اداریہ

قبلہ اول کی پکار اور امت ِمسلمہ

مورخہ سات اکتوبر 2023سے اب تک اسرائیلی فوج کی درندگی مسلسل جاری ہے اور مزید 600کے قریب فلسطینی شہیدہو گئے ہیں ،شہید ہونے والوںکی کل تعداد تین ہزار سے متجاوز کرگئی ہے۔صیہونی فوج کی دہشت گردی کے نتیجہ میں ہزاروں مکانا ت اور دیگر عمارتیں ملیامیٹ ہو چکی ہیں اورلاکھوں فلسطینی دربدر ہو گئے ہیں۔اس پورے معاملے میں اقوام متحدہ بھی ایک کٹھ پتلی بنا ہوا ہے اور اس کے سربراہ انتونیو گوتریس منت سماجت کے انداز میں کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری اور ناکہ بندی کے دوران شہریوں تک خوراک، ایندھن اور پانی جیسی اشیائے ضروریہ پہنچانے کی اجازت دی جائے۔ اقوام متحدہ نے غزہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے طبی و بنیادی سہولیات منقطع کرنے کو غیر انسانی فعل قرار دیا اور اسرائیل سے فوری طور پر بنیادی سہولیات کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ محض بیانات سے صورتحال میں اگر کوئی بہتری آنی ہوتی تو یہ مسئلہ اب تک حل ہوچکا ہوتا۔
فلسطین اور کشمیر دونوں گزشتہ پون صدی سے اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر ہیں لیکن دونوں مسائل اس لیے حل نہیں ہوئے کہ مسلم ممالک کے حکمران ان دونوں علاقوں میں مظلوم عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کو خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں۔مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی بھی اس سلسلے میں ناکام دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس کی طرف سے کبھی کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا جس نے فلسطینیوں کے لیے کوئی سہولت پیدا کی ہو۔ سات اکتوبر سے جاری اسرائیلی دہشت گردی کے بارے میں بات کرنے کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی وزارتی اجلاس 18 اکتوبر کو ہوگا جب اسرائیلی جارحیت کو شروع ہوئے بارہ روز گزر چکے ہوں گے اور اس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہوں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ سعودی عرب ناجائز ریاست اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کے قیام کے سلسلے کو موقوف کرچکا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کا سلسلہ رکا ہے۔ سعودی عرب کے علاوہ دیگر عرب ممالک بھی اس حوالے سے بیانات جاری کررہے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ محض ان باتوں سے ناجائز اسرائیلی ریاست کوکوئی پرواہ نہیں ہے۔ایسے معاملات میں مسلم ممالک کی نسبت روس اور چین جیسے ملکوں کا کردار زیادہ مفید دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت بھی اسرائیل کی دہشت گردی کے آگے بند باندھنے کے لیے روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد کا مسودہ پیش کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی جائے۔ شہریوں پر تشدد اور ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کی جائے۔ مسودے میں یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنانے، انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی اور شہریوں کا محفوظ انخلاء یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں، روس نے اسرائیل فلسطین لڑائی رکوانے کے لیے ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا مقصد اقوام متحدہ کے اس فارمولے پر عمل ہونا چاہیے جس کے تحت مشرقی یروشلم میں آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہونا ہے۔ روسی صدر پیوٹن نے مظلوم فلسطینیوں کے غزہ سے جبری انخلاء پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔اس سلسلے میں دیگر مغربی ممالک بھی کوئی مثبت کردار ادا نہیں کررہے ہیں لیکن امریکا کا کردار سب سے زیادہ گھناونا اور منفی ہے جو ناجائز ریاست اسرائیل کو جنگ کے سلسلے میں ہر قسم کی امداد و اعانت فراہم کررہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اپنے دورہ اسرائیل کے دوران جو کچھ کہا اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک جنونی صہیونی ہیں جو مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف غاصب اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کررہا ہے۔ ایک طرف انٹونی بلنکن اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو مکمل حمایت کا یقین دلارہے ہیں اور دوسری جانب دنیا کی نظروں میں خود کو امن پسند ظاہر کرنے کے لیے اپنے چینی ہم منصب وانگ یی کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے کر کے بیجنگ سے مدد طلب مانگ رہے ہیں کہ وہ اسرائیل اور حماس تنازع کو مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک تک پھیلنے سے روکنے کے لیے حرکت میں آئے۔ اس کے جواب میں وانگ یی نے کہا کہ واشنگٹن کو تعمیری اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔وانگ یی نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر کشیدہ معاملات سے نمٹتے ہوئے، بڑے اور اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک کو سنجیدگی اور شفافیت پر عمل کرنا چاہیے۔بہر کیف ضرورت اس بات کی ہے کہ اب صیہونی و عیسائی اتحاد کو دیکھتے ہوئے مسلم امہ بھی ہوش کے ناخن لے اوربالخصوص مسلم ممالک کے حکمران اور وہاں کی افواج غیرت اسلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کی امدادکریں اورقبلہ اول کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اسے صیہونی فوج کے خونی پنجے سے آزاد کرانے کے لیے آگے بڑھیں۔
کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت ایک غاصب ملک ہے جس نے گزشتہ 75 سال سے مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور کشمیری عوام کے بنیادی حقوق سمیت ہر قسم کی آزادی سلب کی ہوئی ہے۔ آزادی کی جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو جیلوں میں قید کیا ہوا ہے حتیٰ کہ انھیں اپنے علاج معالجے کی سہولتیں بھی میسر نہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں استصواب کی منظور شدہ قراردادیں موجود ہیں مگر اقوام متحدہ آج تک ان قراردادوں پر عمل درآمد کرانے سے قاصر ہے۔ پاکستان سفارتی اور اخلاقی سطح پر کشمیری عوام کے حق میں دامے درمے قدمے سخنے ہر بین الاقوامی فورم پر آواز اٹھاتا رہتا ہے۔ دو روز پہلے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کی سیکنڈ سیکرٹری رابعہ نے جنرل اسمبلی کے چھٹی کمیٹی کے اجلاس میں اقوام متحدہ پر ایک بار پھر زور دیا ہے کہ وہ اپنی منظور شدہ قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرائے۔ اصولی طور پر یہ اقوام متحدہ کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ جارح بھارت کو نکیل ڈال کر مقبوضہ کشمیر میں استصواب کے لیے اسے آمادہ کرے، اگر وہ اس طرف نہیں آتا تو عالمی سطح پر اس کے خلاف کارروائی عمل میں لا کر اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرے۔اب ایک بار پھر اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کی سیکنڈ سیکرٹری رابعہ اعجاز نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی چھٹی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں میں کہا ہے کہ کشمیر کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام عالمی ادارے کی زیر نگرانی رائے شماری کے ذریعے کریں گے۔ بھارت نے اس فیصلے کو قبول کیا ہے اور وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے مطابق اس کی تعمیل کا پابند ہے۔ بھارت کو علاقے کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیے کسی قسم کی یکطرفہ کارروائی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ وہ کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جائز جدوجہد کو بے شرمی سے کچلنے میں مصروف ہے اور مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ بہرحال پاکستان نے ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کو باور کرایا ہے کہ جموں و کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے اور یہ بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے اور نہ ہی اس کا اندرونی معاملہ ہے۔
ٹیکسٹائل کو تحفظ دیاجائے
ٹیکسٹائل کا شعبہ ملکی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جو حکومت کو محصولات کی مد میں سب سے زیادہ حصہ دیتا ہے۔ لاکھوں خاندان اس سے متعلق گھریلو، چھوٹی، درمیانی اور بڑی صنعتوں سے وابستہ ہیں۔ کورونا کی وبا جیسے مشکل حالات میں بھی اس شعبے نے قومی معیشت کو سنبھالا دیے رکھا۔ اس صنعت سے وابستہ افراد کا حکومت کو اپنی مشکلات سے آگاہ رکھنے کا مقصد یہی ہے کہ اس کا پہیہ رواں دواں رہے۔ متعلقہ وزارتوں اور محکموں کو درآمدی اور برآمدی تاجروںکے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ان کے مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں قطعاًتاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ یہ بات واضح رہے کہ کسی بھی کاروبار سے وابستہ افراد کسی صورت منافع سے دستبردار نہیں ہوتے اوراس کا نفع نقصان بہرحال صارف کو ہوتا ہے۔ا ب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو ٹیکسٹائل سے متعلق سامان کی ترسیل کرنے والی شپنگ کمپنیوں کے درآمد کنندگان نے ارباب بست و کشاد کی توجہ اپنے مسائل کی طرف مبذول کرائی ہے۔ ان کے مطابق بندرگاہوں پر جگہ اور خدمات کے نرخ متعین کرنے کا میکانزم نہ ہونے سے شدید مالی مشکلات آڑے آرہی ہیں۔ ان کے مطابق جہاز راں کمپنیوں کے نرخوں میں غیر معمولی فرق پایا جاتا ہے اور درآمد کنندگان کو اپنا مال بروقت منگوانے کیلئے زرمبادلہ کی شکل میں فی کنٹینر بیس سے تیس لاکھ روپے اضافی ادا کرنے پڑرہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بندرگاہ پر کلیرنگ ٹرمینل مینجمنٹ کے ٹھیکے زیادہ ترغیرملکی کمپنیوں کے پاس ہیں جو فی کنٹینر کم از کم سترہزار روپے بطور سروس چارجز وصول کر رہی ہیں جبکہ اس کے عوض پورٹ ٹرسٹ کو معمولی رقم ادا کرکے باقی زرمبادلہ کی شکل میں بیرون ملک بھجوادیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بیشتر کمپنیوں کے پاس خطرناک مواد رکھنے کا مناسب انتظام نہیں لیکن درآمد کنندگان اس کی ادائیگی کرنے پر مجبور ہیں۔حکومت کو اس شعبے کی جانب توجہ دیناہوگی اور ٹیکسٹائل ملز مالکان کے تحفظات دورکرناہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex