ارضی دراڑیں ہیں
رہتی میں وہ صف آرا ،کرتی ہیں تہہ وبالا
ایم کے ٹی و ایم ایم ٹی ، ایم بی ٹی و ایم سی ٹی
دشمن ہیں یہ جانوں کی ،تعمیر و ترقی کی
کرۂ ارضی بھی ،تقسیم ہے پلیٹوں میں
لڑتی ہیں، جھگڑتی ہیں ٹکراتی ہیں آپس میں
انڈور یوریشین پلیٹیں بھی، دست و گریبان ہیں
ظاہر جو دراڑیں ہیں سب انکی بدولت ہیں
گرتی ہوئی چٹانیں ہیں، لڑھکتے ہوئے بولڈر ہیں
بہتی ہوئی گارا ہے، سرکتی ہوئی بجری ہے
ان سب کی ہیئت کو بڑے غور سے پَرکھا ہے
تجویز کیا وہ حل ،جو اِس کا مداوا ہے
مَعدن و جواہر کے خزینے تیری راہوں میں
کچھ آگئے منظر پر ،کچھ پوشیدہ میں چٹانوں میں
تعمیری میٹریل کی کثرت ہے پہاڑوں میں
باغات و جنگلات کی فراوانی ہے میدانوں میں
ملک کی تو شَہہِ رگ ہے، شہداء کی نشانی ہے
چین سے ملاتی ہے، تجارت کو بڑھاتی ہے
برسوں کی رفاقت ہے، دَہائیوں کی شراکت ہے
دو مُلکوں کی دوستی کی، تابندہ نشانی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex