کالم

بلدیاتی نمائندوں کی افادیت

رانا غلام عارف

صبح گھر سے جاتے ہوئے جب دارالسکینہ روڈ سے گزرنا ہوتا ہے یقین کریں کہ سڑک کی حالت دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم کسی شہر میں بلکہ ایک ایسے دور افتادہ گائوں میں رہتے ہیں جہاں پر ہر کام اپنی مدد آپ کے تحت کرنا پڑتاہے سڑک پر جگہ جگہ سیوریج کا گندا پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے گڑھے پڑ چکے ہیں تو یہ سڑک جگہ جگہ سے کسی گندی جھیل کا منظر پیش کرتی ہے اور جب اس کی شکایت کرنے کے لئے میونسپل کمیٹی کے افسران کے پاس جاتے ہیں وہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں اور نہ ہی کوئی ہمارا نمائندہ ہے جو یہ بات سنے۔ اپنے علاقے کا ترقیاتی کاموں سے نالاں بہاری کالونی کے رہائشی یوسف رضا بھٹی بلدیاتی اداروں کی کارکردگی سے پریشان نظرآئے۔ یوسف رضابھٹی کہتے ہیں اس سڑک سے روازنہ ہزاروں شہری اندرون شہر سفر کرتے ہیں لیکن اس کی حالت ایسی ہے کہ ہم کسی انتہائی دور افتادہ گاؤں میں رہتے ہیں اور بلدیاتی اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد اس پر توجہ ہی نہیں دیتے ہیں جبکہ بلدیاتی نمائندے اپنے اپنے علاقوں میں نہ صرف عام عوام کی رسائی میں ہوتے ہیں بلکہ وہ ان کے دکھ سکھ میں ہر وقت شریک رہتے ہیں۔جھنگ سمیت پنجاب بھر میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات 2015 میں انعقاد پذیر ہوئے اور تقریباََ ایک سال بعد 28دسمبر 2016 کو بلدیاتی نمائندوں نے چارج سنبھال کر کام شروع کیا تھا۔ مگر پنجاب حکومت نے سال 2019 میں بلدیاتی اداروں کو تحلیل کردیا۔چیئرمین ضلع کونسل نواب بابر خان سیال نے اس معاملہ کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لیتے ہوئے پنجاب کے تمام بلدیاتی نمائندوں کا اکٹھا کیا اور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے دروازے تک دستک دی اور دو سال کے بعد بلدیاتی ادارے بحال کروانے
میں کامیاب ہوئے اس وقت تک بلدیاتی نمائندوں کی بقیہ مدت نہ ہونے کے برابر تھی۔ بلدیاتی نمائندوں نے اپنے دور میں جھنگ میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلدیاتی نمائندوں کے دور میں ضلع کونسل جھنگ کے زیر انتظام ضلع کی کل 91یونین کونسلوں میں 53کروڑ 54لاکھ62ہزار 211روپے کے ترقیاتی کام مکمل کروائے گئے دوسری جانب ضلعی انتظامیہ نے گزشتہ تین سالوں کے دوران صرف 32کروڑ 54لاکھ 62ہزار روپے کے فنڈز سے ترقیاتی کام کروائے جو بلدیاتی دور میں کروائے گئے کاموں سے کہیں کم ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مالی سال 2018-19کے دوران بلدیاتی نمائندوں کے دور میں ضلع جھنگ میں مجموعی طور پر 550مختلف ترقیاتی سکیمیں 18کروڑ 76لاکھ 66ہزار 681روپے کے فنڈز سے مکمل کی گئیں جبکہ رواں مالی سال کے دوران صرف 88ترقیاتی سکیمیں زیر تکمیل ہیں جن پر ایک کروڑ 45لاکھ روپے سے زائد کی رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ ضلع کونسل کے پاس اس وقت ترقیاتی کاموں کے لئے 43کروڑ 34لاکھ روپے سے زائد کے فنڈز موجود ہیں جو اگر بلدیاتی نمائندے ہوتے تو اب تک استعمال ہو چکے ہوتے۔ بلدیاتی نمائندوں کے دور میں میونسپل کمیٹی جھنگ کے 50وارڈز میں ایک ارب 21کروڑ 65لاکھ روپے کروڑ سے زائد کے ترقیاتی کام کروائے گئے۔ اگرچہ موجودہ دور بلدیاتی نمائندوں کا نہیں لیکن اس دور میں بھی ضلعی حکومت کے زیر انتظام دو ارب 53کروڑ 80لاکھ روپے کے فنڈز سے کام جاری ہیں لیکن یہ رقم ورلڈ بنک کی ہے جو بلدیاتی نمائندوں کے دور میں میونسپل کمیٹی کی مختلف ترقیاتی سکیموں کے لئے بلدیاتی دور میں منظور ہوئی تھیں اور ان سکیموں میں سب سے بڑی سکیم سیوریج سسٹم کی بحالی کی ہے جو خالصتاََ بلدیاتی نمائندوں کا کام ہے۔اس وقت اگرچہ بلدیاتی نظام موجود نہیں لیکن ضلعی انتظامیہ جھنگ میں جتنے بھی ترقیاتی کام مکمل کروا رہی ہے خواہ ان میں مختلف چوکوں چوراہوں کی تزئین و آرائش ہو، شہر کی سٹرکوں کی تعمیر و مرمت ہو، مختلف دیواروں کی پینٹنگ کا کام ہو یا پھر مختلف شاہراوں پر پودے لگانے کا کام ہو یہ سب بلدیاتی نمائندوں کے کام ہیں جو بلدیاتی نظام موجود نہ ہونے کی وجہ سے دیگراداروں کو کروانے پڑ رہے ہیں ۔ وارڈ نمبر 46 کے سابق کونسلر ظفر اقبال گوگا کا کہنا تھا کہ جب بلدیاتی ادرے فعال تھے تو انہوں نے اپنے علاقے میں گلیوں میں سڑکیں بنوانے کیساتھ ساتھ سیوریج کے بھی مسائل پر خصوصی توجہ دی اور اس کیساتھ ساتھ ان کے حلقہ میں تھانہ کچہری کے معاملات ، لڑائی،جھگڑے،خاندانی مسائل، جائیدادوں کے معاملات کو خوش اسلوبی سے چند دنوں میں حل کروادیتا تھا لیکن اب مسائل میں اضافہ ہورہا ہے، کیونکہ بلدیاتی ادارے غیر فعال ہیں اور ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔خاتون کونسلر محترمہ زرینہ شیخ نے کہا کہ بلدیاتی دور جب وہ خاتون کونسلر منتخب ہوئی تو انہوں اپنے وارڈ میں ناصرف مقامی مسائل پر خصوصی توجہ دی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ خواتین کے حقوق کے لئے بہت زیادہ کام کرتی رہی ہیں بلخصوص صحت کی سہولیات اور گائنی کے حوالے سے بہت زیادہ خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی وہ جس محلے میں رہتیں ہیں ان کے تمام ووٹرز کا تعلق بھی اسی علاقے سے اور صبح سویرے ہیں ان کے گھر آجایا کرتیں اور ان سے نظریں نہیں چرا سکتیں تھیں جبکہ ان کے مقابلے میں ممبران صوبائی اور قومی اسمبلی تک ان کی رسائی اتنی آسانی سے نہیں ہوپاتی اور اہم بات یہ بھی ہے ان تمام مسائل کو حل کرنے کا مینڈیٹ بھی ان کا نہیں ہوتا ہے جب تک بلدیاتی ادارے فعال نہیں ہونگے تب تک یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے سابق چیئرمین ضلع کونسل جھنگ نواب بابر علی خان سیال کا کہنا ہے کہ بلدیاتی نظام عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کا بنیادی فورم ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی کے باعث بلدیاتی الیکشن نہیں کروائے جا رہے یہی وجہ ہے کہ عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لئے کبھی ایڈمنسٹریٹرز تو کبھی ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کے پاس جانا پڑتا ہے جو ان کے لئے اتنا آسان نہیں۔ بلدیاتی نظام میں منتخب نمائندہ صرف چند ہزار عوام کانمائندہ ہوتا ہے جو اپنے حلقہ کے ہر گھر اور شخص کو ذاتی طور پر جانتا ہے اور انہیں ان کے حقیقی مسائل کا بھی ادراک ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب ایک منتخب صوبائی اسمبلی کا نمائندہ کم و بیش دو سے تین لاکھ عوام کا نمائندہ ہوتا ہے اور اسے اپنے حلقے کے 98فیصد عوام کے بارے میں کوئی معلومات ہی نہیں ہوتیں۔اس سلسلہ میں عوامی رائے جاننے کی کوشش کی گئی تو عوام کی اکثریت نے بھی بلدیاتی نظام کو ان کے مسائل کے حل کا بہترین فورم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے بلدیاتی نمائندوں سے اختیارات واپس لیکر عوام سے ان کا حق چھینا ہے۔الیکشن کمیشن ملک بھر میں عام انتخابات کے فوراََ بعد پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنائے تاکہ ان کے مسائل فوری اور ان کی دہلیز پر حل ہو سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex