کالم

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل2023ء

مصطفیٰ کمال پاشا

قدرت اللہ چودھری مرحوم و مغفور بڑے شاندار انسان اور اعلیٰ پائے کے ایڈیٹر تھے ہمیشہ پڑھی لکھی مدلل بات کرتے اور سننے والوں کے نہ صرف دماغ پر دستک دیتے بلکہ خوشگوار پیرائے کے ساتھ دِل میں بھی اتر جاتے تھے۔چودھری صاحب پارلیمان کی بالادستی کے پرچارک اور سیاست میں غیر سیاسی عناصر بالخصوص عسکری اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے سخت خلاف تھے ویسے ان کے حلقہ احباب میں کئی بڑے فوجی افسر و جرنیل بھی شامل تھے وہ فوج کی بطور اداہ قدر کرتے تھے۔ پارلیمان اور آئین و آئینی اداروں کے کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے صراحت سے کہا کرتے تھے کہ آئین، پارلیمان نے تخلیق کیا ہے،پارلیمان اس کی خالق ہے اور آئین اس کی تخلیق۔ مخلوق (آئین)، خالق(پارلیمان) کے برابر نہیں ہو سکتی،خالق ہمیشہ بالادست ہوتا ہے اور رہے گا جبکہ آئینی ادارے بشمول عدلیہ، الیکشن کمیشن وغیرہ آئین کی تخلیق ہیں، آئین ان کا خالق ہے اس لئے انہیں آئین کی بالادستی کا پاس کرنا ضروری ہے آئین لاریب بالادست ہے اپنی تخلیقات پر لیکن پارلیمان، بالادست ہے ہر آئین و آئینی اداروں سے۔
ہمارے ہاں مسائل کی بے شمار وجوہات ہوں گی، ہمارے معاشی، سیاسی، سماجی اور دیگر جملہ مسائل اور قومی عوارض کی بے شمار چھوٹی بڑی وجوہات ہیں لیکن ہمارے تمام قومی عوارض کی کلیدی وجہ پارلیمان کی بے شمار چھوٹی بڑی وجوہات ہیں لیکن ہمارے تمام قومی عوارض کی کلیدی وجہ پارلیمان کو بالادست نہ ماننا ہے۔ عوام کی رائے کو بالادست ماننے کی بجائے ”طاقت کی بالادستی“ کے راج نے ہمیں بطور قوم اور ملک ایسے مقام تک پہنچا دیا ہے کہ جہاں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا ہے۔ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک فوج کی سیاست میں براہ راست مداخلت ہماری تاریخ کا طویل باب ہے جبکہ پس ِ پردہ رہ کر کٹھ پتلیوں کے تماشے کرنے کی بھی ایک طویل تاریخ ہے اس تاریخ کا ایک المناک باب ہمارے سامنے ہے جو2011ء میں شروع ہوا اور اب وہ آخری ایکٹ کے بعد اختتام پذیر ہونے کو ہے۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء کی منظوری کے بعد یہ باب اختتام پذیر ہو جائے گا۔ سیاست میں سہولت کاری اختتام پذیر بھی ہو جائے گی۔
یہ بل اس حقیقت کاعکاس ہے کہ جاری نظام ریاست میں حقیقی بالادستی عوام کی ہے جو پارلیمان کی شکل میں سامنے آتی ہے، آزاد جمہوری معاشروں میں عوام کی رائے مقتدر اور اعلیٰ ہوتی ہے جسے وہ ووٹ کے ذریعے طاہر کرتے ہیں۔پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں عوام کی واضح اکثریت جمہوریت پر یقین رکھتی ہے جس کا اظہار تاریخی اعتبار سے بار بار ہوتا رہا ہے ہم جانتے ہیں کہ ہر مارشل لاء کے بعد نظام لوٹ کر جمہوریت کی طرف ہی آیا ہے حتیٰ کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد73ء کا دستور باقی ماندہ پاکستان کی سالمیت اور وحدت کا ضامن بنا اور اس دستور کے ابتدایئے میں طے کیا جا چکا ہے کہ مقتدرِ اعلیٰ اللہ رب العزت ہے اور عوام کی رائے پارلیمان کے ذریعے نافذ العمل ہو گی۔گویا عوام مقتدر ہیں عوام کی رائے پارلیمان کے ذریعے بالادستی حاصل کرتی ہے یہ الگ بات ہے کہ اس بالادستی کو بار بار پامال کیا گیا لیکن ہر بار لوٹ کر پارلیمان کی طرف ہی آنا پڑا ہے۔
آپریشن لانچ آف عمران خان کے وقت اور اس کے بعد عوام کی رائے کو جس طرح پامال کیا گیا وہ اب کھل کر ہمارے سامنے آ چکا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ لوگ اب تائب ہو چکے ہیں وہ کھلے عام اس بات کا اعلان کر چکی ہے جو اچھی ہی نہیں بلکہ بہت اچھی بات ہے۔پاکستان جمہوری طریقے سے جمہوری قیادت نے ہی سیاسی جدوجہد کے ذریعے حاصل کیا تھا اور پاکستان کے عوام بارہا اس بات کا،اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ جمہوریت پسند ہیں، فوج کے نیوٹرل ہونے کے بعد ہماری سیاسی قیادت جس طرزِ عمل کا مظاہرہ کر رہی ہے وہ بہت زیادہ قابل ِ ستائش نہیں ہے۔عمران خان بالخصوص سیاست کو جس نہج تک لے آئے ہیں وہ انتہائی خطرناک اور پریشان کن ہے اور وہ سیاست کو جہاں لے جانا چاہ رہے ہیں وہ انتہائی تباہ کن اور رسوا کن ہو سکتا ہے۔پاکستان سردست اپنی معاشی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے، ڈیفالٹ کے خطرات منڈلا رہے ہیں، ایک ایک ڈالر کے لئے ترلے لئے جا رہے ہیں، اتحادی حکومت سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے کہ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہ جائیں،معاشی حوالے سے شاید وہ معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جانے سے روکنے میں کامیاب نظر آ رہے ہیں، لیکن سیاست میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔عمران خان نفرت اور حقارت کے گھوڑے پر سوار بھاگے دوڑے چلے جا رہے ہیں وہ سیاست کو میدانِ نگ بنا چکے ہیں ”میں نہیں تو کوئی نہیں“ کے فلسفے کے تحت مزاحمتی سیاست پروان چڑھا رہے ہیں ان کے پروموٹرز نے جو نظام وضع کر رکھا تھا وہ غیر جانبداری کے اعلان کے بعد مکمل طور پر غیر فعال نہیں ہو سکا ہے۔عدلیہ میں بیٹھے ان کے سہولت کار من مانیوں پر تلے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
عمران خان اور ان کے حواری اس بل کے مندرجات پر تنقید نہیں کر سکے ہیں کیونکہ وہ بڑے واضع اور کسی شک و شبہ سے بالاتر ہیں اس بل کے ذریعے سپریم کورٹ کی آزادی پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگائی گئی ہے بلکہ سپریم کوٹ خود معاملات کو ریگولیٹ کرے گی، بل آئین کے مطابق بھی ہے اسی لئے بل کے نفس ِ مضمون پر تنقید ممکن نہیں۔عمران خان و ہمنوا بل پیش کرنے کی ٹائمنگ اور اسے پاس کرانے کے طریق کار پر تنقید کر رہے ہیں دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا بل پیش کرنا حکومت کا استحقاق نہیں ہے؟ کیا بل پیش کرنے کے لئے پارلیمانی کمیٹی کا طریق کار اختیار نہیں کیا گیا؟ کیا بل قومی اسمبلی میں طے شدہ طریق کار کے مطابق زیر بحث نہیں لایا گیا، کیا اس کو رائے شماری کے ذریعے کثرت رائے/ متفقہ طور پر منظور نہیں کیا گیا؟ کیا قومی اسمبلی کا پاس کردہ بل سینیٹ میں قانونی و آئینی طریقے سے پیش نہیں کیا گیا؟ کیا اس پر رائے شماری نہیں کرائی گئی؟ جب یہ سارے پراسس کرنے کے بعد بل پاس ہوا ہے تو پھر عمران خان و ہمنوا کس بات پر تنقید کر رہے ہیں۔بل کی تنقید سے قبل آخری مرحلہ صدرِ مملکت کی منظوری ہے امید کی جاتی ہے کہ وہ صدرِ مملکت کے طور پر رویہ اختیار کرتے ہوئے بل پر آرام سے دستخط کر دیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex