کالم

پاکستان تحریک انتشار اور عمران خان کی فتح

مصطفیٰ کمال پاشا

ترجمان پاک فوج نے خوب کہا (9مئی کے دن جو کچھ ہوا) ”جو دشمن نہیں کر سکا سیاسی گروہ (پی ٹی آئی) نے کر دکھایا“۔ بالکل درست کہا۔ سچ کہا یہ تاریخی اعتبار سے بالکل درست اور سچ ہے لیکن یہ سب کچھ9مئی کو نہیں ہوا، بلکہ اس کی تیاری، منصوبہ سازی سالوں پہلے کی گئی تھی، جب دسمبر1979ء میں اشتراکی افواج دریائے آمو عبور کر کے افغانستان میں داخل ہوئیں اور دو جنوری1980ء امریکی صدر نے ”افغانستان کو بھولی بسری داستان قرار“ دے کر پاکستان کو300 ملین ڈالر کی امداد کی پیش کش کی جسے جنرل ضیاء الحق نے مونگ پھلی قرار دے کر یکسر مسترد کر دیا تھا پھر پاکستان نے اشتراکیوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے افغانگروپوں کی سرپرستی شروع کر دی۔افغانستان کی منتشر تحریک آزادی، جہادِ افغانستان کے پرچم تلے منظم کی گئی اور پھر ہم نے دیکھا کہ1989ء میں دنیا کی عظیم فوج، عظیم ریاست کی عظیم فوج شکست کا بدنما داغ لئے اپنے وطن واپس لوٹ گئی۔اگلے دو سالوں کے اندر عظیم اشتراکی سلطنت پندرہ ٹکڑوں میں تحلیل ہو کر طاقت اور ہیبت کے آسمان سے غائب ہو گئی۔دنیائے مغرب افغانوں کی عظمت اورقوتِ مقاومت سے انگشت بدنداں تھی لیکن انہیں زیادہ فکر پاکستان کی تھی جس کی پشت پناہی میں افغانوں نے یہ حیرت ناک کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ پھر جب پاکستان نے امریکی دباؤ اور درخواست دونوں کو مسترد کرتے ہوئے ایٹی دھماکے کئے تو صہیونی قوتیں تحرک ہو گئیں اور طے پا گیا کہ پاکستان کی فوج اور ایٹمی پروگرام کا خاتمہ کیا جائے گا۔ایٹمی پاکستان کے دانت کھٹے کر دیئے جائیں گے۔عمران خان کی جمائما کے ساتھ شادی کو زعماء قوم ڈاکٹر اسرار احمد اور حکیم محمد سعید اسی عالمی سازش کے تناظر میں دیکھتے تھے انہوں نے قوم کو اسی وقت خبردار کر دیا تھا کہ جب عمران خان ایک شرمیلے سے پلے بوائے تھے، ان کا سیاست سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا۔گولڈ سمتھ گھرانا صرف یہودی نہیں بلکہ روتھ چائلڈ گھرانے کا حصہ ہے یہ وہ گھرانہ جو امریکی نظام زر و سیاست کو آہنی گرفت میں لئے ہوئے ہے جس کی شاخیں یورپ تک پھیلی ہوئی ہیں، روتھ چائلڈ نے ہی خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی برطانوی سازش میں اہم کردار ادا کیا، پھر1916ء میں اعلانِ بالفور کے ذریعے ریاست اسرائیل کے قیام کو اسی خاندان نے یقینی بنایا تھا اور آج بھی تھرڈ ٹمپل کی تعمیر اور مسیح موعود کے استقبال کی تیاریوں اور یہودیوں کے عا لمی غلبے کے لئے یہی خاندان سر دھڑ کی بازیاں لگا رہا ہے۔یہی خاندان، جمائما گولڈ سمتھ، ایٹمی پاکستان کے دانت کھٹے کرنے کے لئے تن من دھن سے مصروفِ عمل ہے۔1996ء میں تحریک انصاف کا قیام اور2011ء میں عمران خان کا بڑے طمطراق سے مینارِ پاکستان میں فقید المثال جلسہ عام کا اہتمام کر کے لانچ کرنا اسی عالمی صہیونی سازش کا حصہ ہے جو کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے۔2011 میں طے کر لیا گیا تھا کہ عمران خان کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا جائے گا، پھر پاکستان کے تمام ادارے، چھوٹے بڑے، اعلیٰ اور ادنیٰ عمران خان کو ”عظیم خان“ بنانے میں لگ گئے۔عمران خان کے خطاب ایسے دکھائے جانے لگے جیسے وہ ترکی کے اتاترک اور فرانس کے ڈیگال ہیں۔عمران خان کی شخصیت کو ابھارا اور نکھارا جانے لگا، انہیں ایک ”عظیم نجات دھندہ“ کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔عمران خان کو سیاست میں کھلا راستہ دینے کے لئے نواز شریف کو سیاست سے حرفِ غلط کی طرح مٹانے کے لئے سزا یافتہ بنا کر دیس نکالا دے دیا گیا،2018ء میں انہیں پاکستان کا اقتدار سونپا گیا۔ انہوں نے اپنے44ماہی دورِ حکمرانی میں پاکستان کی ایسی تیسی پھیر دی۔ریاستی ادارے ہوں یا سرکاری ادارے،انہوں نے شعوری طور پر ان کا بھٹہ بٹھایا۔سفارتی سطح پر پاکستان کو مکمل تنہائی میں پھنسایا گیا۔پاکستانی معیشت کا دیوالیہ نکال دیا، سیاست میں نفرت کو فروغ دیا۔
پھر 9/10اپریل2022ء میں اقتدار سے علیحدگی کے بعد انہوں نے کھل کھلا کر ریاست ِ پاکستان کو ناکام بنانے کی مہم شروع کی۔انہوں نے گزرے27سالوں کے دوران اپنے عقیدت مندوں کی جو تربیت کی تھی وہ اس مہم میں ہر اول کے طور استعمال ہوئی اور پھر ہم نے دیکھا کہ 9مئی کا سانحہ عظیم رونما ہو گیا۔اس سانحے کے بارے میں آئی ایس پی آر نے جو کچھ کہا وہ درست ہی نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔عمران خان تبدیلی کے نعرے اور ریاست مدینہ کے نام پر ایک ایسی نسل تیار کر چکے ہیں جو اپنے طرزِ فکرو عمل میں بالکل منفرد نوعیت کی ہے۔اس نسل /گروہ میں ہر طرح کے، ہر عمر اور ہر طبقے کے مرد و زن موجود ہیں جو عمران خان کو آئیڈئیلائز کرتے ہیں ان کی تقریروں پر سر دھنتے ہیں ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں، ان کی گرفتاری پر تمام حدود و قیود بھی پار کر جاتے ہیں،ان کے نزدیک عمران خان ہی اول ہیں اور وہی آخر۔عالم اسلام میں اس طرح کے گروہ پہلے بھی تخلیق دیئے جاتے رہے ہیں، ماضی قریب میں ابوبکر البغدادی کے گرد داعش کی تخلیق دشمنوں کی ایسی ہی سیاہ کاریوں کا نمونہ ہے جس کا مقصد افتراق و انتشار اور تباہی و بربادی ہوتا ہے اب یہ بات اظہر من الشمس ہو چکی ہے کہ داعش امریکی سی آئی اے کی تخلیق تھی۔خلافتِ عثمانیہ کے انہدام میں ”ینگ ٹرکس“ کا کردار ہماری تاریخ کا حصہ ہے اس کی تخلیق میں فری میسن کا کردار ہمارے سامنے ہے۔پاکستان کی سیاست میں شخصی اور گروہی دشمنیوں کو کس نے فروغ دیا؟آج اگر ہماری قومی سیاست زہر آلود ہے اور سیاست دان باہم دست و گریبان ہیں تو یہ کارنامہ کس نے سرانجام دیا ہے؟ سیاست دانوں کو چور ڈاکو کہنا اور اسی دوران خود بھی ایسے ہی کاموں میں ملوث ہونا، کس کی شخصیت کا کارنامہ ہے؟ سیاست میں تشدد کو فرغ کس نے دیا؟ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ملکی سیاست رسوا ہو چکی ہے۔ افتراق و انتشار ہے تو اس کی ذمہ داری کس کے سر جاتی ہے؟ عمران خان کی سیاست نے ملکی سیاست کو گندہ کر دیا ہے۔ انتشار میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہماری قومی معیشت جان بلب ہے۔ کوئی عالمی ادارہ ہم پر اعتبار کرنے کے لئے آمادہ نظر نہیں آتا تو اس کی ذمہ کس پر ہے؟ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد اِس کی شقوں کے برعکس اقدامات کرکے کس نے قومی اعتبار کو مجروح کیا تھا۔ سعودی عرب،ملائیشیا، چین، ترکی اور ایسے ہی دوست ممالک کو پاکستان سے دور کرنے میں کس کی مساعی شامل تھی۔ آج اگر سپریم کورٹ تقسیم نظر آ رہی ہے اس کی بے توقیری ہو رہی ہے تو یہ کارنامہ بھی عمران خان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ سب سے اہم، ہماری مسلح افواج اگر نشانے پر ہیں تو یہ کس کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ہمارے جرنیل ایسا ہی کچھ پہلے بھی کرتے رہے ہیں جو بقول عمران خان کے، ان کے ساتھ کیا ہے، کیا فوج جنرل ایوب خان سے لے کر، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف تک ایسا ہی نہیں کرتی رہی ہے جیسا جنرل باجوہ نے نواز شریف اور پھر عمران خان کے ساتھ کیا؟ یہ سب کچھ قطعاً درست نہیں تھا اور نہ ہے لیکن عمران خان جو کچھ کر رہے ہیں یہ بالکل بھی ناواجب اور غلط ہے اس سے ملک انتشار کا شکار ہو گیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کا قیام ملک میں افتراق و انتشار کے لئے تھا آج یہ پاکستان تحریک انتشار بن کر سامنے آ چکی ہے۔ اللہ خیر کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex