اداریہ

سب سے پہلے عوام کاسوچیں

اس وقت عوام کے اندر بجلی، پٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی مسلسل اور ناقابلِ برداشت بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف شدید اشتعال اور غم و غصہ ہے۔ بجلی کے بلوں میں کم و بیش ہزار گنا اضافہ نے عوام کا پارہ ہائی کردیا ہے۔ چند سو روپے روزانہ کمانے والے دیہاڑی دار طبقہ سے لے کر مڈل اور اپر مڈل کلاس بھی بجلی کے بھاری بھرکر بل ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری طرف واپڈا ملازمین اور دیگر سرکاری افسران مفت خوری کی پالیسی کے تحت کروڑوں یونٹ ماہانہ فری استعمال کررہے ہیں۔ اس مفت خوری کو لگام دینے کے عوامی مطالبے پر عملدرآمد کی بجائے واپڈا ملازمین کو مزید مراعات سے نوازتے ہوئے حکومت نے تمام گریڈ کے ملازمین کیلئے خصوصی الاؤنس کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف ملک میں واپڈا ملازمین ہی بھرپور سہولتوں کے مستحق ہیں؟کیا دوسرے محکمہ جات کے سرکاری و پرائیویٹ ملازمین کہ جن کی تنخواہیں بہت ہی کم ہیں وہ خصوصی الائونس یامفت یونٹس کے مستحق نہیں ہیں۔دوسری جانب اس وقت عوام کے لیے سب سے زیادہ دردِ سر بننے والا مسئلہ بجلی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت کے نتیجے میں بھاری بھرکم بلوں کی ادائیگی کا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدہ کے تحت بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل بے تحاشا اضافے کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ فی یونٹ بنیادی قیمت میں مسلسل اضافہ کے بعد ہزار گنا زیادہ بل عوام سے وصول کیے جارہے ہیں، تاکہ آئی ایم ایف کے سْود کے قسطوں کی ادائیگی یقینی بنائی جاسکے۔ گزشتہ 16 یا 17 ماہ میں 45 ارب روپے سے زائد کی ادائیگیاں عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر کی جاچکی ہیں اور ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے یہ سلسلہ مزید گھمبیر ہوتا چلا جارہا ہے۔ پورا ملک آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے اور وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر اِسے چلائے جارہا ہے۔ اس سے پہلے کہ مہنگائی کا یہ طوفان ملک و قوم کو بہاکر لے جائے، اس کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ قرضوں اور سْود کی ادائیگی کا بوجھ عام لوگوں پر ڈالنے کی بجائے اشرافیہ پر ڈالا جائے۔ اگر یہ اشرافیہ بیرونِ ملک بنکوں میں رکھی گئی اپنی رقوم اور جائیدادوں کا کچھ حصہ آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں اور سْود کے لیے وقف کردیں تو بعید نہیں کہ ملک و قوم کو بہت کم عرصے میں قرضوں اور سْود کی لعنت سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے۔ حکومتی سطح پر توانائی کے متبادل ذرائع/قابلِ تجدید توانائی (سولر، وِنڈ پاور وغیرہ) پر مبنی منصوبوں کا قیام عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مختلف حکومتوں میں کسی حد تک اس پر کام بھی ہوا، لیکن غیرسنجیدگی کے باعث اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوسکی۔ اس کے ساتھ ہی ہائیڈل پاور جیسی سستی بجلی کے منصوبوں (بھاشا ڈیم، داسو ڈیم، مہمند ڈیم وغیرہ) پر جاری کام کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرکے بجلی کی پیداواری لاگت کو کم سے کم کیا جاسکے۔ انرجی مکس میں ہائیڈل اور تھر کے کوئلے سے بننے والی بجلی کا حصہ بڑھاکر نہ صرف عوام کو سستی بجلی میسر آسکتی ہے بلکہ درآمدی ایندھن پر خرچ ہونے والے کثیر زرِمبادلہ کی بچت کے ذریعے ملک میں جاری اقتصادی بحران پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ قابلِ تجدید توانائی پالیسی 2019ء کے مطابق ملک میں سولر اور وِنڈ انرجی کو فروغ دے کر انرجی مکس میں اس کا حصہ سال 2025ء تک25 فیصد اور سال 2030ء تک 30 فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا، تاہم عدم دلچسپی کے باعث یہ پالیسی بھی تاحال سردخانے کی نذر ہے۔ نئے انتخابات کے بعد بننے والی اسمبلی کے ذریعے آئین میں ترامیم کرکے بھی حکومت کو پابند کیا جاسکتا ہے کہ کسی غیر ملکی امدادی ادارے، حکومت یا فرد سے معاہدہ کرنے سے پہلے پارلیمنٹ سے اس کی پیشگی منظوری لی جائے گی اور اندرونی یا بیرونی ذرائع سے لیے گئے قرضوں اور سْود کی ادائیگی کا بوجھ عوام پر ٹیکسز عائد کرکے نہیں ڈالا جائے گا بلکہ یہ رقم سرکاری اداروں کے غیرترقیاتی اخراجات میں کمی کرکے ادا کی جائے گی۔ عوام کے اندر بھی بجلی استعمال کے حوالے سے شعور اْجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ بجلی استعمال سے متعلق پیک آوورز اور آف پیک آورز کا تصور اور ان اوقات میں بجلی کے الگ الگ ٹیرف عوام کو غیرضروری اْلجھن میں مبتلا کرنے کے سوا کچھ نہیں، بجلی صارفین کی اکثریت اب بھی اِن اوقات میں بجلی استعمال میں احتیاط سے ناواقف اور پیک آورز، آف پیک آورز کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں، جس کی وجہ سے انہیں کم یونٹس استعمال کے باوجود زیادہ بل آجاتا ہے۔ لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ پیک آورز کے تحت اضافی ریٹس کا نظام ہی ختم کردیا جائے۔ جب عوام بیسیوں قسم کے ٹیکسز پہلے ہی ادا کررہے ہیں تو اس نئی اْلجھن میں اْنہیں مبتلا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟بہر کیف ملک میں جاری معاشی، سیاسی، آئینی، انتخابی بحرانوں کے حل کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ حکومتی پالیسیوں پر سنجیدگی سے نظرثانی کی جائے۔ قرضوں اور سْود کی بنیاد پر نہ کسی قوم نے ترقی و خودانحصاری کی منزل حاصل کی ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔حکومتوں کی پہلی ترجیح صرف اور صرف عوام کو سہولتیں مہیا کرنے کی ہونی چاہیے،اور بس۔
مسائل حل کیے جائیں
گوکہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے پیش نظرملک میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کرانا ہے لیکن اس کے ساتھ وہ چیلنجوں سے نمٹنے، پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لئے بھی سرگرم عمل ہیں۔ وزیراعظم نے اس عزم کو دہرایاہے کہ عام انتخابات کا انعقاد آئین کے مطابق جلدکرانے کے لئے ہر ممکن معاونت فراہم کی جائے گی ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اگلے دو سے پانچ سال کے دوران پاکستان میں 25ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ خلیجی ممالک سے بھی 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔ حکومت نجکاری عمل بھی بحال کرے گی۔ سعودی حکومت کی طرف سے 25ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملکی معیشت کی بحالی کی جانب ایک بڑی پیش رفت ہوگی اور یہ سعودی حکومت کی اب تک کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہوگی۔ اگرچہ نگران وزیر اعظم نے سعودی عرب کی سرمایہ کاری کے منصوبوں کی نشاندہی نہیں کی لیکن گزشتہ ماہ بیرک گولڈ کارپوریشن نے کہا تھا کہ وہ ریکوڈک منصوبے میں پاکستان کے شراکت دار کی حیثیت میں سعودی عرب کی آمد کا خیر مقدم کرے گا۔ پاکستان کے معدنی وسائل 60 کھرب ڈالر مالیت کے ہیں جبکہ ریکوڈک کے حوالے سے خیال ہے کہ یہ کاپر اور سونے کے دنیا کے سب سے بڑے خزانوں میں سے ہے۔ نگران وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں بجلی کی مجموعی پیداوار، استعداد اور مختلف موسموں میں بجلی کی مجموعی ترسیل، تقسیم کارکمپنیوں کی وصولیوں کے نقصانات اور بجلی چوری کے اعداد و شمار پیش کئے گئے۔ وزیر اعظم نے بجلی چوروں اور نادہندگان کے خلاف سخت کارروائی شروع کرنے اور صارفین کو ریلیف دینے کے غیر روایتی حل تلاش کرنے کی ہدایات بھی دیں۔ اس وقت ملک کو مہنگائی، معاشی بدحالی،اندرونی اور بیرونی سازشوں، سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی، اسمگلنگ،ملکی معیشت پر بوجھ بننے والے اداروں کی نجکاری، چینی اور بجلی کے بحرانوں سمیت کئی چیلنج درپیش ہیں۔نگران حکومت کو چاہیے کہ وہ کم از کم جن مسائل کے حوالے سے اختیارات رکھتی ہے انہیں حل کرنے کے لیے تمام اقدامات بروئے کار لائے۔
اقلیتوںکے حقوق پر ڈاکہ
مودی کے ہندوستان میں بڑھتی ہندوتوا شدت پسندی اقلیتوں کے لئے سنگین خطرہ بن چکی ہے، ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کی کھلے عام خلاف ورزی جاری ہے۔بھارت میں مذہبی شدت پسندی اور عدم برداشت کے بڑھتے واقعات مودی کی نفرت انگیز پالیسیوں کا نتیجہ ہیں، مودی کے ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کی کھلے عام خلاف ورزی، بی جے پی کی کھلے عام اقلیتوں کو دھمکی مودی کی سوچی سمجھی سازش ہے۔اب بی جے پی رہنما نے دھمکی دی ہے کہ ہندوستان میں اگر کوئی ہندوئوں کو للکارے گا اس کی بھارت میں کوئی جگہ نہیں، صرف مسلم اقلیت ہی نہیں بلکہ سکھ اور عیسائی برادری بھی مودی سرکار کے عتاب کا نشانہ بن گئے۔پچھلے کچھ عرصے میں بھارت میں نہ صرف مساجد بلکہ کئی گرجا گھروں کو بھی مسمار کیا گیا، حال ہی میں گائے کا گوشت لے جانے کے شبے میں مسلم نوجوان کو بیہمانہ تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔بین الاقوامی ذرائع کے مطابق 2014ء کے انتخابات میں مودی کی قیادت میں بی جے پی کی جیت کے بعد سے ہندو قوم پرستی میں اضافہ ہوا ہے، ہندو، مسلمان اور ہندو کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق آدتیہ ناتھ یوگی متعدد ویڈیوز سے ثابت ہوا کہ کس طرح آر ایس ایس کے نظریے سے متاثر ہندو قوم پرست اقلیتوں کو دھمکا رہے ہیں۔واضح نظرآرہاہے کہ بھارت میں کشیدگی کے بڑھتے واقعات آنے والے انتخابات میں مودی کی کامیابی کے لئے ہتھکنڈا ہیں۔عالمی اداروں اور بالخصوص انسانی حقوق کی تنظیموں کو مودی کی اس تنگ نظری اور دہشت گردی کے خلاف آواز بلندکرکے بھارت میں اقلیتوںکو تحفظ دینے کے لیے فوری اقدامات کرناہوںگے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex