کالم

جیلوں کے مسائل اور وزیر اعلیٰ مریم نواز

محسن گورایہ

ہمارے ملک میں کم و بیش تمام حکمران جیلوں میں رہے ، وہ ان کی حالت سے بڑی اچھی طرح واقف ہیں، جب وہ ان جیلوں سے باہر آتے ہیں تو جیلوں کی اصلاحات کی بڑی باتیں کرتے ہیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد ان سے ہوتا ہواتا کچھ نہیں، کچھ ہوا ہوتا تو آج ہماری جیلوں کی صورت حال یہ نہ ہوتی جو اس وقت ہے، یہ درست ہے کہ قیدیوں کو اچھا کھانا مل رہا ہے مگر باقی حالات جوں کے توں ہیں، جیلوں کے بڑے افسران اپنی سہولتوں اور مراعات کی بات کرتے ہیں مگر چھوٹے افسروں اور عملے کا کوئی پُرسان حال نہیں، ان کی ڈیوٹی کے اوقات کار سخت ہیں ،ہم جیلوں میں قیدیوں کے حقوق اور سہو لیات کی بات کرتے ہیں مگر کسی نے کبھی جیل وارڈن(سپاہی)اور جونیئر افسران کی مراعات اور سہولیات کی بات نہیں کی۔
گئے وقتوں میں جیلوں کے اندر قیدی شفٹوں میں سوتے تھے، جیلیں اور انکی گنجائش کم اور قیدی زیادہ ہوتے تھے ،ایک وقت وہ بھی تھا جب سخت گرمی میں جیلیں تپتے ہوئے صحراوں کا نقشہ پیش کرتی تھیں ، پنکھے گنے چنے اور ٹھنڈے پانی کے کولر کا تو تصور بھی نہیں تھا ، میں نے ایک طویل عرصہ سول سیکریٹیریٹ ،جیلوں اور دوسرے محکموں کی رپورٹنگ کی ہے جس کی وجہ سے ان حالات کا جائزہ لینے کا موقع مل جاتا تھا جہاں عام آدمی کو رسائی نہیں ہوتی تھی ۔بیس پچیس سال پہلے جب میں نوائے وقت میں کام کرتا تھا تو جیلوں میں گرمیوں کے دنوں میں پنکھوں ، کے ٹھنڈے پانی اور دوسری ضروری سہولتوں کی کمیابی کے حوالے سے میں نے ایک خبر دی تو اگلے روز اس پر شور مچ گیا ، جنرل مشرف کا دور حکومت تھا اور جنرل خالد مقبول بڑے محنتی اور متحرک گورنر پنجاب تھے ،میں صبح دفتر پہنچا تو مجھے گورنر خالد مقبول کا ٹیلی فون آیا اور انہوں نے اس خبر کے حوالے سے مزید معلومات لیں،اس کے بعد تو ٹیلی فونوں کا تانتا بندھ گیا ،ایک فون سخت غصے میں آیا وہ اس وقت کےہوم سیکرٹری پنجاب بریگیڈئر اعجاز شاہ کا تھ،،گورایہ دس از بیلو دی بیلٹ،، میں نے کہا شاہ صاحب ،جیلوں کے یہی حالات ہیں جو میں نے لکھے ہیں ، جیل کا محکمہ ہوم سیکرٹری کے ماتحت ایک ادارہ ہے اس لئے وہ سخت رنجیدہ تھے،آپ کو خبر دینے کی بجائے مجھے بتانا چاہئے تھا آپ مجھ سے روز ملتے ہیں ، گورنر صاحب اس پر سخت ناراض ہیں ، میں نے کہا شاہ جی سخت گرمی کے موسم میں جیلوں میں پنکھے اور ٹھنڈا پانی نہ ملنا بھی تو بڑا ظلم ہے، انہوں نے پنجابی میں جواب دیا ،،میں پی سی ہوٹل نہیں جیلاں چلا ریا واں ایتھے چور ڈاکو بند نیں ، توں چا ہناں ایں میں چوراں ڈاکووں نوں زردہ پلاو کھوا کے شربت پیاواں،، ۔ موجودہ آئی جی جیل خان جات میاں فاروق نزیر اس وقت کوٹ لکھپت جیل کے سپر نڈنڈنٹ تھے،میری خبر کے نتیجے میں جیلوں میں پنکھے پورے ہو گئے اور ٹھنڈے پانے کے کولر بھی لگا دئے گئے۔
سماج کا توازن بگاڑنے والوں اور معاشرے کے وضع کردہ قوانین کو پامال کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ یہ سوال ہر دور اور ہر زمانے میں اربابِ بست و کشاد کے لئے دردِ سر بنا رہا ہے اور اس کا جواب تلاش کرنے کے عمل کو اہمیت دی جاتی رہی ہے،لمبے اور طویل سوچ بچار کے بعد یہ طے پایا کہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قید کر دیا جانا چاہئے،اس کے پیچھے جواز یہ تھا کہ قانون توڑنے والوں کو ایک جگہ محدود اور پابند رکھ کر ایک تو انہیں آزادی کا احساس دلایا جائے اور دوسرا یہ کہ وہ تنہا رہ کر سوچ بچار کریں اور خود کو معاشرے کا اچھا رکن بنانے پر توجہ دیں۔
ہمارے جیسے ملکوں میں جیلوں کے نظام کو بہتر بنانے پر مناسب توجہ نہیں دی جاتی، جیلوں کے اندر کے انتظامات اور جیلوں میں خدمات سرانجام دینے والے حکام اور عملے کے دیگر افراد کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور ان اختیارات کو استعمال کرنےکے معاملات ابھی بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے گو ، وقتاً فوقتاً اصلاحات لائی جا رہی ہیں اور جیلوں کے اندرونی معاملات ماضی کی نسبت خاصے بہتر ہیں جیسے اب قیدیوں کو اچھا کھانا ملتا ہے، انہیں گھر والوں سے ٹیلی فون پر بات کرنے اور اب تو وقت گزارنے کا موقع بھی دیا جاتا ہے ، ان کی کچھ دیگر ضروریات کا خیال بھی رکھا جاتا ہے اور سماجی معاملات میں کچھ آزادیاں بھی حاصل ہیں، اس کے باوجود بہت سے معاملات توجہ طلب ہیں۔قیدیوں کی اصلاح اور تربیت کا اہتمام کر کے اور ان کے ذہنوں میں جرائم سے نفرت پیدا کر کے انہیں شریف اور فرض شناس شہری کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دینے کے لئے تیار کیا جا سکتا ہے، انہیں مختلف ہنر سکھانے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ رہائی کے بعد پوری خود اعتمادی کے ساتھ شریفانہ زندگی کا آغاز کر سکیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے سنٹرل جیل کوٹ لکھپت لاہور کا دورہ کیا ہے ، انہوں نے اس سیل کا دورہ بھی کیا جہاں ان کے والد نواز شریف قید رہے، مریم نواز جیل میں گزارے اس وقت کی یادیں تازہ کرتے ہوئے جذباتی ہو گئیں،اسی جیل میں قید رہنے والے مسلم لیگی راہنما پرویز رشید بھی ان کے ہمراہ تھے ،وزیر اعلیٰ نے کوٹ لکھپت جیل کےسپرنڈنڈٹ اعجاز اصغر اور کیمپ جیل کے سپرنڈنڈنٹ ظہیر احمد ورک کے اچھے کام کا خصوصی ذکر کیا جو ان کی اسیری کے دوران کوٹ لکھپت میں تعینات تھے ، اب انہیں جیلوں میں تعینات ان نا اہل اور کرپٹ سپر نڈنڈنٹس کی بھی خبر لینی ہو گی جو غریب اور نادار قیدیوں سے تاوان اور بھتہ وصول کرتے تھکتے نہیں۔
اچھی بات ہے کہ وزیر اعلیٰ نے اس جیل کا دورہ کیا جہاں وہ خود اپنے والد کے ساتھ قید رہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے حکمران جیلوں کا دورہ کر چکے ہیں اور وہاں اصلاحات لانے کی ضرورت پر زور بھی دیتے رہے ہیں لیکن انہوں نے ویسا کچھ کیا نہیں جس کے دعوے کیے جاتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں قیدیوں کو آج کے اس جدید دور میں بھی زندگی کی بنیادی سہولیات میسر نہیں اور جیلوں میں رشوت اور کرپشن کا بھی دور دورہ ہے۔ جو با اثر قیدی ہوں ان کو ہر طرح کی جائز اور ناجائز سہولیات ملنے کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں جبکہ بے وسیلہ قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔وزیر اعلیٰ کے دورے کے فوری بعد پنجاب کے نئے ہوم سیکرٹری نور الامین مینگل نے لاہور میں جیلوں کے صدر دفتر اور ایک جیل کا دورہ کر کے قیدیوں اور جیل سٹاف کے مسائل اور مشکلات کا جائزہ لیا ،جو ایک اچھا فعل ہے ، اس سے لگتا ہے کہ مریم نواز جیل اصلاحات کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہیں،اب ہونا تو یہ چاہیے کہ جب مریم نواز اپنی وزارت اعلیٰ کے پانچ سال مکمل کریں تو کم از کم صوبہ پنجاب کی جیلیں ماڈل جیلوں میں تبدیل ہو چکی ہوں اور وہاں قیدیوں اور نچلے جیل سٹاف کو وہ تمام سہولیات اور آزادیاں میسر ہوں جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں میسر آتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex