کالم

کھیل کے حقیقی فلسفہ کو سمجھیں

سلمان احمد قریشی

پاکستان کے مقبول ترین کھیل کرکٹ کا رنگارنگ میلہ پی ایس ایل نائن اختتام پذیر ہوا۔ الیکشن کی گہماگہمی کے بعد قوم کا سب سے زیادہ زیرِبحث موضوع کھیل کا یہی ایونٹ ہے۔ گراونڈز کے علاوہ ٹیلی وژن سکرین پر لاکھوں افراد کرکٹ کے کھیل سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس ایونٹ سے جہاں کرکٹ کے میدان میں نیا ٹیلنٹ سامنے آتا ہے وہیں کھیلوں کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ عام آدمی اور نوجوانوں کی سپورٹس سے دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہے۔
قارئین کرام! جنرل ڈیوک سے کسی نے استفسار کیا تھا کہ آپ نے واٹرلو کے مقام پر نپولین بونا پارٹ کو کیسے شکست دی۔۔؟ انکا جواب تھا کہ میں نے تمام حربے انگلستان کے سکول ایٹن کے کرکٹ گراونڈ سے سیکھے ہیں۔ ہمارے ہاں کھیل کو صرف تفریح کے طور پر ہی لیا جاتا ہے یا صحت مند زندگی کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے لیکن کھیل کو شخصیت سازی، آگے بڑھنے، زندگی جینے جیسے وسیع مقاصد کے تحت قابلِ توجہ نہیں سمجھا جاتا۔ جبکہ کھیل نہ صرف ایک متحد قوت کے طور پر کام کرتی ہے بلکہ مختلف پس منظر کے لوگوں کو ایک مشترکہ جذبے کے تحت اکھٹا بھی کرتے ہیں۔ افراد کے درمیان بات چیت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کھیل افراد کو منصفانہ کھیل اور احترام کی اہمیت سکھاتے ہیں، فتح کی لگن اور شکست تسلیم کر کے دوبارہ کوشش کا سبق دیتے ہیں کھیلوں کے میدان میں سیکھے جانے والے اسباق انسان کے کردار کو تشکیل دیتے ہیں۔ کھیل ثقافتی، جغرافیائی اور معاشرتی حدود سے بالاتر ہو کر صدیوں سے انسانی تہذیب کا ایک لازمی حصہ رہے ہیں۔ کھیل نے معاشروں کی تشکیل اور جسمانی تندرستی کو فروغ دینے، ٹیم ورک اور قائدانہ صلاحیتوں کو فروغ دینے اور ضروری اقدار کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کھیل کے میدان سبقت حاصل کرنے کی خواہش، لگن اور خود اعتمادی کو فروغ دیتے ہیں۔ کھیل کامیابی کے احساس کو پروان چڑھاتا ہے۔
کھیلوں میں حصہ لینا ذاتی ترقی اور کردار سازی کے بے شمار مواقع فراہم کرتا ہے۔
کامیابی مسلسل کوشش اور مسلسل بہتری کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ناکامی کا سامنا اور اس کا مقابلہ کرنا سکھاتی ہے۔ ہار سے جیت کے لیے جِدوجہد کا سبق ملتا ہے جو عملی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ زندگی میں مسلسل کوشش سے منزل تک پہنچنے کی ایک بہترین مثال سابق ٹیسٹ کرکٹر ذوالفقار بابر ہیں۔ذوالفقار بابر کا تعلق اوکاڑہ سے ہے اور وہ 75 سالوں میں پاکستان کے لیے کھیلنے والے اس شہر کے پہلے کھلاڑی ہیں۔ ذوالفقار بابر سابق بین الاقوامی فٹ بالر عبدالغفار کے صاحبزادے ہیں انہوں نے فٹ بال گراونڈ میں پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ ذوالفقار بابر کرکٹ کے میدان میں اپنی صلاحیتیں منوانے میں کامیاب ہوئے۔ 2009/10ء کی قائد اعظم ٹرافی میں ذوالفقار بابر نے 16.42 کی اوسط سے 69 وکٹیں حاصل کیں 2012/13ء کے سیزن میں 13 میچوں میں 17.04 کی اوسط سے 93 فرسٹ کلاس وکٹیں حاصل کیں۔ اکتوبر 2013ء میں پاکستان چیف منسٹرز الیون اور پاکستان کرکٹ بورڈ چیئرمینز الیون کے درمیان ہونے والے پریکٹس گیم میں انہوں نے 22 رنز کے عوض 6 وکٹیں حاصل کیں۔ مسلسل محنت اور عزم سے قومی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ذوالفقار بابر نے 2013 سے 2016ء کے درمیان انٹرنیشنل ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ ذوالفقار بابر کی ٹیسٹ کیپ کا نمبر 215 ہے ون ڈے اور ٹی ٹوینٹی میں بھی پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا۔ پی ایس ایل میں کوئٹہ گلیڈی ائیٹرز اور کراچی کنگز کی طرف سے بھی کرکٹ کھیلی۔ چھوٹے شہر سے تعلق ہونے اور وسائل کی کمی کے سبب لمبا عرصہ قومی ٹیم کا حصہ تو نہ رہے لیکن کھیل کے میدان نے مسلسل محنت اور حالات سے لڑنے کا ایسا ہنر سکھایا کہ اپنا نام اور مقام بنانے میں ضرور کامیاب رہے۔ ذوالفقار بابر کی کہانی کھیل کے میدان سے کامیاب زندگی گزارنے کا ایسا سبق ہے جو نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ مشکلات اور حالات کا مقابلہ صرف محنت سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ کامیابی مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ حالیہ دور میں لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے فاسٹ باولر شاہنواز دہانی بھی محنت سے منزل تک پہنچنے کی زندہ مثال ہے۔ ایک طرف شاہد آفریدی جیسے کرکٹر ہیں جو شہرت کی بلندیوں پر پہنچے لیکن انکے کیرئیر میں محنت اور پرفارمنس سے زیادہ دیگر عوامل کار فرما ہیں۔ ذوالفقار بابر نے کھیل کے میدان سے یہی سیکھا کہ مایوس ہونے سے بہت بہتر ہے کہ جدوجہد جاری رکھی جائے رکٹ کے کھیل میں سیاست کا عمل دخل نئی بات نہیں۔ بہت سے باصلاحیت کرکٹرز قومی سطح پر اپنا مقام بنانے سے پہلے شکست تسلیم کر گئے لیکن ذوالفقار بابر اپنے عزم اور محنت سے وکٹ کے درمیان مصروف رہا پاکستان کا یہ لیجنڈ کرکٹر آج بھی سری لنکا میں لیجنڈ لیگ میں ان ایکشن ہے۔ اوکاڑہ کی پہچان اور عزم و حوصلہ کی چٹان ذوالفقار بابر نے کھیل کے میدان سے کامیابی حاصل کر کے کھیل کے اصل فلسفہ کی عملی مثال پیش کی۔ پی ایس ایل کو ایک ٹورنامنٹ ہی نہ سمجھا جائے کھیلوں کے حقیقی فلسفہ کے مطابق اسکی اہمیت کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔کھیل ذاتی اہداف کے حصول میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔اس لیے کھیل انسانی زندگی میں بے مثال اہمیت رکھتے ہیں۔
صحت مند، مربوط اور ہم آہنگ معاشروں کی تعمیر کے لیے نچلی سطح پر اور پیشہ وارانہ میدانوں یعنی دونوں جگہ پر کھیلوں میں شرکت کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے۔ سکول کالج کی سطح پر کھیلوں کو لازم قرار دیا جائے۔ کھیلوں کے ذریعے پیدا ہونے والی اقدار جیسے نظم و ضبط، ٹیم ورک اور سپورٹس مین شِپ افراد کو ذمہ دار اور قابلِ احترام شہری بنا سکتی ہے۔کھیلوں کی اہمیت کو پہچانیں اور ان سہولیات، پروگراموں اور مواقع میں سرمایہ کاری کریں جو کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر دنیا بنا سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex