اداریہ

معاشی بدحالی،قرضوں کی دلدل

پاکستان کے معاشی حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، قرض کی ادائیگیوں کے لیے مزید قرض لینا پڑ رہے ہیں، حال ہی میں شائع ہونے والے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2022-23ء کے اختتام تک سرکاری قرض قریباً 44 کھرب روپے سے بڑھ کر لگ بھگ 63 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے جبکہ مجموعی قرضے اور واجبات 77 کھرب سے متجاوز ہیں جو قومی معیشت کے حجم کے 90 فیصد سے زائد ہیں، اِس قرض میں بیرونی قرضوں کا حصہ قریباً 36 فیصد ہے اور اِسی وجہ سے شرح مبادلہ میں معمولی سا اتار چڑھاؤ ایک ڈالر لیے بغیر بھی قرض کے حجم پر بڑا اثر ڈالتا ہے، روپے کی گرتی قدر کی وجہ سے قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو کہ پاکستان کو درپیش بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں آئندہ چند سالوں کے دوران دوست ممالک کی طرف سے لگ بھگ 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقع کی جا رہی ہے جس کے لیے نگران حکومت اور تمام ملکی ادارے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، اِس سلسلے میں پاک فوج نے بھی نگران حکومت کو مکمل معاونت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ دِگرگوں معاشی حالات اور دہشت گردی کے علاوہ ملک میں رائج ”سرخ فیتہ“ سرمایہ کاری کی راہ کی بڑی رکاوٹ ہے، اِس سے چھٹکارا پانے کے لیے ایس آئی ایف سی یعنی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل نے اپنے کام کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ ایک خبر کے مطابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے وزارت منصوبہ بندی کو پانچ سالہ منصوبے اور طویل مدتی قومی اقتصادی ایجنڈا مرتب کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انوار الحق کاکڑ نے اِس کام کے لیے وزارت منصوبہ بندی کو صوبائی حکومتوں کے علاوہ وفاقی اور صوبائی محکموں سے صلاح و مشورے کی بذریعہ سرکاری مراسلہ تاکید بھی کی ہے۔اْنہوں نے اِس سلسلے میں معاشرے کے مختلف طبقات کو اعتماد میں لینے کے لیے مشاورتی کمیٹیاں تشکیل دینے کی بھی ہدایت کی ہے تاکہ اس وقت جاری بڑے ترقیاتی منصوبوں اورخصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔ نگران وزیراعظم کا ویژن ہے کہ معیشت میں بہتری کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی میں 2035ء تک کی اقتصادی حکمت عملی طے ہونی چاہئے۔ وزارتِ منصوبہ بندی کو گوادر کی ترقی سے متعلق راہ میں حائل رکاوٹیں بھی دور کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
حال ہی میں منعقد ہونے والی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت کورکمانڈرز کانفرنس میں بھی شرکاء نے اتفاق کیا ہے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی زیر نگرانی معاشی سرگرمیوں کی مکمل حمایت کے ساتھ ساتھ معیشت اور سرمایہ کاری کو نقصان پہنچانے والی غیرقانونی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے حکومت کی مکمل معاونت کی جائے گی۔ کانفرنس کے شرکاء نے اِس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ریاست دہشت گردوں، سہولت کاروں اور اْن کی حوصلہ افزائی کرنے والوں سے پوری طاقت سے لڑے گی، مذموم پراپیگنڈہ کرنے والے عناصر مزید رسوائی کا شکار ہوں گے، ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کور کمانڈرز نے ضم شدہ اضلاع اور بلوچستان کے بارڈر اضلاع میں پائیدار امن و ترقی پر زور دیتے ہوئے بالواسطہ اور بلاواسطہ خطرات کے خلاف پاکستان کی خودمختاری کے دفاع کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔ آرمی چیف نے آپریشنز کے دوران پیشہ ورانہ مہارت کا معیار برقرار رکھنے اور فارمیشنوں کی تربیت کے دوران بہترین کارکردگی پربھی زور دیا۔ آرمی چیف نے فوجیوں کی فلاح وبہبود، ان کے حوصلے بلند رکھنے اور مسلسل توجہ پرکمانڈرز کی تعریف بھی کی۔ملکی تاریخ میں کئی پانچ اور دس سالہ منصوبے بنے، تحریک انصاف کے دور سے قبل جناب احسن اقبال نے بطور وزیر منصوبہ بندی ویژن 2025ء متعارف کرایا، اِس سے پہلے بھی ماسوائے تحریک انصاف کے لگ بھگ ہر حکومت نے ایسے منصوبے پیش کیے۔ منصوبوں کا مسئلہ نہیں اصل مشکل تو ان کا پایہ تکمیل تک نہ پہنچنا ہے جس کی بڑی وجہ پالیسی کے تسلسل کا فقدان ہے۔ہر آنے والا جانے والے کی پالیسیوں کو ختم کر کے نئی پالیسی متعارف کرانے کو ہی کارکردگی گردانتا ہے۔دراصل ہمارے ہاں سب سے بڑا فقدان یہی ہے کہ ہر آنے والی حکومت جانے والی حکومت کی تمام پالیسیوں اور منصوبوں کویکسر مسترد کر کے نئے سرے سے کام شروع کردیتی ہے،درحقیقت بگاڑ بھی یہیں سے پیداہو رہا ہے،اگر منصوبوں اور پالیسیوں کا تسلسل یقینی بنادیاجائے تو ایک دن ضرور ہم معاشی استحکام لانے میں کامیاب و کامران ہوجائیں گے وگرنہ صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
سستی بجلی میسرآسکتی ہے
اس وقت عوام کے لیے سب سے زیادہ دردِ سر بننے والا مسئلہ بجلی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت کے نتیجے میں بھاری بھرکم بلوں کی ادائیگی کا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کے تحت بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل بے تحاشا اضافے کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ فی یونٹ بنیادی قیمت میں مسلسل اضافہ کے بعد ہزار گنا زیادہ بل عوام سے وصول کیے جارہے ہیں، تاکہ آئی ایم ایف کے سْود کے قسطوں کی ادائیگی یقینی بنائی جاسکے۔ گزشتہ 16 یا 17 ماہ میں 45 ارب روپے سے زائد کی ادائیگیاں عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر کی جاچکی ہیں اور ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے یہ سلسلہ مزید گھمبیر ہوتا چلا جارہا ہے۔ پورا ملک آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے اور وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر اِسے چلائے جارہا ہے۔ اس سے پہلے کہ مہنگائی کا یہ طوفان ملک و قوم کو بہاکر لے جائے، اس کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ قرضوں اور سْود کی ادائیگی کا بوجھ عام لوگوں پر ڈالنے کی بجائے اشرافیہ پر ڈالا جائے۔ اگر یہ اشرافیہ بیرونِ ملک بنکوں میں رکھی گئی اپنی رقوم اور جائیدادوں کا کچھ حصہ آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں اور سْود کے لیے وقف کردیں تو بعید نہیں کہ ملک و قوم کو بہت کم عرصے میں قرضوں اور سْود کی لعنت سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے۔ حکومتی سطح پر توانائی کے متبادل ذرائع/قابلِ تجدید توانائی (سولر، وِنڈ پاور وغیرہ) پر مبنی منصوبوں کا قیام عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مختلف حکومتوں میں کسی حد تک اس پر کام بھی ہوا، لیکن غیرسنجیدگی کے باعث اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوسکی۔ اس کے ساتھ ہی ہائیڈل پاور جیسی سستی بجلی کے منصوبوں (بھاشا ڈیم، داسو ڈیم، مہمند ڈیم وغیرہ) پر جاری کام کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرکے بجلی کی پیداواری لاگت کو کم سے کم کیا جاسکے۔ انرجی مکس میں ہائیڈل اور تھر کے کوئلے سے بننے والی بجلی کا حصہ بڑھاکر نہ صرف عوام کو سستی بجلی میسر آسکتی ہے بلکہ درآمدی ایندھن پر خرچ ہونے والے کثیر زرِمبادلہ کی بچت کے ذریعے ملک میں جاری اقتصادی بحران پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔
اقلیتوں پر خوف کے سائے
بھارتی ذرائع ابلاغ نے ایک رپورٹ میں کہاہے کہ پولیس نے شہر کی مساجد میں قیام کئے ہوئے تبلیغی جماعت کے ارکان کو نہ صرف مساجد سے باہر نکالا بلکہ انہیں بنارس سے باہر بھیجنے کیلئے ریلوے سٹیشنوں کی طرف روانہ کردیا۔ مساجد کے ذمہ داروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انتباہ کیاگیاکہ مستقبل میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کو روک دیں۔ مسلم کمیونٹی کی مذہبی تنظیمیں اسے اپنے وجود پر حملہ قرار دے رہی ہیں۔ بنارس کی گیانواپی مسجد کی دیکھ بھال کرنے والی تنظیم انجمن اتحاد مسجد کمیٹی کے جوائنٹ سکرٹری ایم ایم یاسین نے کہا کہ پولیس نے جو کچھ بھی کیا، غلط کیا، ان کا یہ عمل قانون اور آئین کے خلاف ہے۔ آزاد اختیار سینا کے صدر اور سماجی کارکن امیتابھ ٹھاکر نے بھی بنارس کمشنریٹ پولیس کے خلاف انسانی حقوق کمیشن سے شکایت کی ہے۔بھارت میں مذہبی شدت پسندی اور متعصبانہ رویوں میں خطرناک حدتک اضافہ ہورہا ہے،شدت پسندہندوئوں کے ہاتھوں نہ صرف مسلمان،سکھ بلکہ خود نچلی ذات کے ہندوئوں بھی محفوظ نہیں ہیں۔دوروزقبل بھی انتہا پسندی کے ایک واقعہ میں ہندو طلباء نے دلت شیف کا پکایا کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست تامل ناڈو کے کارور ضلع کے ایک سرکاری سکول میں 15سے زائد اونچی ذات کے ہندو طلباء نے ناشتہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ہندو طلباء کا موقف تھا کہ سکول انتظامیہ کی جانب سے فراہم کیا گیا ناشتہ دلت خاتون شیف نے بنایا ہے اس لیے وہ نہیں کھا سکتے۔دوسری جانب تبلیغی جماعت پرپابندی کے حوالے سے امیتابھ نے کہا ہے کہ مذہبی تقریبات پر پابندی آئین کی دفعہ25 اور 26 کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ جب سے بھارت میں نریندر مودی کی حکومت آئی ہے مذہبی تشد د میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے،اگر اس پر خود بھارتی حکومت نے قابو نہ پایا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے جس کا نقصان صرف اور صرف بھارت کو ہوگا اور وہ ایک غیرمحفوظ ملک بن کررہ جائے،کیونکہ آخر کب تک مذہبی اقلیتیں مظالم برداشت کرتی رہیں گی؟آخر ایک دن وہ تنگ آمدبجنگ آمد کے مصداق بھارتی مظالم کے خلاف ضرور اٹھ کھڑی ہوں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex