میگزین

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

میمونہ حسین

پاکستان نے پہلی بار قرض 1958میں جنرل ایوب خان کے دور میں لیا۔گذشتہ 69برسوں میں قرضوں کے حصول کے لیے 21مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس پاکستان جا چُکا ہے۔آپ سب آئی ایم ایف کے پاس بار بار جاتے ہیں کیونکہ آپ نالائق لوگ ہیں اکانومی چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے مگر حقیقت ماننے سے انکاری ہیں۔بہت سے لوگوں کی یہ بھی رائے تھی کہ ملک ڈیفالٹ ہو جائے گا وہ تو ہم پہلے سے ہی انتہائی کرائسز سے گزر رہے ہیں مگر ڈیفالٹ کا تذکرہ تو سب کر رہے ہیں۔ اصل میں اس کا درست سمت میں مطلب کیا ہے ؟میں وہ واضح کروں گی۔
ڈیفالٹ کا آسان مطلب نادہندگی ہے۔اور نادہندہ سے مراد ایک ایسا شخص،گروہ،تنظیم ،یا ملک جو اپنا قرض بروقت ادا کرنے سے انکار کر دے یا طے شدہ ادائیگی کرنے سے قاصر ہو۔اب خود ہی اندازہ لگا لیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ایک بات مزید یہ ڈسکس کرتے سُنا کہ ملک کا دیوالیہ ہو گیا ہے تو اس پوائینٹ پہ بھی روشنی ڈالنا چاہوں گی۔
دیوالیہ ہونے کا مطلب کیا ہے؟
حساب میں دھوکے بازی سے اور جائیداد کو فروخت کرکے قرض خواہوں کے مطالبات جس جس حد تک پورے کیے جا سکتے ہوں ایسے مقروض کو دیوالیہ کہا جاتا ہے۔
یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جن کو ہر روز ڈسکس کیا جاتا ہے مگر ان مسائل سے تو ہم پہلے ہی سے دوچار ہیں مگر ان مسائل سے نکلنے کا حل ہونا چاہیے ۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے جمہوریت کا طرز عمل بھی ایسا ہے کہ اگر ایک جماعت برسر اقتدار آئی ہے تو اس کے اپنے پراجیکٹ ہوتے ہیں۔ اپنے مفادات کو آگے رکھتے ہوئے پراجیکٹس کو لے کر چلتے ہیں اور جو اپوزیشن جماعت ہوتی ہے وہ بجائے مسائل کو پوائنٹ آوٹ کرے وہ اپنے اقتدار کی کھینچا تانی میں مصروف عمل ہے۔ اس قسم کی صورتحال میں ملکی اور قومی مفادات پس پشت ہو جاتے ہیں جبکہ ہونا تو یہی چاہیے کہ سیاسی مفادات کو اگنور کرتے ہوئے ملکی مفادات کو ترجیح دی جائے۔ درحقیقت مسائل ہی یہاں سے جنم لیتے ہیں۔
اب یہ اہم سوال ہے کہ پاکستان میں اس تیز رفتاری سے اندرونی اور بیرونی قرضوں میں کیوں اضافہ ہوا؟میں اپنے اس کالم کی وساطت سے کہنا چاہوں گی کہ ملکی معشیت کو بہتری کی جانب لانے کے لیے حل بار بار قرض نہیں ہے بلکہ قرض سے تو ہم مزید دلدل میں دھنستے جائیں گے۔بار بار قرض سے سب سے پہلے گردشی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے الٹی میٹلی بوجھ عام عوام پہ آئے گا اُس کے چند اہم فیکٹرز کچھ یوں ہیں۔
1ٹیکسز میں اضافہ،اس سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگا اور عام ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے عوام کی قوت خرید متاثر ہوگی
2سبسڈی کا خاتمہ،اس سے بھی بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات میں حکومتی سطح پہ اضافہ کرنا پڑے گا اس سے بھی عام عوام ہی متاثر ہوگی۔
یہ بنیادی پوائنٹ ہیں مگر جب حکومتی سطح پر جو ٹیکسیز کولیکٹ کرنے کا ٹارگٹ مقرر ہوتا ہے جب وہ ٹارگٹ پورا نہیں ہو پاتا تو ملکی معشیت پہ تب بھی گہرا اثر پڑتا ہے ،ریزوز میں کمی آنا شروع ہوتی ہے ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے میں تیزی سے گراوٹ آتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گردشی قرضوں میں اضافہ اور اکانومی بری طرح متاثر ہو جاتی ہے۔
حکومتی سطح پہ پہلے حل کی جانب جانا چاہیے۔اُس کے لیے چند اہم اقدام یہ کرنے ہون گے ۔
ایک تو فوری طور پہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کروائی جائے۔مگر بدقسمتی سے اس عمل کو ہم اس لیے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا پا رہے کہ ہمارے حکمرانوں کے اپنے اثاثے ملک سے باہر ہیں۔کوئی کیسے ہم پراعتبار کرکے ملک میں سرمایہ کاری کرے گا۔ایک فیکٹر تو یہ ہے
دوسرا روپے میں تیزی سے گراوٹ کو دیکھتے ہوئے بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے۔اب یہ ہماری سیاسی جماعتوں کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے اثاثے ملک میں لائیں ۔
تیسرا سی پیک منصوبے کو 10سال بیت گئے ہیں یہ منصوبہ سست روی کا شکار صرف اس لیے ہے کہ اس منصوبے کو بھی سیاست کی نذر کر رکھا ہے۔اس منصوبے کو جلد از جلد مکمل کیا جائے اس سے سینکڑوں لوگوں کو ملازمتیں ملیں گی ،غیر ملکی تجارتوں میں اضافہ ہوگا جس سے اکانومی پہ مثبت اثر پڑے گا۔
اس موجودہ صورتحال سے ہمارا ملک داخلی اور خارجی دونوں لحاظ سے ڈسٹرب ہے۔ہمیں اپنی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے ہمارے اداروں اور حکمرانوں کو کچھ تلخ فیصلے لینے ہون گے ،ہمارے حکمران کچھ اہم فیصلے اس لیے نہیں کرتے کہ وہ سوچتے ہیں کہ ہمارا ووٹ بینک کہیں خراب نہ ہو مگر ان تمام سیاسی مفادات کو یکظرفہ کرنا ہوگا۔
جیسے تاحیات نااہل کی مدت کو ختم کرتے ہوئے 5سال کی مدت میں بدل دیا جا سکتا ہے تو اسی طرح قومی مفادات کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ حکمران اپنی ذات سے باہر نکل کے نہیں سوچتے جہاں مشکل آتی ہے خود کو کچھوے کی طرح خول میں چھپا کے ملک سے باہر قیام پذیر ہوتے ہیں۔
جہاں ملکی مسائل اس قدر ہیں وہاں اُن میں سے انتخابی عمل بھی ایک معمہ بنتا جا رہا ہے۔یورپی یونین نے یہ بیان جاری کیا ہے کہ وہ انتخابات کے لیے اپنے مبصرین نہیں بھیجیں گے۔
اب اس سے پہلے سینئیر رکن پارلیمان یورپی یونین مائیکل گہلر جو کہ 2008،2013،2018میں ہونے والے انتخابات کے موقع پر یورپی یونین کی جانب سے پاکستان انتخابی مبصر کی حثیت سے اپنے فرائض سر انجام دے چُکے ہیں ۔اب اس فیصلے کے پیچھے کچھ اہم فیکٹرز یہ ہیں
1۔ایک تو وہ دُنیا کے سامنے سیاسی طور پہ متنازعہ نہیں ہونا چاہتے ،کیونکہ پچھلے دنوں جتنے اینٹی پاکستان ایجنٹ وہ سب عمران خان کی فیور میں تھے جس مین کرسٹینا،زلمے خلیل زاد، لابیست فرم اور بین الاقوامی میڈیا جنہوں نے کپتان کو بہت کوریج بھی دی۔
2۔ایک اہم پہلو یہ بھی ہے جو عمران خان نے کاغذ کا ٹکڑا ہوا میں لہرایا تھا کہ مجھے دھمکی آمیز لیٹر ملا،یہ تو ایک دکھاوا تھا مگر اندر سے یہ ساری قوتیں عمران خان کے ساتھ ہیں۔
3۔یورپی یونین نے پاکستان کی موجودہ حالت زار کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔
4۔یورپی یو نین کا ماننا ہے کہ کسی بھی سیاسی رہنما کے بارے میں تیسری قوت کی بجائے ملک کی عوام کو فیصلہ کرنے کا حق ہونا چائیے کہ وہ کس کو برسر اقتدار لانا چاہتے ہیں۔یہ پہلو تو ایک مثبت ہے اور جمہوریت کا طرز عمل بھی یہی ہونا چاہیے۔
اب ہمارے حکمرانو ں کو بھی اپنے غیر ذمہ دارانہ رویوں کو بدل کر اور اپنی شاہ خرچیوں کی روش کو بدل کر ملک و قوم کی ترقی کا سوچیں۔پھر ہی مستقبل کی راہیں روشن ہوں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex