پاکستانمیگزین

قرآنِ پاک کی عظمت اور آداب تلاوت!

تحریر : رانامحمد شفیق خاں پسروری

قرآن مجید معبود حقیقی اور محبوب و مطلوب کا کلام خاص ہے۔ محبوب کی تقریر و تحریر کی کسی دل کھوئے کے ہاں جو وقعت ہوتی ہے اور کے ساتھ جو وارفتگی و شیفتگی کا معاملہ ہوتا ہے وہ اختیار کرنا چاہئے۔ پھر یہ عظیم کتاب تو احکم الحاکمین کا کلام اور سلطان السلاطین، بادشاہوں کے بادشاہ کا فرمان ہے، اس سطوت و جبروت والے شہنشاہ کا قانون ہے جس کی ہمسری نہ کسی بڑے سے بڑے سے ہوئی نہ ہو سکتی ہے۔ جن لوگوں کو سلاطین کے دربار سے واسطہ پڑا ہے وہ تجربے سے اور جن کو نہیں پڑا وہ اندازے سے سلطانی فرمان کی ہیبت جان سکتے ہیں۔ کلام الٰہی محبوب و حاکم کا کلام ہے۔ اس لئے دونوں آداب کا خیال رکھنا چاہئے۔
حضرت عکرمہؒ جب کلام پاک پڑھنے کے لئے کھولتے تو بے ہوش ہو کر گر پڑتے، زبان پر یہی جاری ہوتا تھا۔’’ھذا کلام ربی، ھذا کلام ربی‘‘’’یہ میرے رب کا کلام ہے، یہ میرے رب کا کلام ہے‘‘ ۔یعنی اس کو ایک عام فرد کی طرح نہیں پڑھنا چاہئے۔ صرف بندہ بن کر اپنے آقا، مالک، محسن اور منعم کا کلام سمجھ کر پڑھے، اس کے حضور اس طرح حاضر ہو، جس طرح کسی خاص تقریب میں آقا کے حضور حاضر ہے۔ اچھی طرح مسواک کر کے، وضو کر کے ایسی جگہ جہاں یکسوئی حاصل ہو، نہایت وقار اور تواضع کے ساتھ قبلہ رو بیٹھئے، نہایت حضور قلب اور خشوع کے ساتھ اس طرح پڑھئے گویا حق تعالیٰ سبحانہ کو کلام پاک سنا رہا ہے یا اس ذات برحق سے گفتگو کا شرف حاصل کر رہا ہے۔ (اگر معانی جانتا ہو تو کیا ہی خوب۔۔۔!)
نہایت تدبر و تفکر کے ساتھ وعدے اور رحمت و مغفرت کی آیات پر مغفرت و رحمت کا بھکاری بن جائے اور خوب دُعا مانگے۔ عذاب و وعید کی آیات پر کانپ اٹھے اور اللہ سے پناہ وبخشش کی دُعا مانگے کہ اس کے سوا کوئی بھی چارہ ساز نہیں۔ جن آیات میں اللہ کی تقدیس و تحمید ہے، وہاں سبحان اللہ کہے۔ تلاوت کے درمیان از خود رونا آئے تو بہت خوب ورنہ بہ تکلف رونے کی سعی کرے۔ دوران تلاوت کسی اور سے ہم کلام نہ ہو۔ دوران تلاوت اگر کوئی ضرورت پیش آئے تو تلاوت بند کر کے ضرورت پوری کرے اور پھر تعوذ پڑھ کر دوبارہ تلاوت کرے۔ بلند آواز سے پڑھنا اولی ہے، لیکن کوئی نمازپڑھ رہا ہو یا لوگ مجمع میں دیگر امور میں مشغول ہوں تو آہستہ پڑھے۔اس کتاب مقدس کی تلاوت کے آداب جو قرآن و احادیث سے ثابت ہیں وہ درج ذیل ہیں:
اس عظیم کتاب کو برحق، شک و شبہ سے بالاتر اور انسان کی فلاح و خیر، رشد و ہدایت اور شفا کا باعث جاننا، منزل من اللہ، منزل برسول اللہ سمجھنا اور باعث ثواب و اجر قرار دینا۔ اس میں درج احکامات پر عمل کرنا اور تمام کے تمام پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے ذریعے دنیا و آخرت کی بہتری کے لئے کوشش کرنا۔ (دنیا و آخرت کی کامیابی کا باعث قرار دے کر اس کی آیات کو لازم حیات بنا لینا) ۔ اس کتاب مقدس کو انتہائی پاک جگہ پر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی صفت بیان کرتے ہوئے(مَّرْفُوعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍ) (عبس: ۱۴)کے الفاظ بیان کئے ہیں۔ یعنی بلند و پاک، سو اس کتاب مقدس کو کسی اونچی جگہ اور پاکیزہ مقام پر رکھا جائے۔ اس کو ناپاک ہاتھ نہیں لگنے چاہئیں، جب بھی چھوا جائے باوضو ہو کر:(لَّا یَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ) (واقعہ: ۷۹)میں یہی حکم ہے۔ نیز رسول اللہؐ کی حدیث مبارکہ بھی ہے کہ لا یمس القرآن الا طاھر (کہ ہر گز قرآن مجید کو بے وضو نہ چھوا جائے (موطا امام مالک) یہ وہ حکم نبویؐ ہے جو حضرت عمرو بن حزم کے ہاتھ یمن کے رؤسا کو بھیجا گیا تھا۔ (مؤطا کتاب القرآن)
حالت جنابت اور حیض و نفاس میں قرآن پاک کی تلاوت بھی جائز نہیں۔ حضرت ابن عمرؓ سے ابوداؤد و ترمذی میں روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: لا تقرأ الحائض والجنب شیئا من القرآن (حائضہ اور جنبی قرآن سے کچھ بھی نہ پڑھے۔ (ابوداؤد مراسیل، کتاب القرآن)
نوٹ: احکام القرآن للجصاص، تفسیر ابن کثیر، روح المعانی وغیرہ کے حوالے سے صحابہ کرامؓ بغیر وضو کے قرآن پاک پڑھنے کو جائز سمجھتے تھے مگر چھونے کو ناروا۔ یعنی بے وضو قرآن کو چھونا نہیں چاہئے یعنی زبانی پڑھاجا سکتا ہے، البتہ حالت جنابت،حیض و نفاس میں زبانی بھی نہیں پڑھنا چاہئے۔ (تحت تفسیر آیت لا یمسہ الا المطہرون)اسی طرح اگر کوئی جنبی اور حائضہ کے سامنے قرآن پاک پڑھ رہا ہو اور وہ غلطی کر جائے تو اس صورت میں غلطی کی درستی کے لئے جنبی اور حائضہ کے قرآن پاک پڑھنے کی اجازت ہے۔ ایسے ہی عام معمولات میں کلمات خیر مثلا الحمد للہ، سبحان اللہ، انشا اللہ وغیرہ کہنے کی بھی اجازت ہے۔جب بھی قرآن پاک پڑھے بلند آواز سے پڑھے کہ اس کا سننا بھی باعث ثواب و رحمت ہے اور اس سے یہ بھی مقصود ہے کہ اگر کوئی غلطی ہو تو کوئی سننے والا درستی کر دے۔ امام بخاریؒ نے جامع الصحیح میں باقاعدہ بلند آواز سے قرآن پاک پڑھنے کا باب باندھا ہے اور حضرت عبداللہ بن مغفلؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو دیکھا وہ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور لچکدار لہجے میں بلند آواز سے سورۃ فتح پڑھ رہے تھے۔ (کتاب التفسیر بخاری شریف)
قرآن پاک خوش الحانی اور خوش لہجہ سے پڑھنا چاہئے، رسول اللہؐ کی حدیث مبارکہ ہے:( حسنوا القرآن باصواتکم فان الصوت الحسن یزید القرآن حسنا )’’(کہ تم لوگ اپنی آوازوں سے قرآن پاک کو حسین بناؤ کہ اچھی آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کر دیتی ہے‘‘ ۔اسی طرح بخاری شریف میں باقاعدہ خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا باب ہے اور حضرت ابوموسیٰؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے اس کے حق میں فرمایا: ( لقد اوتیت مزمارا من مزا میرال داؤد )’’کہ مجھے حضرت داؤد علیہ السلام کی خوش الحانی سے نوازا گیا ہے۔‘‘ (بخاری کتاب التفسیر)
قرآن پاک پڑھنے میں تیزی نہیں کرنی چاہئے کہ الفاظ آپس میں گھل جائیں اور سمجھ نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ)(القیامۃ: ۱۶)کہ قرآن پاک پڑھتے ہوئے جلد بازی میں زبان نہیں ہلانی چاہئے۔ایک ایک لفظ کھینچ کھینچ کر اور موتیوں کی صورت الگ پڑھنا چاہئے۔ ایسے جیسے ہر لفظ کا مزا لے لے کر پڑھا جائے۔ بخاری شریف میں باقاعدہ الفاظ کھینچ کر پڑھنے کا باب ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ خوب کھینچ کر پڑھتے تھے۔دوسری جگہ حدیث میں ہے:((فقال کانت مداثم قراء بسم اللہ الرحمن الرحیم یمد بسم اللہ ویمد بالرحمن ویمد بالرحیم)) (بخاری کتاب التفسیر) حضرت انسؓ نے فرمایا کہ’’ آپؐ کھینچ کر پڑھتے تھے پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر کہا کہ بسم اللہ کو کھینچتے‘ پھر الرحمن کو کھینچتے پھر الرحیم کو کھینچتے‘‘ ۔ ترتیل سے یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:(أَوْ زِدْ عَلَیْْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً)(مزمل: ۴)کہ قرآن پاک کو نہایت اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے۔ بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ میں نے رات پوری مفصل سورتیں پڑھیں تو عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: قرآن نہیں پڑھا بلکہ یہ تو گھاس کاٹنا ہوا۔حضرت اُم سلمہؓ فرماتی ہیں:( یقطع قراتہ یقول الحمد للہ رب العالمین ثم یقف ویقول الرحمن الرحیم ثم یقف وکان یقرا مالک یوم الدین ) (شمائل ترمذی)’’ رسول اللہؐ ہر آیت کو الگ الگ پڑھتے تھے‘ الحمد للہ رب العالمین پڑھتے پھر ٹھہر جاتے، پھر الرحمن الرحیم پڑھتے پھر رک جاتے‘ پھر مالک یوم الدین پڑھتے۔‘‘یعنی ہر آیت (گول دائرے) پر رکنا اور وقف کرنا ہی سنت اور ترتیل ہے۔شاہ عبدالعزیزؒ تفسیر عزیزی میں لکھتے ہیں: ترتیل لغت میں صاف اور واضح پڑھنے کو کہتے ہیں اور شرع شریف میں کئی چیزوں کی رعایت سے تلاوت قرآن کو کہتے ہیں۔اول حرفوں کا صحیح طرح مخرج سے نکالنا، دوسرے (گول دائرے) آیات کے نشان پر ٹھہرنا۔ تیسرے حرکتوں میں اشباع کرنا یعنی زبر، زیر اور پیش وغیرہ اچھی طرح ظاہر کرنا۔ چوتھے آواز کو تھوڑا بلند کرنا، پانچویں آواز میں درد پیدا کرنا کہ دل پر اثر ڈالے۔ چھٹے تشدید اور مد کو اچھی طرح ظاہر کرنا کہ اس کے اظہار سے عظمت کلام ظاہر ہوتی ہے اور تاثیر میں اعانت ہوتی ہے۔ ساتویں آیات رحمت و عذاب کا حق ادا کرے (جیسا کہ شروع میں گزرا اور مقصود ان سے قرآن پاک کا فہم ہے) (تحت آیت رتل القرآن ترتیلا)۔
حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز قرآن پاک کے پڑھنے والے کو کہیں گے کہ ترتیل سے پڑھتا جا جس طرح دنیا میں پڑھتا تھا اور جنت کے درجات طے کرتا جا، جہاں آیات ختم ہونگی وہی تیری منزل ہے۔ (سنن اربعہ، احمد، ابن حبان باب فضائل القرآن)گویا زیادہ بلند مقام اسی کو ملے گا جو نہایت اطمینان اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہے اور یہی مسنون طریقہ ہے۔قرآن پاک کو جتنا بھی غور و فکر سے پڑھا جائے بہتر ہے، کم از کم مدت ایک ماہ میں ختم کرنا چاہئے۔ اگر مزید استطاعت ہو تو پندرہ دن میں، مزید استطاعت ہو تو سات دن، میں اس سے کم بالکل نہیں پڑھنا چاہئے۔بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے دو حدیثیں روایت ہیں جن میں ایک ماہ میں قرآن پاک پڑھنے کی اجازت، حد سات دن کا حکم ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا:( اقرء القرآن فی شھر قلت انی اجد قوۃ حتی قال فاقراہ فی سبع ولا تزد علیہ )یعنی تم قرآن کو ایک ماہ میں پڑھو (حضرت عبداللہؓ کہتے ہیں) میں نے کہا کہ میں اس سے زیادہ کی استطاعت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: زیادہ سے زیادہ سات دن میں پڑھو اور سات سے کم بالکل نہیں۔ (بخاری کتاب التفسیر)اسی وجہ سے قرآن پاک کی سات منازل بنائی گئی ہیں تا کہ حفاظ و قراء ایک ہفتے میں قرآن پاک کا دور کر سکیں۔
صحابہ کرامؓ و تابعینؒ نے روزانہ تلاوت کی ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی جسے حزب یا منزل کہا جاتا ہے۔ پورے قرآن کی کل سات منازل یا احزاب ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر مقدمہ)بخاری میں روایت حدیث ہم پہلے لکھ آئے ہیں جس میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے کہا کہ میں نے آج رات مفصل سورتیں پڑھی ہیں تو ابن مسعود ؓنے کہا: ھذا کھذا الشعر‘‘ کہ یہ تو گھاس کاٹنا ہوا۔ (قرآن پڑھنا نہ ہوا) (کتاب التفسیر بخاری)ترمذی شریف میں ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ((لم یفقہ من قرأ القرآن فی اقل من ثلث)) یعنی جس نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا اس نے قرآن کو کچھ سمجھا ہی نہیں۔ (کتاب القرآن)
قرآن پاک پڑھتے ہوئے حالت خشوع و خضوع کی ہو، خشیت الٰہی کی وجہ سے کپکپاہٹ طاری ہو تو کیا کہنا، آنکھیں اشکبار ہوں۔جب سنتے کہ جو رسولؐ کی طرف اتارا گیا تو ان کی آنکھیں آنسو بہاتے دیکھتے ہو کہ انہوں نے حق پہچانا ہے۔بخاری شریف کتاب التفسیر باب البکاء عند قراۃ القرآن میں عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے مجھ سے سورۃ النساء سنی تو آپ رونے لگے۔صحابہ کرامؓ کے متعلق خصوصاً حضرت عمرؓو ابوبکرؓ کے بارے میں عام روایات ہیں کہ وہ بعض اوقات بے ہوش ہو جایا کرتے تھے۔
ریا و نمود سے الگ رہ کر محض رضائے الٰہی اور خوشنودی ربانی کے لئے قرآن پاک پڑھنا چاہئے۔ قرآن پاک میں بار ہا ریاکاری کی سختی سے ممانعت ہے اور اس سے (ریاء سے) نہ صرف اعمال ضائع ہوتے ہیں، بلکہ سخت سزا و عذاب بھی مقدر بنتا ہے۔ بخاری کتاب التفسیر باب ریاء بقرآۃ القرآن میں ایسے قاریوں (یعنی قرآن پاک پڑھنے والوں) کے سلسلے میں احادیث آئی ہیں جو محض ریاکاری کی غرض سے تلاوت و قرأت کرتے ہیں اور ان کے متعلق رسول اللہؐ کا فرمان ہے:((یمرقون من الاسلام کما یمرق السھم من الرمیۃ))’’کہ وہ اسلام سے ایسے نکلیں گے جیسے کمان سے تیر، اور فرمایا: ((ویقراؤن القرآن لا یجاوز حناجرھم))کہ قرآن پڑھتے ہیں مگرا ن کے حلقوں سے نیچے نہیں اترتا۔ جب بھی پڑھے دل لگا کر پڑھے، جب اکتاہٹ محسوس کرے تو تلاوت روک دے۔ جی لگنے تک قرآن پاک پڑھنا ہی بہتر، صحیح اور مسنون ہے۔ بخاری کتاب التفسیر باب قرأۃ القرآن ما التفت قلوبکم میں حضرت جندب بن عبداللہؓسے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا:(اقرؤا القرآن ما التفت قلوبکم فاذا اختلفتم فقوموا عنہ)’’کہ قرآن پاک اس وقت تک پڑھو جب تک دل لگا رہے اور جب دل اچاٹ ہو تو نہ پڑھو‘‘۔یہ اس لئے ہے کہ اس طرح قرآن پاک پر نہ غور و فکر، تدبر و تفکر ہو سکتا ہے نہ آیات و عدو وعید کا حق ادا ہو پاتا ہے۔ نیز اعراب و الفاظ کے خلط ملط اور غلط ہونے کا امکان بھی ہے۔ جب کہ قرآن پاک پر تدبر کا حکم ہے:افلا یتدبرون القرآن (اسراء: ۴۱)۔
قرآن پاک کو لازمہ حیات اور ایک معمول بنانا چاہئے کہ یہ ہر طرح انسان کے لئے فائدہ مند کتاب ہے۔بخاری کتاب التفسیر میں باقاعدہ باب ہے۔ استذکار القرآن وتعاھدہ کہ قرآن پاک کے ہمیشہ تلاوت کرنے اور پڑھنے (ذکر بنانے) کا بیان۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:انما مثل صاحب القرآن کمثل صاحب الابل المعلقۃ ان عاھد علیھا امسکھا وان اطلقھا ذھبت’’کہ قرآن والے کی مثال بندھے اونٹ والے کی طرح ہے کہ اگر وہ اس کے گرد رہے گا تو اسے محفوظ رکھے گا ورنہ وہ بھاگ جائے گا۔‘‘ایک اور حدیث میں فرمایا: (تعاھدوا القرآن) قرآن ہمیشہ پڑھتے رہو۔ (بکاری باب مذکور) یعنی جو کچھ بھی پڑھا جائے اس پر عمل کیا جائے۔ قرآن و احادیث کی تمام تر تعلیمات کا مقصد قرآن پاک کو عمل اور لازمہ حیات بنانا ہے۔ یہ متقیوں، مومنوں کے لئے رحمت، ہدایت، شفاء اور موعظۃ قرار دیا گیا ہے۔ (یونس: ۵۷، انعام: ۱۵، اعراف: ۳۲، اٰل عمران: ۱۳۸)امام ابن کثیرؒ نے تفسیر کے مقدمہ میں ایک حدیث نقل کی ہے حضرت عبدالرحمن سلمی تابعیؒ کہتے ہیں کہ جن (صحابہؓ ) سےہم نے قرآن سیکھا وہ کہا کرتے تھے کہ ہم نے رسول اللہؐ سے پڑھا اور جب تک ہم دس آیتوں کا علم و عمل نہ سیکھ لیتے تھے آگے نہ بڑھتے تھے۔ غرض قرآن کا علم اور عمل دونوں ہی کو سیکھا۔
قرآن پاک کی تلاوت سے قبل اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھنا چاہئے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّہِ مِنَ الشَّیْْطَانِ الرَّجِیْمِ) (نحل: ۹۸)’’کہ جب قرآن پڑھنے لگو تو اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھ لیا کرو‘‘ ۔امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں اس سے دو فائدے حاصل ہوتے ہیں ایک قرآن کے طرز بیان پر عمل، دوسرے عبادت کے بعد کے غرور کا توڑ نیز جو واہی تباہی مُنہ سے نکل جاتی ہے اس سے منہ پاک ہو جاتا ہے اور تلاوت کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس طرح قرآن پاک کی تلاوت کے دوران وساوس سے بچاؤ بھی ہو جاتا ہے۔
علماء کرام نے تلاوت کے چھ آداب ظاہری اور چھ باطنی بیان کئے ہیں۔آداب ظاہری میں انتہائی ادب سے قبلہ رو باوضو ہو کر، پڑھنے میں جلدی نہ کریں۔، رونے کی سعی کریں، اگر ریاء کا احتمال ہو یا کسی فرد کی تکلیف و ہرج کااندیشہ ہو تو آہستہ ورنہ بلند آواز سےپڑھیں، آیات عذاب پر پناہ و مغفرت طلب کریں اور آیات رحمت پر بھکاری بن جائے یعنی آیات رحمت و عذاب کا حق ادا ہو۔ خوش الحانی سے پڑھیں۔آداب باطنیمیں قرآن پاک کی عظمت دل میں ہو، اللہ تعالیٰ صاحب کلام ہیں ان کی رفعت و کبریائی دل میں ہو، دل وساوس و خطرات سے پاک ہو،معانی کا تدبر اور لذت کا اہتمام ہو۔ رسول اللہؐ نے ایک رات یہی آیت پڑھتے ہوئے گزار دی۔(إِن تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ) (مائدۃ: ۱۱۸)اسی طرح سعد ابن جبیرؓ نے یہ آیت پڑھتے ہوئے صبح کر دی۔(وَامْتَازُوا الْیَوْمَ أَیُّہَا الْمُجْرِمُونَ)(یٰسین: ۵۹)جن آیات کی تلاوت کر رہا ہے، دل ان کے تابع کر دے، اس طرح پڑھے گویا اللہ سے گفتگو کر رہا ہے یا اس کو سنا رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex