کالم

یومِ آزادی صحافت مگرصحافیوں کیلئے تاریکی

علی جان

آج صبح جیسے ہی اخبار اٹھایا بیک پیج پرسب سے پہلے اس خبر پرنظرپڑی کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف حملوں اور دھمکیوں میں 60 فیصد سے زیادہ کے ساتھ ہر سال مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ 11 مہینے میں صحافیوں کے خلاف دھمکیوں اور حملوں کے 140 واقعات ہوئے۔رپورٹ کے مطابق صحافیوں پر تشدد کے 56 واقعات کے ساتھ اسلام آباد پہلے نمبر پر ہے، پنجاب میں صحافیوں پر تشدد کے 35 اور سندھ میں 23 کیسز سامنے آئے ہیں۔ دنیا میں ہرسال 3مئی کوورلڈ پریس فریڈم ڈے منایاجاتا ہے جس کا مقصد دنیابھرکے صحافیوںکوپیشہ وارانہ فرائض کی انجام دیہی میں پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کودرپیش مشکلات ،مسائل اوران کی زندگیوں کو درپیش
خطرات سے دنیا کوآگاہ کرنا ہے۔ کڑوی بات بھی ہے کہ ہم میں سے کچھ ایسی کالی بھیڑیں ہیں جواپنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے بڑے لوگوں کی چاپلوسی میں لگے رہتے ہیں کبھی سیاستدانوں کے ساتھ تصویریں بن رہی ہیںتو کبھی پولیس افسرکے ساتھ ۔آج کے معاشرے میں چھوٹی محفل ہویابڑی، ہوٹل ہویا نائی کی دکان سوشل میڈیا،پرنٹ میڈیا ہویا الیکٹرونک میڈیا سبنے صحافی کو ڈکیت کا نام دیا ہوا ہے اور اچھے کے بجائے برے لفظوں میں یادکرتے ہیں ۔ حالانکہ صحافت ایک مشکل ترین شعبہ ہے جیسے کہ خبریا آرٹیکل کی چھان بین کرنا،نیوز سٹوری،رپورٹنگ،نیوز ایڈیٹنگ،کمپوزنگ،لفظوں کاچنائو،پروف ریڈنگ سمیت کئی ایسے کام ہوتے ہیں جن کی وجہ سے جولوگ معاشرے کوکھوکھلا کررہے ہیں انکو بے نقاب کرنا ہوتاہے۔ اس نے حکمران اور عوام کے درمیان آئینے کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے اور اصل چہرے کی پہچان کروانی ہوتی ہے اسی لیے صحافی کا غیرجانبدارہونا نہایت ضروری ہے ،جبکہسوشل میڈیا پر 90فیصدباتیں من گھڑت ہوتی ہیں۔ حالانکہ اصل پاور عوام ہے پرعوام میڈیا پربھروسہ کرتی ہے شاید یہ سیاسی مگرمچھ باز آجائیں اسی لیے میڈیا کے ہاتھ ان کی ڈوردے رکھی ہے صحافیوں کو سیاست سے دور ہوکرغیر جانبدارہوکے سو چنا چاہیے تاکہ ان دونمبر سیاستدانوں کے چہروں سے نقاب اترسکیں اور عوامی نمائندے اسمبلیوں میں پہنچیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex