اداریہ

عام انتخابات اور نگران سیٹ اپ

’’انتخابات فوج کی نگرانی میں ہوں گے یا نہیں اِس کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے کرنا ہے، سویلین اداروں کی کارکردگی خراب ہے اِسی لئے فوج سے مدد لینا پڑتی ہے‘‘۔ لندن میں میڈیا سے بات چیت اور ترک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف عدالت کے اجازت نامے کے ساتھ باہر گئے، وطن واپسی پر اُن کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق ہی سلوک ہو گا۔ اُنہوں نے واضح کیا کہ نگران حکومت آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام کر رہی ہے،یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ وہ کسی سیاسی جماعت یا گروہ کے خلاف ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ صاف شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے مقامی اور بین الاقوامی مبصرین موجود ہوں گے، اگر وہ، میڈیا اور سول سوسائٹی یہ اشارہ دے دیتے ہیں کہ صاف شفاف انتخابات ہوئے ہیں تو وہ سمجھیں گے کہ اُن کا کام پورا ہو گیا۔عمران خان کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر اُنہوں نے کہا اُن کے پاس غیب کا علم نہیں کہ آنے والے الیکشن کس کے ساتھ اور کس کے بغیر ہوں گے،وہ سمجھتے ہیں کہ اگر معاشرے کو انارکی کی طرف لے جایا جائے تو نہ معاشرہ رہے گا اورنہ ہی جمہوریت۔اُنہوں نے تین مرتبہ لفظ معیشت دہراتے ہوئے کہا کہ اِس کے سوا ہمیں کوئی چیلنج درپیش نہیں ہے۔نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے یہ بھی کہا ہے کہ نواز شریف کی واپسی اور عمران خان کے الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ قانون کے مطابق ہو گا، کسی سے کوئی ڈیل یا ڈھیل نہیں ہے، دراصل میڈیا اپنی بھوک مٹانے کے لئے ایسی خبریں چلاتا ہے،نگران حکومت کی وابستگی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں،الیکشن کمیشن جلد ہی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا۔ یوں تو نگران حکومتوں کا تصور دنیا کے دیگر ممالک میں پایا ہی نہیں جاتا وہاں سسٹم اور ادارے اتنے مضبوط ہیں کہ پُرامن انتقالِ اقتدار کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے،خود ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں الیکشن کمیشن اتنا مضبوط اور آزاد ہے کہ وہ کسی دباؤ،جانبداری اور مصلحت کے بغیر انتخابات کراتے ہوئے سب کو لیول پلئینگ فیلڈ فراہم کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اُس کی نگرانی میں کرائے گئے انتخابات پر ڈیڑھ ارب آبادی والے ملک میں بھی بہت کم انگلیاں اٹھتی ہیں۔ پاکستان میں 1990ء میں نگران حکومتوں کو متعارف کرایا گیا اور اِن کے ذمے غیر جانبدار اور شفاف انتخابات کرا کر پُرامن انتقالِ اقتدار لگایا گیا تاہم نگران حکومتیں خود کو جانبداری سے نہ بچا سکیں،نگران وزیراعظم کا انتخاب سبکدوش ہونے والی حکومت کے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر کرتے ہیں تاہم ہمارے ہاں موجود سیاسی عدم برداشت کے باعث یہ نگران حکومتیں اکثر متنازعہ ہی قرار پائیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت کے اختتام پر شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کی مشاورت سے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا نام سامنے آیا جس کے بعد بلوچستان اور سندھ میں نگران صوبائی حکومتیں وجود میں آئیں۔پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگران حکومتیں پہلے ہی قائم ہو چکی تھیں تاہم پنجاب میں سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود انتخابات نہ کرائے جا سکے، خیبرپختونخوا کا معاملہ بھی کسی طرف نہیں لگ سکا۔ الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں آئندہ سال جنوری میں انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا ہے اور اُس کے لئے حلقہ بندیوں کی ابتدائی رپورٹ بھی اپنی ویب سائٹ پر جاری کر دی ہے، اس لئے اب ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف بھی اکتوبر میں وطن واپسی کا اعلان کر چکے ہیں اور اُن کے استقبال کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ ایسے میں نگران وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے میاں نواز شریف کی و اپسی اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے بیانات سامنے آئے جس کے بعد سے سیاسی بیان بازی میں شدت آ گئی،مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی جانب سے اِن بیانات پر سخت ردعمل سامنے آیا جس کے بعد نگران وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو اپنے بیانات کی وضاحت کرنی پڑی۔ وزیراعظم کا تازہ بیان اُسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھا جا سکتا ہے جس میں اُنہوں نے وضاحت کی ہے کہ نواز شریف کو واپسی پر آئین اور قانون کے مطابق ڈیل کیا جائے گا، اب جبکہ الیکشن کمیشن جنوری میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر چکا ہے اور سیاسی جماعتیں بھی انتخابات کی جانب بڑھ رہی ہیں ایسے میں نگران حکومت کی جانب سے بیانات سیاسی ماحول کو کشیدہ کرنے کا باعث سکتے ہیں۔ نگران حکومت کا واحد مقصد اپنی غیرجانبداری برقرار رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کو پُرامن ماحول فراہم کرنا ہے۔ اُس کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ کسی خاص سیاسی جماعت کی جانب جھکاؤ یا پہلوتہی کا تاثر نہ پیدا ہونے اور اگر نگران حکومت اِس تاثر کو قائم کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو ایک جانب الیکشن کی شفافیت مشکوک ہوتی ہے جبکہ دوسری جانب انتخابات کے بعد سیاسی ماحول میں استحکام کے بجائے نیا بحران سر اٹھا سکتا ہے اِس لیے نگران حکومت کو اپنے بیانات اور عمل کے حوالے سے ازحد محتاط ہونے کی ضرورت ہے،کیونکہ نگران حکومتی اراکین کی ذرا سی بے احتیاطی اور غیر ذمہ دارانہ رویوں سے ایک نیا بحران پیدا ہو سکتے ۔نگران حکومت کا کام صرف الیکشن کروایا اور پرامن انتقال اقتدار ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
ملازمین کی نگرانی کی جائے
نگران وزیربلدیات سندھ نے کراچی کے سات اضلاع میں گیارہ سو کے قریب ایسے ہی افراد کی موجودگی کا اظہار کیا ہے جو گھر بیٹھے اس محکمے سے تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق ان میںبیشتر افراد دو ملازمتیں کرتے ہیں۔ آج نادرا کے توسط سے کسی بھی مشکوک شخص کا پتا لگانا ناممکن نہیں رہا لیکن ایسا نہ ہونے سے گھوسٹ ملازمین اور پنشنرز ریلوے اور تعلیم سمیت وفاقی اورصوبائی حکومتوں سے اربوں روپے سالانہ کے غیرقانونی واجبات وصول کر رہے ہیں۔آمدہ رپورٹ کے مطابق نگران حکومت سندھ نے ملازمین کی حاضری یقینی بنانے کیلئے صوبے میں بائیومیٹرک سسٹم لانے کا اعلان کیا ہے، یہ ایک کامیاب ٹرانسپیرنٹ نظام ہے اور نجی شعبے میں کامیابی سے چل رہا ہے اور بعض سرکاری محکمے بھی اس پر کاربند ہیں، تاہم ملک بھر میں گھوسٹ اسکول اور ملازمین سب سے زیادہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے محروم دور دراز علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ کئی برس سے ان مقامات پر قائم اسکولوں میں با اثر لوگوں کے مال مویشی باندھے جانے کی اطلاعات منظر عام پر آ رہی ہیں، نیب سمیت بعض دوسرے تحقیقاتی اداروں کو بھیجی گئی رپورٹوں میں بوگس پنشنروں کی موجودگی کے انکشاف پر کارروائی کا آغاز بھی ہوا تھا تاہم اس کے آگے بڑھنے یا کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کی تاحال کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ سرکاری اداروں اور محکموں میںگھوسٹ سے لیکر بدعنوان ملازمین کی موجودگی قومی خزانے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔نگران حکومت نے جس طرح ڈالر اور اسمگلنگ کے خلاف کامیاب قدم اٹھایا ہے ضروری ہوگا کہ اس دائرہ کار میں گھوسٹ ملازمین بھی شامل کئے جائیں۔کم وبیش دو دہائیوں سے ملک گیر سطح پر سرکاری محکموں میں گھوسٹ ملازمین کی بارہا نشاندہی ہوچکی ہے لیکن ان کے خلاف کارروائی نہ ہونا سب سے بڑا لمیہ ہے۔تمام اداروں کوایسا نظام وضع کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے ملازمین کی سخت مانیٹرنگ کرسکیں اور جو ملازمین گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کر سکیں۔
مودی کی دہشت گردی
امریکی جریدے بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے ذریعے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کی گئی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر و جرائم کے بھارتی تاریخ میں سب سے زیادہ واقعات رونما ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2014ء میں مودی کے اقتدار میں آ نے کے بعد سے بھارتیوں میں مسلمانوں کے خلاف رجحان بہت بڑھ گیا۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے ریکارڈ شدہ 255 واقعات میں سے تقریباً 80 فیصد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کی زیر حکومت ریاستوں میں پیش آئے۔ بلومبرگ نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم ایک تحقیقی گروپ ہندوتوا واچ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں نفرت انگیز تقاریر اور بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جرائم کے اعداد و شمار کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ اس لحاظ سے بھی اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے جس میں 2017ئمیں بھارت کے کرائم بیورو کی جانب سے نفرت پر مبنی جرائم کے اعداد و شمار جمع نہ کرنے کے بعد سے مسلم مخالف تقاریر اور دیگر پرتشدد واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ رفتہ رفتہ جو رپورٹس اور شواہد سامنے آرہے ہیں انھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کے انتہا پسند ہندو ریاست ہونے کے بارے میں اب اقوام عالم کو مکمل آگاہی ہو چکی ہے۔ اسی حوالے سے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کے ہاتھ روک کر ہی علاقائی اور عالمی امن یقینی بنایا جاسکتا ہے۔بھارت میں مودی سرکار نے گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے نفرت کا جو بازار گرم کررکھا ہے اس کی وجہ سے بالعموم تمام اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوچکا ہے لیکن حیرت اس پر ہے کہ عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مودی کی اس دہشت گردی پر مسلسل خاموش ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex