فیچرڈمیگزین

مغلیہ سلطنت کا بانی۔۔۔ ظہیر الدین بابر

شبیر عثمانی
برصغیر پاک و ہند میںمسلمانوں نے ایک لمبا عرصہ حکومت کی۔ اسکی بنیاد سلطان محمود غزنوی نے رکھی۔ غزنوی خاندان کے بعد غوری، غلاماں، خلجی، تغلق، سادات اور لودھی خاندان حکمران رہے۔اس کے بعد 1526ء میں ظہیر الدین بابر نے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی،مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر 14 فروری 1483ء کوپیدا ہوئے۔ ان کے والد عمر شیخ مرزا فرغانہ (ترکستان) کے حاکم تھے۔ ظہیر الدین باپ کی طرف سے تیمور اور ماں قتلغ نگار خانم کی طرف سے چنگیز خان کی نسل سے تھے۔ اس طرح ان کی رگوں میں دو بڑے فاتحین کا خون دوڑ رہا تھا۔ بابر ابھی بارہ برس کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ چچا اور ماموں نے شورش برپا کردی جس کی وجہ سے بابر گیارہ برس تک پریشان رہے۔ کبھی تخت پر قابض ہوجاتے اور کبھی بھاگ کر جنگلوں میں روپوش ہوجاتے۔ بالآخر 1504ء میں، بلخ اور کابل کے حاکم بن گئے۔ یہاں سے انھوں نے ہندوستان کی طرف اپنے مقبوضات کو پھیلانا شروع کیا۔
مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اور سلطنت دہلی کے سلطان ابراہیم لودھی کے درمیان میں 21 اپریل 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ہوئی۔ سلطان ابراہیم لودھی کی فوج ایک لاکھ جوانوں پر مشتمل تھی اور بابر کے ساتھ صرف بارہ ہزار آدمی تھے۔ مگر بابر خود ایک تجربہ کار سپہ سالار اور فن حرب سے اچھی طرح واقف تھا۔ سلطان ابراہیم لودھی کی فوج نے زبردست مقابلہ کیا۔ مگر شکست کھائی۔ سلطان ابراہیم لودھی اپنے امرا اور فوج میں مقبول نہ تھا۔ وہ ایک شکی مزاج انسان تھا، لاتعداد امرا اس کے ہاتھوں قتل ہوچکے تھے، یہی وجہ ہے کہ دولت خان لودھی حاکم پنجاب نے بابر کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی اور مالی وفوجی مدد کا یقین دلایا۔
ظہیر الدین بابراور ابراہیم لودھی کا آمناسامنا ہوا تو لودھی کی فوج بہت جلدتتر بتر ہو گئی۔ سلطان ابراہیم لودھی مارا گیا اور بابر فاتح رہا۔ پانی پت کی جنگ میں فتح پانے کے بعد بابر نے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بابر فاتحانہ انداز میں دہلی میں داخل ہوا۔ یہاں اس کا استقبال ابراہیم لودھی کی ماں بوا بیگم نے کیا۔ بابر نے نہایت ادب واحترام سے اسے ماں کا درجہ دیا۔ دہلی کے تخت پر قبضہ کر نے کے بعد سب سے پہلے اندرونی بغاوت کو فرو کیا پھر گوالیار، حصار، ریاست میوات، بنگال اور بہار وغیرہ کو فتح کیا۔ اس کی حکومت کابل سے بنگال تک اور ہمالیہ سے گوالیار تک پھیل گئی۔
دسمبر 1530ء میں بڑے عجیب واقعہ کے بعد فوت ہوا، اسکا بیٹا ہمایوں سخت بیمار ہو گیا بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو بابر نے اسکی چارپائی کے گرد سات چکر لگائے اور کہا اے خدا ہمایوں کی بیماری میں نے لے لی، ہمایوں تندرست ہونے لگا اور بابر کی صحت خراب رہنے لگی۔
ظہیر الدین بابرکا 26 دسمبر 1530ء کو آگرہ میں انتقال ہوا اور حسب وصیت کابل میں بابر باغ دفن کیا گیا۔ اس کے پڑپوتے جہانگیر نے اس کی قبر پر ایک شاندار عمارت بنوائی ۔اس تاریخی عمارت میں سب سے اہم ظہیرالدین محمد بابر کا سادہ مقبرہ ہے جس پر نہ کوئی گنبد ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی عالیشان عمارت بلکہ بابر کی وصیت کے مطابق انہیں کھلی فضا میں دفنایا گیا ہے۔ اس باغ کوخود بابر نے تقریباً 518 سال قبل کابل کو فتح کرنے کے موقع پر بنایا تھا۔تاریخی حوالوں کے مطابق بابر کو کابل کی آب و ہوا زیادہ پسند تھی اس لیے انہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں کابل ہی میں دفنایا جائے لیکن ہندوستان کے شہر آگرہ میں مرنے کے بعد انہیں وہاں دفن کیا گیا لیکن 10 سال سے کچھ زیادہ عرصے کے بعد فرصت ملتے ہی ان کے باقیات کو ان کے جانشین بادشاہ ہمایوں نے کابل منتقل کردیا۔ اسکی قبر کا تعویز بیش قیمت پتھر لاجورد کا بنایا گیا، یہی پتھر علامہ اقبال کے مزار پر بھی لگایا گیا ہے اس شفاف پتھر سے روشنی گزرتی ہے تو لاجوردی رنگ کی شعائیں نکلتی ہیں۔بابر کی نسل میں آنے والا ہر بادشاہ اپنی سیاسی اور جنگی مہمات اور کبھی کبھار اپنے دادا کی زیارت کی خاطر کابل آتا رہا اور باغِ بابر کی آبادی کے لیے کام کرتا رہالیکن مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ باغ بابر کو شدید نقصان پہنچا۔ 18ویں صدی کے آخر میں بابر کے مقبرے کے احاطے میں درانی بادشاہ تیمور شاہ کی بیوی بیگم النسا کو دفنایا گیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق مغلیہ خاندان سے تھا۔
بارہ سال کی عمر سے مرتے دم تک اس بہادر بادشاہ کے ہاتھ سے تلوار نہ چھٹی اور بالآخر اپنی آئندہ نسل کے لیے ہندوستان میں ایک مستقل حکومت کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوا۔ تزک بابری اس کی مشہور تصنیف ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ نہ صرف تلوار کا دھنی تھا، بلکہ قلم کا بھی بادشاہ تھا۔ فارسی اور ترکی زبانوں کا شاعر بھی تھا اور موسیقی سے بھی خاصا شغف تھا۔ظہیر الدین بابر کی پوری زندگی میدان جنگ کی زندگی ہے اقتدار کی کشمکش اور اپنی جان بچانے اپنی زندگی کو محفوظ بنانے کی جدوجہد ہے۔ بابر نے ہندوستان میں جس سلطنت مغلیہ کی بنیاد سخت محنت اور جنگ و جدل سے رکھی آنے والوں کی نالائقی نااہلی اور عیاشی و بزدلی نے اسکا انجام رسوا کن بنا دیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex