کالم

میڈیا، جمہوریت کی نگہبانی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی

جامعہ ملیہ، دہلی

دنیا میں میڈیا کا میدان انتہائی وسیع ہو چکا ہے، اب میڈیا خبروں کو عوام تک پہنچانے کا محض ایک ذریعہ نہ ہو کر جمہوریت کا نگہبان بن گیا ہے ۔ جمہوری اقدار کے قیام میں میڈیا اہم کردار ادا کر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ میڈیا کو جمہوریت کا ’چوتھا ستون‘ قرار دیا جاتا ہے ۔ ہندستان جیسے گنگا جمنی تہذیب والے ملک میں تنوع کی کثرت ہے، اس ’کثرت میں وحدت‘ برقرار رکھنے میں میڈیا کا انتہائی اہم کردار ہے۔ ہندستان میں متعدد مذاہب، ذاتوں اور اقدار کو ماننے والے لوگ رہتے بستے ہیں، میڈیا ان کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی بنائے رکھنے میں ’واچ ڈاگ‘ کا کردار ادا کرتا ہے۔موجودہ مادیت پرست دنیا میں میڈیا بھی انتہائی پیشہ ورانہ ذہنیت کے اثر سے بچ نہیں سکا ہے۔ اسی وجہ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور جمہوری اقدار کے قیام میں میڈیا کا کردار منفی شکل بھی اختیار کر رہا ہے۔ پروفیشنلزم کی دوڑ میں ذرائع ابلاغ کے ادارے خواہ وہ الیکٹرانک میڈیا سے ہوں یا پرنٹ میڈیا سے، پروفیشنلزم اور اخلاقیات کے درمیان توازن قائم نہیں رکھ پا رہے ہیں۔ موجودہ دور میں سب ہی اہم نیوز چینلوں پر پرتشدد واقعات کو مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ، جو آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔بعض معاملات میں نیوز چینلوں نے مثبت و قابل تقلید مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال وارانسی کے ’دشاشومیدھ گھاٹ‘ پر بم دھماکے کا واقعہ ہے۔ اس واقعے کے وقت میڈیا نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ اس وقت پوری دنیا میں ’ڈینش کارٹون‘ کا تنازع بھی چل رہا تھا۔ اس طرح میڈیا کی جانب سے مثبت اور منفی دونوں قسم کا کردار فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے باب میں نمایاں ہوتا ہے۔
دستور ہند کے مرتبین نے ہندستان کی ملی جلی تہذیب کے پیش نظر فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے دستور میں پہلے ہی سے کئی التزامات کر رکھے ہیں، جن میں وقتاً فوقتاً ترمیم بھی کی گئی۔ مثلاً آرٹیکل 91 (1) میں سب ہی شہریوں کو آزادی اظہار رائے دی گئی ہے، اور اسی آرٹیکل کے تحت میڈیا کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ وہیں مختلف مذاہب اور فرقوں کے پیش نظر آرٹیکل 82 (مذہبی و ثقافتی اداروں کا قیام) آرٹیکل 52 (مذہب کی آزادی) آرٹیکل 92، 03 (اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ) وغیرہ میں مختلف التزامات کیے گئے ہیں۔
ان سبھی التزامات میں مطابقت قائم کرنے میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہوجاتا ہے ۔ پروفیشنلزم کی اندھی مسابقت میں میڈیا ادارے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کے جذبے کی جانب متوجہ ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے یہ اپنی اخلاقی ذمے داریوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ گودھرا کا واقعہ ہو یا پھر بابری مسجد کی شہادت کا اندوہناک واقعہ، ان سب ہی معاملات میں میڈیا کے کردار کی ستائش نہیں کی جا سکتی۔ ایسے نازک حالات میں میڈیا کی جانب سے تشدد اور پر تشدد تصاویر کو مبالغہ آرائی کے ساتھ دکھانا، تشدد کو مزید بڑھانے اور متعلقہ علاقے کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کا کام کرتا ہے۔
فرقے یا مذہب کی بنیاد پر فوت شدہ لوگوں کی تعداد کو بتایا جاتا ہے ، جس سے متعلقہ مذہب یا فرقے کے لوگ اپنے آپ کو غیرمحفوظ محسوس کرنے لگتے ہیں، ان کا اعتبار ریاست اور نظم و قانون سے اٹھنے لگتا ہے اور وہ تشدد کا سہارا لینے لگتے ہیں۔ ہندستان میں کئی سیاسی جماعتیں و تنظیمیں، مذہب و ذات پر مبنی سیاست کرتی ہیں، کئی بار میڈیا کے ادارے ان کی سیاست اور حقیر مفادات میں ان کی مدد کرتے نظر آتے ہیں۔ آزادی کے بعد ہندستان میں وسیع پیمانے پر فرقے، ذات، زبان یا علاقے پر مبنی تشدد اسی کی دہائی سے شروع ہوا اور اس تشدد کو کم کرنے میں میڈیا مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے منفی کردار ہی زیادہ ادا کرتا نظر آیا۔
میڈیا کی ذمے داری صرف یہی نہیں ہے کہ وہ عوام تک صحیح خبر پہنچائے بلکہ جیسا کہ ’پالی‘ میں کہا گیا ہے :
”ستیم برویات، پریتم برویات، نہ برویات ستیم اپریتم“
یعنی حق بیان کرو، خوش گوار حق، نہ کہ ناگوار حق۔
مذکورہ بالا الفاظ کی روح کی اتباع میڈیا کے لیے نہایت ضروری ہے۔ یعنی فسادات کے موقع پر یا پرتشدد واقعات کی منظرکشی میڈیا کی جانب سے اس طرح کی جانی چاہیے کہ لوگوں کو یہ نہ لگے کہ نظم و نسق درہم برہم ہو چکا ہے اور فسادات کے اثرات سے ریاست کا انتظامیہ ناکارہ ہو چکا ہے۔ کسی فرقے یا مذہب کے لوگوں کے جذبات سے کھلواڑ بھی نہیں دکھایا جانا چاہیے۔
میڈیا جمہوری اقدار کے قیام اور مذہبی ہم آہنگی برقرار رکھنے میں کئی طرح سے معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ تشدد یا فسادات کے وقت راحت رسانی کے کاموں میں انتظامیہ کی مدد کر سکتا ہے۔ مثلاً تشدد یا فسادات کے وقت راحت کی اشیا کی تقسیم، لوگوں کی نقل مکانی اور لوگوں کو ایک دوسرے سے ملانے میں، نظم و قانون پر لوگوں کا اعتبار بنائے رکھنے میں۔ حکومت ہند میڈیا پر قابو کے لیے ایک قانون بنانے کے لیے کوشاں ہے، اس قانون کو صرف آرٹیکل 91 (1) (آزادی اظہار رائے ) کا مخالف کہہ کر خارج نہیں کیا جاسکتا۔
جب موجودہ جمہوری دنیا میں ذمے داری، شفافیت اور جواب دہی کو فروغ دیا جا رہا ہے تب میڈیا پر بھی ضروری پابندیاں عائد ہونی چاہئیں۔ ہندستان میں منتظمہ، عاملہ اور عدلیہ کو ’حق اطلاعات‘ کے تحت جواب دہ اور شفاف بنایا جا رہا ہے تو جمہوریت کے چوتھے ستون (میڈیا) کو ان اقدار سے مستثنیٰ نہیں رکھا جاسکتا۔ اس ضمن میں کچھ ہدایات کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً ایڈیٹروں اور صحافیوں کا قلم ان کی ’ذاتی تمناؤں‘ کو بیان کرنے کی جگہ ’معاشرے کی صحیح عکاسی‘ کرنے والا ہونا چاہیے، فرقہ وارانہ تشدد کی خبریں انتظامیہ کی جانب سے مصدقہ قرار دیے جانے کے بعد شائع یا نشر کی جانی چاہئیں، خبروں میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ لوگوں کا اعتبار انتظامیہ اور نظم و نسق سے اٹھنے نہ دیں، تشدد کے واقعات کی تصویروں ( اور ویڈیوز) کو بار بار نہ دکھایا جائے، مذہب اور فرقے کی بنیاد پر واقعات کو لوگوں سے نہ جوڑا جائے۔
مذکورہ بالا مشورے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کیا کیا جائے، اسی طرح بعض مشورے ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن میں ’کیا کیا جائے‘ کی ہدایت ہو مثلا اًس قسم کے واقعات کے وقت دو مذہبوں یا فرقوں کے لوگوں کے درمیان مفاہمت اور ہم آہنگی کی مثالوں کو بار بار دکھایا جائے۔ مذہبی پیشواؤں اور علما کے درمیان صحت مند ماحول میں گفتگو کرائی جائے اور اس کی عکس بندی اور نشر و اشاعت کی جائے۔ میڈیا کے ذریعے ہندستان کی ملی جلی تہذیب نیز ’کثرت میں وحدت‘ کے مطابق تاریخ کے معاملات کی نشر و اشاعت کی جائے، انتظامیہ کے تعاون سے امن کے قیام کی دوبارہ کوششیں کی جائیں اور انتظامیہ کے فیصلوں اور قوانین کو نافذ کرنے میں پورا تعاون کیا جائے۔
حکومت ہند کی جانب سے ’براڈکاسٹنگ بل‘ کو نافذ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اس کوشش میں ہندستان کے سبھی شہریوں اور سیاسی پارٹیوں نیز خود میڈیا اداروں کو حکومت کا تعاون کرنا چاہیے۔ میڈیا اداروں کی مرکزی تنظیموں کو اپنی جانب سے بھی کچھ ’کوڈ آف کنڈکٹ‘ بنانا چاہیے اور ان پر عمل درآمد کو سختی کے ساتھ یقینی بنانا چاہیے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے بغیر موجودہ دنیا کا تصور ہی نہیں جا سکتا، کیوں کہ میڈیا جمہوریت کا نگہبان ہے۔
ایسے میں میڈیا کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ ’واچ ڈاگ‘ اور ’وہسل بلوئر‘ کے اپنے کردار کو ایمانداری سے ادا کرے۔ میڈیا ادارے مکمل طور سے کاروباری مفاد سے نہیں چلائے جا سکتے، کیوں کہ میڈیا لوگوں کے اظہار خیال کا ذریعہ ہے۔ میڈیا اداروں کو کاروبار اور اخلاقیات کے درمیان مناسب اور ضروری توازن قائم کرنا ہو گا۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیشہ میڈیا نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے میں منفی کردار ہی ادا کیا ہے، مایوسی کے عمیق سمندر میں امیدوں کے کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے نظر آتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان مثبت مثالوں کی ایمانداری سے اتباع کی جائے۔ میڈیا اداروں کو ان کی ذمے داریاں یاد دلانا او ر ان کی پیروی کو یقینی بنانا ہم سب ہی کی بڑی ذمے داری ہے۔
جب میڈیا ادارے اپنی ذمے داریوں کو ٹھیک طرح سے نبھانا شروع کر دیں گے تو نہ صرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بڑھاوا ملے گا، بلکہ ہمہ جہت ترقی اور جمہوری اقدار کے قیام کو فروغ ملے گا، جہالت کے استیصال اور غریبی کے خاتمے کی کاوشوں میں بھی تیزی آئے گی۔ ہندستان کی گنگا جمنی تہذیب یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اگر ہندستان کو جلد از جلد ترقی یافتہ ملک بننا ہے تو سمراٹ اشوک اور اکبر کے وقت سے چلے آرہے بین المذاہب بھائی چارے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھا جائے اور اسے استحکام بخشا جائے۔
موجودہ دنیا میں جب دہشت گردی ایک عالمی حقیقت بن کر ابھر رہی ہے تب مخلوط تہذیب کو فروغ دینا نیز اس کی اتباع کرنا مزید ضروری جاتا ہے ۔ ہندستان زمانہ قدیم ہی سے اخلاقیات کے میدان میں ’وشوگرو‘ کا کردار نبھاتا آ رہا ہے اور اس لیے بھی یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اس پیش رفت کو برقرار رکھنے نیز اس شعبے کو مزید فعال بنانے میں خلوص کے ساتھ اپنی ذمے داریاں پوری کرے۔ موجودہ عالم کاری کے دور میں عالمی سطح پر قیادت کرنے (حفاظتی کونسل کی مستقل رکنیت) کے لیے ضروری ہے کہ ماضی میں ہوئے جانکاہ فسادات کا اعادہ نہ ہو اور اس میدان میں میڈیا کا کردار سب سے اہم ہے۔
حکومت اور میڈیا ادارے اس تعلق سے بیدار ہو رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان کوششوں کی رفتار کو تقویت دی جائے اور ان کوششوں کے نتیجے میں ہم یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ آنے والے زمانے میں ہندستان ’فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘ کی قابل تقلید مثال بنے گا اور مذہبی بنیاد پرستی اور فرقہ واریت ماضی کی تلخ یادیں بن کر رہ جائیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex