اداریہ

پاکستان بھارت امن کی جانب بڑھیں

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ’’ پاکستان خطے میں تنائونہیں چاہتا۔ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے۔ پائیدار امن کیلئے کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کا حل ضروری ہے۔ خطے میں کشیدگی اور جنگیں لڑنے میں اپنے وسائل ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ‘‘۔دوسری جانب کشمیری رہنما برہان وانی کی شہادت کے 7 سال مکمل ہونے پر مقبوضہ کشمیر میں شٹر ڈاون ہڑتال کی گئی، 8 جولائی 2016 کے روز بھارتی قابض فوج نے برہان وانی کو شہید کیا۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس نے برہان وانی اور تحریک آزادی کشمیر کے دیگر شہدا کو شاندار خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ہڑتال کی ہے اور یوم تجدید منایا۔
کشمیر کی تحریک آزاد ی میں برہان وانی شہید ایک روشن باب ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے گاوں شریف آباد ترال میں پیدا ہونیوالا 22 سالہ کشمیری نوجوان برہان وانی قابض بھارتی سامراج کی طرف سے اپنی قوم پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھ کر برداشت نہ کرسکا، یوں قوم کا یہ عظیم سپوت ہمہ وقت کاروان حریت میں شامل رہا۔ مقبوضہ کشمیر کی تاریخ میں برہان وانی کو جرت اور مزاحمت کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔برہان کی شہادت کے بعد تحریک آزادی کشمیر پر پڑنے والے اثرات سے پوری دنیا باخبر ہے۔ شہید برہان نے جام شہادت نوش کر کے کشمیر کی تحریک کو نئی نسل میں منتقل کر دیا اور آج کشمیر کا ہر نوجوان برہان وانی کی شکل میں بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا ہے۔ایک جانب کشمیریوں کا جذبہ آزادی ہے اور دوسری جانب بھارتی مظالم بھی بڑھ رہے ہیں۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی مظالم تیزی سے بڑھ رہے ہیں اورحال ہی میں قابض بھارتی انتظامیہ کی طرف سے مقبوضہ علاقے میں تقریبا 2 لاکھ بے گھر افراد کو زمین دینے کا اعلان علاقے میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔ بے گھر کشمیریوں کو زمین دینے کے قابض بھارتی انتظامیہ کے اعلان نے عوام میں شدید شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ واضح رہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیرمیں انتخابات کے ذریعے کسی سیاسی حکومت کے بغیر نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی کے پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں۔اس دوران جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کا قانون ختم کیا گیا،آرٹیکل 370 اور35 اے کے خاتمے کے بعد بھارتی ہندووں کو جموں وکشمیر میں مستقل رہائش کا قانون لایا گیا جس کے ذریعے جموں وکشمیر کی ڈیموگرافی کی تبدیلی کا عمل شروع ہوا۔5 اگست 2019کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارتی فورسز نے 730 سے زائد کشمیریوں کو شہید کیاہے۔
اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ یہ قربانیاں تحریک آزادی کشمیر کا قیمتی اثاثہ ہیں اور یہ رائیگاںنہیں جائیں گی لیکن مودی حکومت کی وادی کشمیر میں براہ راست ظالم حکمرانی نے پوری دنیا کے سامنے اس کا سفاک چہرہ عیاں کر دیا ہے۔ بھارت مسلسل ساڑھے سات دہائیوں سے کشمیر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کررہاہے۔ ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیری عوام پر بھارتی مظالم کے حوالے سے چشم کشا رپورٹس جاری کررکھی ہیں لیکن اس کے باوجود کشمیر میں بھارتی مظالم میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ مقبوضہ وادی کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے لیے بھارت نے پانچ اگست2019ء کو یکطرفہ اقدام کیا تھا جس کے بعدسے غیور کشمیریوں کے ردعمل کو دبانے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں1217 روز سے کرفیو نافذ ہے۔بین الاقوامی دنیا کو انصاف یقینی بنانا چاہیے اور کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیے جانے کا وعدہ پورا کیا جائے۔گزشتہ 75برس سے مسئلہ کشمیر حل کا منتظر ہے۔ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے اس کے حل کی بات تو کی گئی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک اس کے حل کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات نہیں کیے۔ اسی لیے وادی کشمیر کے باسی خوف اور دہشت کے سایے میں زندگی جی رہے ہیں اور ان کی کئی نسلیں اسی ماحول میں پروان چڑھی ہیں۔پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بین الاقوامی اور عالمی فورمز پر آواز اٹھاتا رہتا ہے۔ جموں و کشمیر توبانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے الفاظ میں پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور پاکستان کی بقا اور سلامتی کی علامت ہے، لہٰذا پاکستان کا اس کے لیے سرگرمِ عمل رہنا فطری بات ہے۔ کشمیری عوام بھی اپنی آزادی کے لیے پاکستان ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔ کشمیریوں کا پاکستان سے تعلق چند برسوں کا نہیں ہے، قیامِ پاکستان سے قبل ہی کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کر لی تھی۔ دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ کشمیریوں کا یہ اعتماد بھی پاکستان کو ہر فورم پر ان کے حق میں بات کا جواز فراہم کرتا ہے۔اس وقت پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں‘ اگر مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل نہ نکالا گیا تو یہ مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ کی نوبت لا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے بالکل درست بات کی ہے کہ جنگوں کافائدہ نہیں نقصان ہی ہوتا ہے اورخطے میںکشیدگی بڑھانے سے بہتر ہے کہ دونوں ملک مذاکرات کی میزپر بیٹھیں اور کشمیر کا پائیدار حل نکال کرامن اور ترقی کی جانب بڑھیں۔
زرعی انقلاب ،ملکی ترقی کا ضامن
خوش قسمتی سے پاکستان کے پاس اس وقت بیرونی سرمایہ کاری کے ایسے مواقع موجود ہیں جن کی بدولت ایس آئی ایف سی کے مطلوبہ اہداف پورے کئے جاسکتے ہیں۔واضح رہے کہ وزیراعظم شہبازشریف نے گذشتہ ماہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں معاشی بحالی پروگرام کے تحت اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی)قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد زراعت، لائیو اسٹاک، معدنیات کان کنی،آئی ٹی اور توانائی سمیت دیگر شعبوں کی بیکار پڑی صلاحیت کو سرمایہ کاری کی صورت میں کام میں لانا اور روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کرنا ہے۔اس پروگرام پر عمل درآمد کا آغاز 7جولائی کو وزیر اعظم شہبازشریف نے آرمی چیف کے ہمراہ راولپنڈی میں قائم کردہ زرعی شعبے سے متعلق پاک فوج کے لینڈانفارمیشن مینیجمنٹ سسٹم کا افتتاح کرکے کیا جس کے تحت تین ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری سے 44 لاکھ ایکڑ بنجر اراضی زیرکاشت لائی جائے گی جس میں سعودی عرب فوری طور پر 50 کروڑ ڈالر لگائے گا۔ منصوبے کے تحت جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے زرعی پیداوار میں دوبارہ خودکفالت حاصل ہوسکے گی۔ اعدادوشمار کے مطابق ملک کے کل آٹھ اعشاریہ چھ کروڑ ایکڑ رقبے کا 28 فیصد یعنی تین کروڑ کے لگ بھگ زراعت کے لئے موزوں ہے جبکہ ناقص منصوبہ بندی اور پانی کی کمیابی کے باعث دوکروڑ 80 لاکھ ایکڑ اراضی بنجر پڑی ہے۔ زرعی ماہرین کے مطابق چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیم تعمیر کرکے اس میں سے دوکروڑ ایکڑ رقبہ زیرکاشت لایا جاسکتا ہے جس کی بدولت یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے برسوں میں فوڈ سیکورٹی کے لاحق سنگین مسئلے سے بخوبی نمٹا جاسکے گا تاہم یہ پروگرام بہرحال خامیوں سے پاک ہونے سے مشروط ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ منصوبہ بے جا سیاسی مداخلت سے بچا رہے گا اور باآسانی مطلوبہ اہداف پورے کرتے ہوئے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد مل سکے گی اور مستقبل کیلئے راہ ہموار ہوسکے گی۔
ہوش ربا مہنگائی
وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق 24 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جبکہ ڈبہ دودھ 20 اور مصالحہ جات کے نرخوں میں 10 سے 140 روپے تک اضافہ ہوااوردوسری جانب یوٹیلٹی بلوں نے عوام کی عملاً چیخیں نکلوا دی ہیں‘ لوگ گھریلو اشیاء فروخت کرکے یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اسکے باوجود بجلی‘ گیس اور پانی جیسی بنیادی چیزوں کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ کیا جارہا ہے۔ ادارہ شماریات ہر ہفتے چیخ چیخ کر بڑھتی مہنگائی کی دہائی دے رہا ہوتا ہے مگر حکومت اپنے اس ادارے کی رپورٹ پر بھی کان نہیں دھر رہی۔ ایک جریدے نے درست تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :’’اتحادی حکومت کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اگر مہنگائی کی یہی صورت حال برقرار رہی تو اتحادی جماعتوں کیلئے انتخابات کے میدان میں اترنا مشکل ہو جائیگا۔روز افزوں مہنگائی سے بادی النظر میں قوم کو یہی عندیہ مل رہا ہے کہ اتحادی حکومت کو عوام کی مشکلات کا ادراک ہونے کے باوجود اس سے کوئی سروکار نہیں ہے‘‘۔ مہنگائی پر قابو پانے کے دعوے روز کئے جا رہے ہیں اور عوام کو روشن مستقبل کی اجلی تصویر بھی دکھائی جارہی ہے مگر عملاً سب کچھ اسکے برعکس ہو رہا ہے۔ دوست ممالک سے بیل آئوٹ پیکیجز ملنے کے باوجود عوامی مشکلات میں کمی نہیں لائی جا رہی جس سے اس تاثر کو بھی تقویت مل رہی ہے کہ بیرون ملک سے آنیوالی امداد اللے تللوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے‘ عوام کا کچھ نہیں سوچا جاتا۔ قوم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ مالی معاونت کے باوجود عوام کو اس کے ثمرات سے کیوں دور رکھا جارہا ہے۔ اب آئی ایم ایف سے بھی قرض کا معاملہ طے پا چکا ہے جس پر پی ڈی ایم اتحاد اپنی کامیابی کے شادیانے بھی بجا رہے ہیں تو پھر عوام کو ریلیف دینے میں کیا امر مانع ہے؟؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex