اداریہ

افغان شہریوں کی واپسی میں تاخیرنہیں ہونی چاہیے

حال ہی میں ایپکس کمیٹی کی جانب سے کئے گئے اہم فیصلوں میں پاکستان میں غیرقانونی طورپرمقیم غیرملکیوں کے انخلاکے اقدامات اور بارڈر پر آمدورفت کے طریقہ کار کوایک دستاویز کی صورت میں منظم کرنا شامل ہے جس کے تحت سرحد سے نقل و حرکت کی اجازت صرف پاسپورٹ اور ویزا پر دی جا سکے گی اور غیرقانونی غیرملکی افراد کے کاروبار اور پراپرٹی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس سلسلہ میں وفاقی وزارت داخلہ کے تحت ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی جو جعلی شناختی کارڈز‘ کاروبار اور جائیدادوں کی جانچ پڑتال کرے گی تاکہ غیرقانونی شناختی کارڈز اور جائیدادوں کا سدباب کیا جا سکے۔ ایپکس کمیٹی نے ملک میں بڑھتی ہوئی غیرقانونی سرگرمیوں بشمول منشیات کی سمگلنگ‘ ذخیرہ اندوزی‘ اشیائے خوردونوش اور کرنسی کی سمگلنگ‘ غیرقانونی رقوم کی ترسیل اور بجلی چوری وغیرہ پر جاری کارروائیوں کو مزید بڑھانے اور موثر بنانے کے تمام ممکنہ اقدامات کا جائرہ لیا اور واضح کیا کہ طاقت کا استعمال صرف اور صرف ریاست کا اختیار ہے اورکسی بھی شخص یا گروہ کو طاقت کے زبردستی استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کمیٹی نے باور کرایا کہ ملک میں کسی بھی قسم کے سیاسی مسلح گروہ یا تنظیم کی قطعاً کوئی جگہ نہیں اور اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ اجلاس کے شرکانے اس امر پر زور دیا کہ پراپیگنڈا اور غلط معلومات پھیلانے والوں سے سائبر قوانین کے تحت سختی سے نمٹا جائے۔ نیشنل ایکشن پلان ایپکس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑنے کی۔ اجلاس میں پاکستان میں غیرقانونی طورپر مقیم افغان باشندوں کو اکتیس اکتوبر تک پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈلائن دیدی گئی۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری کئے گئے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کے شرکاء نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ تمام مشکلات کے باوجود عوام کی توقعات کے مطابق آئین اور قانون کی عملداری کو یقینی بنایا جائے گا۔ اجلاس میں وفاقی وزراء، صوبائی وزرائے اعلیٰ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت قانون نافذ کرنے والے تمام سول اور عسکری اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک کی مجموعی سیاسی‘ اقتصادی اور امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ آرمی چیف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کیلئے ہر حد تک جائیںگے۔نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے بقول پاکستان میں غیرقانونی طورپر مقیم افغان اور دوسرے غیرملکی باشندوں کو رضاکارانہ طورپر اس ماہ اکتیس تاریخ تک ملک چھوڑنے کی مہلت دی گئی ہے۔ اگر وہ یکم نومبر کو بھی پاکستان میں موجود ہونگے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں ڈی پورٹ کر دیں گے۔اب کوئی بھی غیرملکی باشندہ بغیر ویزا اور بغیر پاسپورٹ کے پاکستان کی حدود میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کسی اور دستاویز پر کسی اور ملک میں سفر کریں۔ ہمارا واحد ملک ہے جہاں لوگ بغیر پاسپورٹ اور بغیر ویزا کے بھی داخل ہو جاتے ہیں۔ اب ایسا قطعاً نہیں ہونے دیا جائے گا۔یقینا ریاستی رٹ کے حوالے سے بھی اور ملکی سلامتی کے تناظر میں بھی ہماری تمام متعلقہ اتھارٹیز کیلئے یہ لمحہ فکریہ اور آج کا بڑا سوال ہے کہ غیرملکی باشندوں کو اب تک بغیر پاسپورٹ اور بغیر ویزا کے پاکستان میں داخل ہونے کی کیونکر کھلی چھوٹ ملتی رہی ہے۔ ایسا تو شاید کسی بنانا ری پبلک میں بھی نہیں ہوتا ہوگا۔ اگر ہماری سرحدوں پر کسی غیرملکی باشندے کیلئے کوئی روک ٹوک ہی نہیں ہوگی تو جس کا جیسے جی چاہے گا‘ یہاں غدر مچاتا رہے گا۔ہم گزشتہ 46سال سے غیرملکی بالخصوص افغان باشندوں کیلئے اس نرم دلی کا خمیازہ ہی تو بھگت رہے ہیں جس کا آ غاز 70ء کی دہائی میں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین جاری سردجنگ میں پاکستان کو امریکی اتحادی بنانے سے ہوا تھا۔چنانچہ افغان مجاہدین سمیت افغان باشندوں کی پاکستان میں آزادانہ آمدورفت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس جنگ کے دوران ہی چالیس لاکھ افغان باشندے مہاجر بن کر پاکستان آئے جنہیں اس وقت کی حکومت پاکستان نے نہ صرف خیبر پی کے، اسلام آباد اور ملک کے دوسرے شہروں میں عارضی قیام گاہیں بنا کر آباد کیا بلکہ انہیں یہاں کاروبار کرنے اور ان کے بچوں کی مفت تعلیم کی سہولت بھی فراہم کر دی گئی۔
بہرکیف سویت یونین اور افغان جنگ کے دوران جو کچھ ہوا وہ اس وقت کاتقاضاتھا لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک بھر میں پھیلے افغان غیرقانونی مہاجرین کو ان کے اپنے وطن واپس بھیجا جائے بلکہ ہم تو ارباب اقتدار کو یہ بھی تجویز دیں گے کہ جن افغان شہریوں کے پاس پاکستانی شہریت موجود ہے ان کی شہریت بھی منسوخ کر کے انہیں اپنے وطن واپس بھیج دیاجائے ، اسی میں ہی ملک کی بہتری ہے۔
سمگلنگ اور ملکی معیشت
موجودہ نگراں وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں اشیا کی غیر قانونی آمد کو روکنے کی خاطر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت درآمد کی جانے والی اشیا پر دس فیصد پراسسنگ فیس عائد کرنے کا فیصلہ ایک اہم قدم ہے۔ ذرائع کے مطابق اس فیصلے کا مقصد اسمگلنگ کی روک تھام اور باقاعدہ ٹیکس عائد کرنا ہے۔محکمہ کسٹم کے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت تجارتی سامان کے پاکستان کے راستے افغانستان میں داخل ہونے کے ڈکلیئریشن پراسس کے دوران اشیا کی اصل قیمت کے حساب سے 10 فیصد فیس پیشگی ادا کرنا ضروری ہوگا۔ان اشیا میں کنفیکشنری، چاکلیٹ، جوتے، مختلف نوعیت کی مشینری، کمبل، گھریلو ٹیکسٹائل اور گارمنٹس شامل ہیں۔کسٹم حکام کا یہ شبہ جس کا ذکر رپورٹ میں کیا گیا ٹھوس شواہد رکھتا ہے کہ ٹیکس بچانے کیلئے بظاہر افغانستان بھیجا جانے والا کچھ سامان خفیہ طور پر پاکستان میں واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پراسسنگ فیس عائد کیے جانے سے یہ رویہ یقینا تبدیل ہوگا اور حکومت کو معقول مالی وسائل حاصل ہوسکیں گے بشرطیکہ متعلقہ حکام پوری دیانتداری سے اس فیصلے کا نفاذ یقینی بنائیں۔ ایک عہدیدار کے مطابق حال ہی میں کارگو کے حجم میں اضافہ ہوا ہے، افغانستان کی ٹرانزٹ ٹریڈ کی طلب ایک ارب ڈالر سے 2 ارب ڈالر سالانہ ہوجانے کے باوجود نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے تاہم توقع ہے کہ فیس عائد ہونے سے غیرقانونی تجارت میں ملوث افراد کو روکا جا سکے گا جس کا پورا حق پاکستان کو حاصل ہے جبکہ موجودہ افغان حکومت کو اب تک بطور خیرسگالی پاکستان کی جانب سے پھلوں اور سبزیوں سمیت مختلف اشیا پر ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ حاصل رہی ہے۔قومی معیشت کی ابتری اور حکومت کو مالی وسائل کی قلت کا مسئلہ مستقل طور پر درپیش رہنے کا ایک بنیادی سبب اسمگلنگ ہے اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اس کا ایک بڑا ذریعہ رہی ہے۔
مہنگائی اور غریب عوام
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ستمبر میں اشیائے خورد و نوش بدستور مہنگی ہوئیں۔ مہنگائی کی شرح سالانہ بنیادوں پر 38.4 فیصد ہوگئی۔شہری علاقوں میں یہ شرح 4.7 فیصد اور دیہی علاقوں میں 3فیصد تک بڑھی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ماہانہ، سہ ماہی اور سالانہ بنیادوں پر متعدد بار اضافے کے باوجود پاور سیکٹر کے گردشی قرضے بھی بڑھ کر 23.1کھرب تک جاپہنچے ہیں۔ ہر ماہ آنے والا بل صارفین کے لئے 440وولٹ کے جھٹکے سے کم نہیں۔ نیپرا نے ایک بار پھر سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 3 روپے 28پیسے بجلی مہنگی کرکے صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈال دیا ہے جنہیں 6 ماہ میں اضافی ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔ المیہ یہ ہے کہ انہیں اصل بل کے ساتھ درجنوں اقسام کے ٹیکس ادا کرنا پڑتے ہیں۔ آئی پی پیز کے مہنگے معاہدوں،مفت اور بجلی چوری کا خمیازہ بھی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔گزشتہ ستمبر کے مقابلے میں آج بجلی کا ایک یونٹ 166فیصد زیادہ مہنگا ہوگیا ہے اس طرح گیس کی قیمت گزشتہ سال کے مقابلے میں 63فیصد زیادہ ہے۔ جس میں مزید 45فیصد اضافے کا امکان ہے۔پٹرول ریلیف کے بعد بھی 324روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ شرح سود 22فیصد ہونے کے باوجود بنیادی مہنگائی میں کمی نہیں آئی۔ آٹے کی قیمتوں میں 88 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ چاول کی قیمت میں تقریباً دو تہائی اضافہ ہوا۔ مہنگائی ایک بار پھر ایسے وقت میں عروج پر ہے جب روزگار کے مواقع کم ہیں۔ تنخواہ دار اور دیہاڑی دار طبقہ ساری بدحالی سے بہت زیادہ متاثر اور شدید مالی مشکلات کا شکارہے۔بجلی کے نرخوں میں اضافے کے باعث مہنگائی کی شرح ستمبر میں 31.44 فیصد ہوگئی ہے جو کہ چار ماہ کی بلند ترین شرح ہے۔ نگران حکومت کوچاہیے کہ وہ مہنگائی کے اس ریلے کے آگے بندباندھے اور عوام کو ریلیف دے تاکہ اسے لوگ اچھے لفظوں میں یاد رکھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex