کالم

نا اہل قیادت اور کفرِ جمہوریت

کائنات کنول

ہمارے معاشرہ کی بے حرمتی، ذلت ورسوائی میں نااہل قیادت کا ایک پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ جس ملک ، جس محکمے ، جس ادارے، انجمن یا تنظیم میں چلے جائیں قیادت نااہل لوگوں کے ہاتھ نظر آئے گی ۔ نا اہل سے مراد صرف ناخواندہ نہیں بلکہ وہ لوگ بھی نااہل ہیں جن کے دلوں میں قوم کا احترام اور اخلاص نہیں اور دینی اصولوں سے محبت و شناخت نہیں رکھتا اوروہ ملک میں راج و نفاذ کرنے میں مسلسل کمر بستہ نہیں۔ بلکہ ایسے لوگ ان پڑھوں سے بھی زیادہ نااہل ہیں ۔ حقیقی عالمی اسلامی فلاحی انقلاب لانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ جمہوریت ، ملوکیت اور آمریت کے کفر پر مبنی فاسد نظام کو نیست و نابود کرکے اس کی جگہ قرآن وسنت کو جلوہ گر کیا جائے۔یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم اس موجودہ فاسد نظام کا حصہ نہ بنیں بلکہ اس سے تصادم مول لیں ، تبھی انقلاب کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں ۔ اس نظام باطل کا حصہ بن کر ہم کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔جمہوریت کے بنیادی مقاصد میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ حکو مت اور مذہب کا باہمی تعلق ختم کر دیا جائے یعنی مذہب کو ریاست اور اس کے قوانین و معاملات میں کسی قسم کے عمل دخل کی اجازت نہ ہو۔ جمہوریت نہ صرف انتہائی فرسودہ بلکہ بیکارو عبث ہے کیونکہ اس میں ووٹنگ کے ذریعہ افراد کو گناجاتاہے ان کو دین و ایمان اور اخلاقیات کی کسوٹی پر رکھ کر تولا اور پرکھا نہیں جاتا ۔ بلکہ چند خود غرض اور بددیانت دولت مندوں، جاگیرداروں، مفاد پرست بااثر طبقے کی رائے ہوتی ہے جس کو وہ اپنی دولت اور اثرورسوخ کے بل بوتے پرعام لوگوں پر ٹھونستے ہیں۔عام طور پر دیکھا گیا کہ شرح ووٹنگ کا تناسب 40فیصد سے بھی کم رہتا ہے ۔ اور باقی 60فیصد لوگ کیا چاہتے ہیں انہوں نے ووٹ کیوں نہیں دیا ؟ یہ کبھی کسی نے سوچنا بھی گوارا نہیں کیا۔حتیٰ کہ 10فیصد شرح کاسٹنگ پر بھی سیٹ کا فیصلہ ہو جاتا ہے جو چند مفاد پرستوں کی کاوش سے عمل میں آتا ہے اور باقی 90 فیصد جائیںبھاڑ میں۔ اگر کوئی عام آدمی ان کی رائے سے ہٹ کے اپنے ضمیر پر فیصلہ کرنا چاہے تو اسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ ہماری رائے کے خلاف چل کے تو جی نہیں سکتا، بااثر طبقہ کی رائے پر ووٹنگ نہ کرنے پر کمزور اقوام کو ہر ممکن طریقہ سے کسی نہ کسی جال میں پھنسا کر انتقام لیا جاتا ہے۔کبھی کوئی کاموں کا لالچ دے کر ووٹ کا پابند کیا جاتاہے ، تو کبھی تھانہ کچہری میں معاونت کا چکر دے کر ، تو کبھی دولت کے بل بوتے پر ان کے ضمیر کو خریدا جاتا۔کیا اس کا نام جمہوریت ہے؟ کیا یہی آزادی رائے ہے؟میرا ایک سوال ہے کہ زرداری کو کس نے صدر بنایا پاکستان کے عوام نے یا ضمیر فروش، مفاد پرست ممبران نے؟ اس جمہوری نظام میں اشرافیہ کے خلاف شکایت، مقدمہ، محاسبہ، پوچھ گچھ کی جرات نہیں کر سکتا۔ حضرت اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ اے بے فکر! تم فکر کہاں سے لینا چاہتا ہے، ان پست ، جاہل اور کمینہ صفت لوگوں سے؟تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ چیونٹیوں میں فطرت سلیمان علیہ السلام نہیں مل سکتی۔کہاں چیونٹی اور کہاں حضرت سلیمان علیہ السلام ، ہم ایک چیونٹی سے سیدناسلیمان علیہ السلام کی سی ذہانت طبع کی توقع نہیں کرسکتے۔ ایک انگریز مورخ ’’ نپولین(Napoleon)‘‘ نے کہا تھا کہ’’ اگرسو کتے اکٹھے کر لیے جائیں اور ان کی قیادت ایک شیر کے ہاتھ دی جائے تو سارے شیر کی طرح لڑیں گے، اس کے برعکس اگر سو شیر اکٹھے کر لیے جائیں اور ان کی قیادت ایک کتے کے ہاتھ دے دی جائے تو سارے کتے کی موت مریں گے۔‘‘آج ہماری قوم کی مثال بعینہ اسی طرح ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex