کالم

سیاسی عدم استحکام کے سنگین نتائج

میمونہ حسین

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان کی موجودہ سیاست میں جو تنائو ہے اُسے اب بین الاقوامی سطح پہ بہت ڈسکس کیا جا رہا ہے۔اس موجودہ سیاسی صورتحال سے بین الاقوامی سطح پر منفی تاثر جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ ہماری ملکی معیشت پر بھی منفی اثر پڑ رہا ہے۔اب انٹرنیشنل سطح پہ صرف پاکستان کی سیاست پہ سب کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں۔چند روز پہلے سوشل میڈیا پہ زلمے خلیل زاد کو بہت ڈسکس کیا جا رہا ہے جب زلمے خلیل زاد کا نام زبان زدعام ہوا تو امریکہ کو اپنی خاموشی توڑنی پڑی کہ زلمے خلیل زاد ایک عام شہری ہے جس نے اپنی ذاتی رائے سوشل میڈیا پہ دی ہے ۔زلمے خلیل زاد نے ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام انوائے (Envoy)جو کہ 2016میںشائع ہوئی جس کا تھیم’ کابل سے وائٹ ہائوس‘ تک تھا ،ایک ہنگامہ خیز دُنیا کے ذریعے میرا سفر اس کتاب میں پاکستانی سیاست پہ اہم پیشن گوئی کی گئی۔اب یہاں پہ 3اہم سوالات جنم لیتے ہیں ایک تو صرف عمران خان میں ہی دلچسپی کیوںاور دوسرا اتنا وقت پہلے کیسے۔ اُنہوں نے اپنی کتاب میں پاکستان کی سیاست پہ پیشن گوئی کر دی،تیسرا اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے جو حالیہ بیان دیا کہ زلمے خلیل زاد ایک عام شہری ہے جسنےاپنی ذاتی رائے سوشل میڈیا پہ دی ہے۔اب اہم بات جو میں بتانا چاہتی ہوں کہ زلمے خلیل زاد ،درحقیقت ہے کون؟امریکہ زلمے خلیل زاد سے لاعلمی کا اظہار کر کے اصل میںکسی بھی طرح کا ملبہ خود پہ لینا نہیں چاہتا ۔ زلمے خلیل زاد ماہر بین الاقوامی امور اور سفارتکار ہیں ۔جارج بش کابینہ میں امریکا کی جانب سے سفیر برائے اقوام متحدہ مقرر ہوئے۔اس کے علاوہ امریکی سفیر برائے اقوام متحدہ مقرر ہوئے اس کے علاوہ امریکی سفیر برائے افغانستان اور پھر امریکی سفیر برائے عراق بھی مقرر ہوئے۔ ان تمام پہلوئوں کا موازنہ کریں تو زلمے خلیل زاد ایک عام شخص تو نہ ہوئے۔سب سے اہم بات جو لابیسٹ فرم lobbyist firmبین الاقوامی سطح پہ تشکیل دی گئی خصوصاً عمران خان کی سیاست کو بچانے کے لیے اُس میں تمام لوگ وہ شامل ہیں جو ملک کو توڑنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں مگر پاکستان کے لیے مثبت رائے نہیں رکھ سکتے۔
زمے خلیل زاد نسلاً پشتون افغان ہیں۔امریکہ تعلیم کیلئے گئے تھے اور پھر وہاں کی شہریت لے لی لیکن ایک دن کے لئے بھی افغانستان سے لاتعلق نہیں رہے اس لیے پاکستان کی بھی خبر لیتے رہے۔ لیکن جو نفرت ان کے دل میں پاکستان کے بارے میں ہے وہ اُن کی کتاب انوائے میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔زلمے خلیل زاد نے چند روز قبل 14مارچ کو ٹویٹر پہ کہا کہ عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان میں جاری بحران بڑھے گااور نصیحت بھی کی کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر ملک کی سکیورٹی،ترقی،اور استحکام کے لیے منصوبہ بندی کریں۔آج بین الاقوامی سطح پر لابیسٹ فرم بنائی گئی جو عمران خان چاہتے تھے وہ ٹارگٹ پورا کر لیا۔
اگر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے اندونی معاملات اور سیاست کو ڈسکس کیا جا رہا ہے تو اس کا موقع بھی جس شخصیت کو زیادہ جاتا ہے وہ عمران خان ہیں ۔انڈیا کے رکنہ جو کہ کانگرس کے اہم رکن ہیں اُنہوں نے بھی عمران خان میں دلچسپی کا اظہار کیاذرا سوچئے آخر تمام ملک دشمن عناصر اس وقت عمران خا ن کے حق میں ہی کیوں؟بات سوچنے کی ہے اور مطلب بھی صاف دکھائی دے رہا ہے سب جانتے بوجھتے بھی اگرآنکھیں بند کر لی جائیں تو قصور پھر اپنا ہی ہوگا۔مزید اہم بات جو کالم کی وساطت سے کرنا چاہوں گی کہ عمران خان نے اس وقت نئی نسل کو اسقدر بدتہذیب کر دیا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں نے بھی اپنے اداروں اور جنرل قمر باجوہ،جنرل عاصم منیر کی تصاویر کے ساتھ نہایت برے انداز سے غیر اخلاقی طریقے سے احتجاج کیا اگر ایسا کام کوئی غیر ملکی کرتا تو بات سمجھ آتی نہایت افسوس ہوا۔آج جن معاملات میں کسی نے دخل اندازی کرنے کی جرات نہیں کی تھی وہ ہر شخص کھلے عام اُن چیزوں کو ڈسکس کر رہا ہے یہ بات اداروں کے کمزور ہونے کی پہلی دلیل ہے۔امریکہ کے بعد انڈیا بھی پاکستان کو مختلف طریقوں سے للکار رہا ہے ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ مودی نے اپنی قوم سے خطاب کیا ،وہ خطاب تو اپنی قوم سے کر رہے تھے مگرپاکستانی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عوام اپنے حکمرانوں سے پوچھے مشرقی پاکستان بھی آپ کے پاس تھا سنبھال نہیں سکے،آپ سندھ کو نہیں سنبھال پارہے،آپ گلگت کو نہیں سنبھال پا رہے ہو،آپ پختونخواہ کو نہیں سنبھال پا رہے ،آپ بلوچستان کو نہیں سنبھال پا رہے ،آج ان کو باتیں کرنے کا حوصلہ تبھی آیا ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں سیاسی انتشار جو طول پکڑ چُکاہے کہ سنبھل نہیں پا رہا۔
یہ تو باتیں اُنہوں نے پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے کر دیں اور اپنے ملک کو امن اور سکون سے تشبیہ دی اب مودی کی للکار اور باتوں کا جواب تو تبھی کوئی سیاسی جماعت کا رہنما دیتا جب یہاں سے سیاسی کھینچا تانی سے فرصت ملے۔مگر مودی سرکار یہ بات بھول گئی کہ اُن کے ہاں امن زیادہ خراب ہے اُن کے ہاں اسوقت تحریک خالصتان کافی طول پکڑ چُکی ہے ہمارے ملک میں تو صرف سیاسی انتشار ہے مگر انڈیا اپنی جانب دیکھے کہ اُن کا ملک اس وقت ٹوٹنے پرہے۔
آج سب جو منہ کھول کے پاکستان کی سیاست میں دخل اندازی کر رہے ہیں اُس میں پہلا قصور ہمارے سیاستدانوں کا ہے جنہوں نے سیاسی انارکی میں سب کو بولنے کی دعوت دے ڈالی، اس میں کلیدی کردار عمران خان کا ہے وہ جو کرنا چاہتے تھے اُس میں آج قدرے کامیاب بھی ہوگئے۔اس وقت تمام ادارے بھی ڈسٹرب دکھائی دے رہے ہیں اُس کی اہم وجہ اگر اداروں کو مضبوط کرنا ہے تو ادارے شخصیات کو مضبوط کرنا چھوڑ دیںکیونکہ ہر ادارے کو چلانے کے پرنسپلز ہوتے ہیں جب تک وہ سب اصول ایک جیسے سب پہ لاگو نہیں ہونگے تب تک ہم نہ تو ادارے مضبوط کر سکیں گے اور نہ ہی ہمارے ملک کی سیاسی انارکی کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex