ادبشاعری

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

جن کی خاطر کی استخواں شکنی

سو ہم ان کے نشان تیر ہوئے

نہیں آتے کسو کی آنکھوں میں

ہو کے عاشق بہت حقیر ہوئے

آگے یہ بے ادائیاں کب تھیں

ان دنوں تم بہت شریر ہوئے

اپنے روتے ہی روتے صحرا کے

گوشے گوشے میں آب گیر ہوئے

ایسی ہستی عدم میں داخل ہے

نے جواں ہم نہ طفل شیر ہوئے

ایک دم تھی نمود بود اپنی

یا سفیدی کی یا اخیر ہوئے

یعنی مانند صبح دنیا میں

ہم جو پیدا ہوئے سو پیر ہوئے

مت مل اہل دول کے لڑکوں سے

میرؔ جی ان سے مل فقیر ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex