اداریہ

دہشت گردی ….سلامتی کے لیے سنگین خطرہ

صوبہ خیبرپختونخواہ کے محکمہ داخلہ و قبائلی امور نے رواں سال دہشت گردی کے واقعات پر اعدادو شمار جاری کرتے ہوئے بتایا کہ خیبرپی کے میں رواں سال دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر دہشت گردی کے 1050 واقعات رونما ہوئے۔رپورٹ کے مطابق دہشت گردی سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں پشاور، خیبر، باجوڑ اور ٹانک شامل ہیں جب کہ ڈی آئی خان اور شمالی و جنوبی وزیرستان بھی دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں شامل رہے ہیں۔سرکاری دستاویز میں بتایا گیا کہ بندوبستی اضلاع میں دہشت گردی کے 419، ضم اضلاع میں631 اور پشاور میں 61 واقعات رونما ہوئے جب کہ دہشت گردی کے سب سے زیادہ 201 واقعات شمالی وزیرستان میں ہوئے۔اس کے علاوہ خیبر 169، جنوبی وزیرستان 121، ڈی آئی خان 98، باجوڑ 62 اور ٹانک میں دہشت گردی کے 61 واقعات رونما ہوئے۔علاوہ ازیں خیبرپی کے میں رواں سال دہشت گردی میں 470 سکیورٹی اہلکار اور شہری جاں بحق ہوئے۔
صوبہ خیبرپختونخواہ کے محکمہ داخلہ و قبائلی امورکی یہ رپورٹ ہر پاکستانی کے لیے لمحہ فکریہ ہے ،واضح رہے کہ یہ رپورٹ صرف ایک صوبے کی ہے جبکہ بلوچستان مسلسل دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے اور پنجاب میں بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔اس امر پر تو اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ پاکستان میں اب تک جاری دہشت گردی کی 90 فیصد سے زائد وارداتوں میں افغانستان کی طرف سے پاک افغان سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہونے والے باشندے ہی ملوث ہیں جن کے مکمل ثبوت اور شہادتیں پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے پاس موجود ہیں جبکہ ان دہشت گردوں کو افغان مہاجرین کی شہ پر ہی یہاں محفوظ ٹھکانے بنانے کا موقع ملا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر دہشت گرد بھارت کے تربیت یافتہ ہیں جنہیں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ افغان سرزمین پر تربیت دیکر پاکستان میں داخل کرتی ہے۔ پاکستان میں قائم ’’را‘‘ کا یہ نیٹ ورک بھارتی جاسوس کلبھوشن کی سرپرستی میں چل رہا تھا جس نے خود اپنی گرفتاری کے بعد اس کا اعتراف کیا۔ پاکستان کے علاوہ اس پورے خطے اور دنیا میں دہشت گردی پھیلانا بھی اسی نیٹ ورک کے ساتھ جڑا ہوا ہے جس کا انکشاف دو سال قبل ایک امریکی جریدے نے اپنی خصوصی رپورٹ میں کیا تھا۔ اب ایشیاء پیسیفک فورم کی جانب سے حال ہی میں منظرعام پر آنیوالی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان سے 23 دہشت گرد تنظیمیں امریکہ‘ چین‘ اور پاکستان سمیت دنیا کے لگ بھگ 53 ممالک میں دہشت گردی پھیلا رہی ہیں۔ ان میں سے 17 دہشت گرد تنظیموں نے صرف پاکستان کو اپنے ہدف پر رکھا ہوا ہے جس میں افغان حکومت کا مرکزی کردار ہے۔ ان دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان میں محفوظ ٹھکانے بنانے کیلئے سب سے بڑی سہولت یقیناً افغان مہاجرین کے ناطے سے حاصل ہوئی ہے چنانچہ یہ صورتحال ہمارے لئے اس حوالے سے بھی لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کہ ہم دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پر دہشت گردی کو فروغ دینے کیلئے خود ہی سہولتیں بہم پہنچا رہے ہیں جبکہ ان کا ایجنڈا ہی ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کا ہے۔جب یہ بات تسلیم شدہ اور تصدیق شدہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی بیشتر وارداتوں میں افغانستان سے آنیوالے دہشت گرد ہی ملوث ہیں جنہیں یہاں موجود افغان مہاجرین نے شیلٹر دے رکھی ہے‘ تو ان سانپوں کو اپنی دھرتی پر مزید پالنا ملک کو اپنے ہاتھوں برباد کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس لئے پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغانیوں اور دوسرے باشندوں کی انکے ممالک واپسی پر کسی قسم کی مفاہمت یا نرم رویہ اختیار کرنے کی ہرگز گنجائش نہیں نکلتی۔یہی وہ حالات ہیں کہ پشاور دورہ کے موقع پر ایک تازہ بیان میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کا کہنا ہے کہ غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکی باشندے پاکستان کی سلامتی اور معیشت کو بری طرح متاثر کررہے ہیں اس لئے انکی وطن واپسی کا فیصلہ حکومت نے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کیا ہے۔
اس میں چندا ںشک نہیں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاک فوج اور دیگر سیکورٹی ادارے بھرپور طور پراپناکردار اداکررہے ہیں اور ان اداروں کی بہتر کارکردگی کے نتیجے میں ہی وطن عزیز سلامت ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام اور سیاسی،مذہبی و سماجی رہنما بھی دہشت گردی کے خلاف اداروںکا بھرپور ساتھ دیں تاکہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹایاجاسکے۔کلی طور پر دہشت گردی کاعفریت تب ہی کچلا جائے گا جب قومی اتحاد اور طاقت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیاجائے گا۔
غیرقانونی باشندے
خبر ہے کہ غیرقانونی مقیم افغان باشندوں کے انخلاء کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں سماعت کے لیے مقرر ہو چکی ہیں اورجسٹس طارق کی سربراہی میں تین رکنی بنچ 12دسمبر کو سماعت کرے گا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بھی ملک میں اس کی آزادی اور خودمختاری کے تناظر میں کسی دوسرے ملک کے باشندے کو ماورائے قانون قیام اور کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ پاکستان کا شہریت ایکٹ تو کسی غیرملکی کیلئے پاکستان میں دوہری شہریت اختیار کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتا اور کوئی غیرملکی باشندہ پاکستان کی شہریت اختیار کرکے یہاں مستقل رہائش اختیار کرنے کا خواہش مند ہو تو اسے پہلے اپنے ملک کی شہریت ترک کرنا ہوتی ہے جس کے بعد باقاعدہ قانونی پراسس کے تحت اسے پاکستان کی شہریت دی جاتی ہے مگر بدقسمتی سے افغان پناہ گزینوں کے معاملہ میں قانون کی سختی برقرار نہیں رکھی جا سکی چنانچہ چار دہائی قبل امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کے دوران افغان باشندے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرکے پاکستان آنا شروع ہوئے تو مہاجرین کے معاملہ میں طے شدہ عالمی ضوابط کی بنیاد پر انہیں خیبر پی کے‘ اسلام آباد اور ملک کے دوسرے حصوں میں عارضی ٹھکانے فراہم کئے گئے۔ ان افغان مہاجرین کی تعداد بڑھتے بڑھتے چالیس لاکھ کے قریب جا پہنچی جن کی حکومت پاکستان مہمان نوازی کرتی رہی جبکہ انہیں پاکستان کے شہری کا درجہ ہرگز حاصل نہیں تھا۔ ان مہاجرین میں افغان مجاہدین بھی بڑی تعداد میں شامل تھے جو اپنے ساتھ کلاشنکوفیں اور دوسرا اسلحہ بھی لے کر آئے۔ انہوں نے آہستہ آہستہ عارضی ٹھکانوں سے نکل کر یہاں جائیدادیں خرید کر کاروبار بھی شروع کر دیا جس میں ہیروئن کی کاشت کا کاروبار نمایاں تھا۔ چنانچہ افغان مہاجرین کی سرگرمیوں اور ان کے سوسائٹی میں عمل دخل سے ہمارے سماجی ثقافتی کلچر میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ انہی افغان مہاجرین میں سے بھتہ خوروں اور قبضہ گروپوں کی شکل میں مختلف مافیاز بھی نمایاں ہونے لگے جس سے یہاں جرائم کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ غیرقانونی مقیم افغان باشندوں کو واطن واپس بھیجنے کا یہ سلسلہ جاری رکھا جائے اوراس سلسلے میں کسی کو کوئی رعایت نہ دی جائے۔
مہنگائی بڑھ گئی
ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 1.16 فیصد بڑھ گئی۔ جبکہ ہفتہ وار مہنگائی سالانہ بنیادوں پر بڑھ کر مسلسل چوتھے ہفتے 40 فیصد سے زائد ریکارڈ کی گئی ہے۔ پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) سے پیمائش کردہ قلیل مدتی مہنگائی 7 دسمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران سالانہ بنیادوں پر بڑھ کر 42.68 فیصد ہو گئی۔ گزشتہ ہفتے کے دوران 15 مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، 14 کی قیمتوں میں کمی جبکہ 22 اشیاء کی قیمتیں مستحکم رہیں۔ سالانہ بنیادوں پر گیس چارجز (1108 فیصد)، سگریٹ (94.20 فیصد)، گندم کا ا?ٹا (87.27 فیصد)، پسی مرچ (81.74 فیصد)، لہسن (73.65 فیصد)، چاول ایری 6/9 (61 فیصد)، گڑ (50.79 فیصد)، لپٹن چائے (48.47 فیصد)، دال ماش (44.49 فیصد)، مردانہ چپل (58.05 فیصد)، مردانہ سینڈل (53.37 فیصد) شامل ہیں۔ہفتہ وار بنیادوں پر جن چیزوں کی قیمت میں سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا، ان میں پیاز (18.25 فیصد)، کیلے (2.84 فیصد)، لہسن (2.35 فیصد)، دال چنا (1.09 فیصد)، دال مسور (0.72 فیصد)، چاول ایری 6/9 (0.44 فیصد)، انڈے (0.43 فیصد)، سرسوں کا تیل (0.40 فیصد) شامل ہے۔یاد رہے کہ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح رواں برس مئی کے آغاز میں ریکارڈ 48.35 فیصد تک پہنچ گئی۔
ادارہ شماریات ایک سرکاری ادارہ ہے ،مہنگائی کے حوالے سے اس کی رپورٹس مصدقہ ہوتی ہیں۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہرہفتے اس ادارے کی جانب سے جو رپورٹ جاری ہوتی ہے وہ عوا م کے ہوش اڑادینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔حکومت کو اس مہنگائی کے طوفان پرقابو پانا ہوگا اور غریب و متوسط طبقے کا احساس کرناہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex