اداریہ

نیب اختیارات کامعاملہ

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ نیب ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لے رہے ہیں۔اگر نگران حکومت نے نظرثانی کی درخواست دائر نہ کی تو سپیکر قومی اسمبلی یا کوئی اور متاثرہ شخص ایسا کر سکتا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کی ذمہ داری زیادہ ہے کہ اِس فیصلے سے ارکان اسمبلی شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں دیے گئے فیصلے کے ملک اور اِس کے مستقبل پر کیا اثرات ہوں گے، اِس پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا تاہم یہ حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے بنائے گئے نیب قانون کو نہ صرف کالا قانون قرار دیا جاتا رہا بلکہ اِس کے ذریعے ’’سیاسی انجینئرنگ‘‘ کا الزام تواتر سے سامنے آتا رہا ہے۔اِس پر دو رائے نہیں کہ احتساب ہونا چاہئے تاہم اِس کی شفافیت پر ہمیشہ ہی سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ نیب قانون میں بعض ایسی شقیں شامل تھیں جن کی بنیاد پر کئی قانونی اور سیاسی حلقے اِسے غیر انسانی کہتے رہے،یہاں تک کہا گیا کہ اِس قانون کے ہوتے ہوئے ملک چل سکتا ہے نہ معیشت۔عدالت عظمیٰ کی بھی لاتعداد آبزرویشنز موجود ہیں جن میں نیب کی کارکردگی پر سخت سوالات اٹھائے گئے۔پاکستان تحریک انصاف سمیت سب سیاسی جماعتیں وقتاً فوقتاً ترامیم کرنے کی نہ صرف کی خواہش کا اظہار کرتی رہیں، خود تحریک انصاف کی حکومت تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے قبل نیب ترامیم سے متعلق اْس وقت کی اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کرتی رہی۔ بعض ناقدین نیب کو ’’اوور لیپنگ‘‘ (اضافی) ادارہ بھی قرار دیتے ہیں، اْن کے مطابق اینٹی کرپشن اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے) کے علاوہ سیاستدانوں کے احتساب کے لیے ادارہ جاتی سطح پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور آڈیٹر جنرل آفس موجود ہیں جن کی موجودگی میں نیب کا ہونا خصوصاً جب اِن کے درمیان اختیارات کی حد بندی بھی نہ ہو، بہت سے مسائل پیدا کرتا ہے۔اِس بحث سے قطع نظر کہ نگران حکومت کیا کرے گی یا سپریم کورٹ میں کیا ہو گا، نیب کو بطور ادارہ اپنا احتساب کرنے کی بھی شدید ضرورت ہے، نیب میں عملے کی کمی سامنے آئی ہے، اِسے دور کرنے کی کارروائی شروع کی جا چکی ہے، نیب کو چاہئے کہ وہ صرف ایسے افسروں کو ادارے میں تعینات کرے جو نہ صرف تفتیشی امور کے ماہر ہوں بلکہ اُن کی ساکھ بھی اچھی ہو۔ نیب کو اپنے ادارے سے متعلق شکایات کے ازالے کے ساتھ ساتھ سیاسی انجینئرنگ کے تاثر کو بھی جلد از جلد ختم کرنا چاہیے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ سپریم کورٹ کے سہ رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل بھی فل کورٹ سنے۔چیف جسٹس بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد نظرثانی کرنے والا بینچ ازسر نو تشکیل دینا ہو گا، نئے چیف جسٹس جو اعلیٰ روایات قائم کر رہے ہیں،اُن کا تقاضہ ہے کہ اِس معاملے کو بھی فل کورٹ (یا لارجر بینچ) سنے تاکہ ہمیشہ کے لیے نیب کی حدود و قیود کا معاملہ طے ہو سکے اور سیاسی انجینئرنگ کرنے والوں کی خواہشات کو لگام دی جا سکے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے مقدمات بحال ہونے کے بعد نیب نے ریکارڈ احتساب عدالتوں کو پہنچانا شروع کر دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد کے علاوہ راولپنڈی، لاہور، ملتان، سکھر، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں نیب کے علاقائی دفاتر سے متعلقہ مواد احتساب عدالتوں میں جمع کرایا جا رہا ہے۔ احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے کیس کی سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر کو مقدمات کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پرائیویٹ، پبلک آفس ہولڈرز اور سرکاری ملازمین کے مقدمات کی نوعیت مختلف ہے، نیب پراسیکیوٹر نے بتانا ہے کہ کون سا کیس سن سکتے ہیں اور کون سا دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نیب کے حالیہ مشاورتی اجلاس میں عدالتی حکم پر من وعن عمل کرنے اور میگا کرپشن مقدمات کا تمام ریکارڈ احتساب عدالتوں کو جلد از جلد بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔کہا جا رہا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری، کئی سابق وزرائے اعظم اور وزراء کے مقدمات دوبارہ کھل رہے ہیں۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے چند روز قبل نیب آرڈیننس میں پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی کئی ترامیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سات روز کے اندر اندر ختم کئے گئے ریفرنس، تفتیشیں اور انکوائریاں احتساب عدالتوں کو بھیجنے کا حکم دیا تھا۔بہر حال چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے یہ قوم امید کرتی ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے نیب کے اختیارات کاتعین کردیں تاکہ آئے روز نیب اختیارات کے بحث مباحثے اورترامیم کے یہ ڈرامے بند ہو سکیں۔
اسلاموفوبیا کا تدارک ضروری
ترکیہ، ایران اور قطر کے سربراہانِ مملکت نے سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن پاک کو جلانے کے ناپاک واقعات پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے نمائندہ عالمی فورم سے سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن پاک اللہ کی مقدس کتاب ہے جس کے ماننے والوں کی دنیا بھر میں تعداد اربوں میں ہے۔ اس کی توہین سے مسلم برادری کی دل آزاری ہوئی۔ آزادی اظہار رائے کے نام پر جان بوجھ کر کئے جانے والے ایسے واقعات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ترکیہ کے صدر طیب اردگان نے کہا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات ناقابل برداشت ہیں۔ ایسا کرنے والے اسلاموفوبیا اور نسل پرستی میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے مغربی ممالک کی ایسے واقعات پر خاموشی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل اب دنیا میں قیام امن کی ضامن نہیں رہی، یہ کونسل 5 مستقل اراکین (امریکا، برطانیہ، روس، چین اور فرانس) کا میدان جنگ بن چکی ہے جبکہ ایرانی صدر نے بھی مسلم تشخص کو زک پہنچانے‘ قرآن پاک کی بے حرمتی سے لے کر حجاب پر پابندی کے اقدامات کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ واضح رہے کہ دوسال قبل 15 مارچ 2022ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی ’’انٹرنیشنل ڈے کامبیٹ اسلامو فوبیا‘‘ عالمی دن منانے کی قرارداد منظور کی گئی۔ اس قرارداد کی چین اور روس سمیت آٹھ دیگر ممالک نے تائید کی جبکہ بھارت‘ فرانس اور یورپی یونین نے اسکی کھل کر مخالفت کی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس قرارداد کی منظوری کے بعد قرآن پاک اور دین اسلام کے دوسرے مقدسات کی بے حرمتی کے واقعات کا مکمل تدارک ہوتا مگر افسوس کہ بے حرمتی کے واقعات کیخلاف آج بھی مسلم دنیا کو اقوام متحدہ سمیت دوسرے عالمی فورموں پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا پڑ رہا ہے۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر سختی سے عمل درآمد کرائے اور جو ملک ایسے واقعات کا مرتکب ہو‘ اس کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائے۔ اقوام متحدہ کے 78ویں جاری اجلاس میں گزشتہ روز ترکیہ‘ ایران اور قطر نے قرآن پاک کی بے حرمتی جیسے واقعات پر احتجاج کیا اور اقوام متحدہ سے سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ خود یہ اعتراف کر چکا ہے کہ مسلمانوں کیخلاف امتیازی سلوک اور تشدد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جو اسلامو فوبیا کا ہی عکاس ہے۔ ڈنمارک تو قرآن کی بے حرمتی روکنے کیلئے قانون پاس چکا ہے جو ایک اچھا اقدام ہے۔ لیکن جب تک اس قانون پر سختی سے عملدرآمد نہیں کیا جاتا اور اقوام متحدہ اسلامو فوبیا کی منظورکردہ قرارداد پر سختی سے عملدرآمد نہیں کراتا‘ ایسے واقعات کا تدارک ممکن نہیں۔
مصنوعی گندم بحران
ملک میں مصنوعی طور پر پیدا کردہ گندم کا اعصاب شکن بحران جس طرح باامر مجبوری اس کی درآمد پر جا کر منتج ہوا اس سے ملک کا کثیر زر مبادلہ خرچ ہوا اور گندم برآمد کرنے والا ملک درآمد کرنے والوں میں شامل ہوگیا۔ صورت حال اس نہج پر جانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ منافع خور اور سماج دشمن عناصر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مصنوعی بحران پیدا کرکے گندم اسمگل کردیتے ہیں اور ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نہیں نمٹا جاتا۔ نگران حکومت اور حساس اداروں نے ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے گرد گھیرا تنگ کیا ہے۔ کراچی میں ایک بڑی کارروائی میں ڈیڑھ ارب کی اجناس برآمد کی ہیں اور نجی گندم کی درآمد کا عملی آغاز کیاہے۔ بلغاریہ سے 55 ہزار ٹن گندم لانے والا پہلا بحری جہاز کراچی لنگر انداز ہوگیا ہے اور کل تک روس سے ایک لاکھ 10 ہزار ٹن گندم لانے والے مزید دو جہاز پورٹ قاسم پہنچیں گے۔ امپورٹڈ گندم کے پہنچتے ہی ملک بھر کی اوپن مارکیٹ میں مندی آنا شروع ہوگئی ہے اور امکان ہے کہ آئندہ چند روز میں گندم کی قیمت میں 100سے دو سو روپے کی کمی آئے گی۔ پنجاب، سندھ کے امپورٹرز اب تک 7لاکھ 50 ہزار ٹن سے زیادہ گندم خرید چکے ہیں۔ توقع ہے کہ فروری 2024تک مجموعی طور پر 12لاکھ ٹن سے زیادہ گندم امپورٹ کی جائے گی۔ اس سے پہلے بھی روس سے 55 ہزار ٹن گندم درآمد کی گئی تھی۔ امید کی جا رہی ہے کہ امپورٹڈ گندم ملنے سے فعال فلور ملز کو بلیک مارکیٹ سے خریداری کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ 15 اکتوبر سے فلور ملز کو سرکاری گندم کی فراہمی سیاوپن مارکیٹ میں 2750روپے میں ملنے والا 20کلو آٹے کا تھیلا 2600میں دستیاب ہوگا۔ عوامی ریلیف کے فوری اقدامات اپنی جگہ درست تاہم گندم کی کمی پوری کرنے کا مستقل بنیادوں پر اہتمام ہونا چاہئے۔پاکستان گندم کی پیداوار میں دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔ اس برس ریکارڈ گندم پیدا ہونے کے باوجود آٹا غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہوچکا ہے،یہ کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex