کالم

قومی ہیروز کو شاندار خراج تحسین

ملک بھرمیں شہدائے افواج پاکستان اوران کے ورثاء کوخراج تحسین پیش کرنے کے لیے’’یوم تکریم شہداء‘‘بڑے قومی جذبے اورولولے کے ساتھ منایاگیا۔اس موقع پرپاک فوج سے اظہار یکجہتی کیلئے ملک کے مختلف حصوں میں ریلیاں نکالی گئی ہیں اورتقریبات منعقدکی گئیں۔ملک کے مختلف اہم مقامات پرواقع شہدائے افواج پاکستان کی یادگاروں اور آخری آرام گاہوں پرپھولوں کی چادریں بھی چڑھائی گئیںاوران کے درجات کی بلندی کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔قوم نے جس شانداراندازمیں اپنے ہیروزکوخراج تحسین پیش کیاہے وہ نہایت قابل رشک ہے۔اس سے ان لوگوں کوسبق حاصل کرناچاہیے جو دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اوران کے عزائم کوتقویت دے رہے ہیں۔بلاشبہ پاکستانی عوام کے دلوں میں شہداء کا عظیم مقام ہمیشہ قائم رہے گا۔عوام مسلح افواج کے تمام شہداء اور ان کے اہل خانہ کو ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں اور مستقل طور پر ان کی عظیم قربانیوں کو انتہائی عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔عوام کانظریہ ہے کہ شہدائے مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں، سرکاری اہلکاروں اور ملک کاقابل فخرسرمایہ ہیں لیکن اس کاکیاکیجیے کہ اب سیاسی حالات اس قدر مخدوش ہوچکے ہیں کہ ان کاایک انتہائی خطرناک مظاہرہ ہم مورخہ 9مئی کودیکھ چکے ہیں۔اس سانحہ سے جڑے تمام واقعات کی چھان بین تو یقینا ًہونی چاہیے اور اس دن کے واقعات میں ملوث افراد کو نشانِ عبرت بھی بنایا جانا چاہیے لیکن سیاسی قیادت کو باہمی مشاورت کے ذریعے جاری سیاسی بحران کے حل کی جانب بھی بڑھنا چاہیے کیونکہ ملکی حالات صرف اسی صورت میں بہتر ہوسکتے ہیں جب سیاسی قائدین اپنے اختلافات کو بھلا کر ملکی اور عوامی مفادات کو مقدم جانتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جائیں۔اس وقت ملک میں جو حالات چل رہے ہیں ان میں سیاسی قیادت کا کردار نہایت غیر دانش مندانہ دکھائی دے رہا ہے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور ملکی معیشت کی بگڑی ہوئی صورتحال ان مسائل کو مزید بڑھا رہی ہے۔اس صورتحال میں سیاسی کشمکش جلتی آگ پر تیل کا کام کررہی ہے۔ملک میں گزشتہ ایک سال سے جو سیاسی انتشار جاری ہے اب اس میں شدت آگئی ہے اور بیانات سے بڑھ کر اب اس نے جلاؤگھیر اؤ اور قتل وغارت کی صورت اختیارکرلی ہے۔بلاشبہ ان تمام سیاسی قوتوں اوراداروں کی کھینچاتانی سے ملک کمزورہورہاہے اوردشمن بھرپور فائدہ اٹھا رہاہے۔اس سارے بحرا ن کاواحدحل صرف اورصرف یہی ہے کہ سیاسی قوتیں اورادارے ایک مذاکرات کی جانب بڑھیں اورگفت وشنیدکے ذریعے سیاسی بحران کاخاتمہ کریں وگرنہ مزید نقصان کااندیشہ ہے۔
جہاں تک قومی ہیروز اور شہیدوں،غازیوں ،مجاہدوں کی بات ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کا وجود انہی شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں کی بدولت قائم ہے جنھوں نے اپنے آج کو ملک کے کل کے قربان کر دیا۔ یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ اسی مہینے میں ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے شر پسند عناصر نے ملک کے مختلف حصوں میں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ شہداء کی یادگار کو مسمار کر کے بالعموم پوری قوم اور بالخصوص شہداء کے کنبوں کو شدید تکلیف پہنچائی۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان کو یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کا وجود اس ملک کی وجہ سے ہی قائم ہے اور یہ ملک شہداء اور غازیوں کی جہدِ مسلسل کے نتیجے میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان دشمن قوتوں نے 9 مئی کے واقعات کو اپنی فتح قرار دیا کیونکہ اس ملک کی پون صدی کو محیط تاریخ کے دوران جو کام ہمارے بدترین دشمن بھی نہیں کرسکے وہ ہمارے اپنے چند بے وقوف لوگوںنے کر دکھایا۔ یومِ تکریمِ شہداء کے موقع پر ہمیں نہ صرف اپنے شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہیے بلکہ یہ عزم بھی دہرانا چاہیے کہ پاکستان کی حفاظت صرف افواجِ پاکستان ہی کی نہیں بلکہ ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے ۔قوم نے جس شاندار انداز سے اپنے ہیروز کی خدمات اور ان کی قربانیوں کو سراہا اس پر پوری قوم خود بھی خراج تحسین کی مستحق ہے ،بے شک زندہ قوموں کی یہی نشانی ہے کہ وہ اپنے ہیروز کوکبھی بھی فراموش نہیں کرتیں اورانہیں ہردور میں سلام محبت اور عقیدت پیش کرتی رہتی ہیں۔
دہشت گردی کے افسوسناک واقعات
جنوبی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران 6 دہشت گرد جہنم واصل ہوگئے ہیں۔ ان دہشت گردوں کے قبضے سے بھاری اسلحہ، گولہ بارود برآمد ہوا۔ مارے جانے والے دہشت گرد عام شہریوں اور سکیورٹی فورسز پر حملوں، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھے۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ مقامی لوگوں نے آپریشن پر اطمینان کا اظہار کیا اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں خودکش دھماکہ ہوا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق گاڑی میں سوار خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑایا۔ دھماکے میں دو فوجی جوان‘ ایک پولیس اہلکار اور ایک شہری شہید ہو گئے۔ شہداء میں نائیک سید ا شاہ‘ سپاہی جواد خان شامل ہیں۔ خود کش بمبار ایک بڑے عوامی اجتماع کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ دھماکے میں پولیس کانسٹیبل جان اور ایک شہری بھی شہید ہوئے ہیں۔
دہشت گردی کے پے در پے واقعات یہ بتارہے ہیں کہ کالعدم شدت پسند تنظیمیں پاکستان میں بد امنی پھیلانے کے لیے ایک بار پھر پوری طرح سرگرمِ عمل ہیں۔اس میں ہرگز شک نہیں ہے کہ ہماری سکیورٹی فورسز نے بہت سی قربانیاں دے کر ان شدت پسند تنظیموں پر قابو پایا تھا اور ان کے ٹھکانے بھی تباہ کردیے تھے لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں کی فوجیں افغانستان کو جس برے حال میں چھوڑ کر گئیں اس سے ان تنظیموں کو پھر سے فعال ہونے کا موقع مل گیاہے۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی تو ہزاروں کلومیٹر دور جا کر بیٹھ گئے لیکن اب پاکستان افغانستان میں پیدا ہونے والی خرابی کی قیمت ادا کررہا ہے۔ اس سے پہلے بھی پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دے کر اپنے ہزاروں افراد شہید کراچکا ہے اور کھربوں روپے کا مالی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے اور پاکستان کو اس کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ کسی نہ کسی طرح امریکا ہی کے پیدا کردہ ہیں۔ انہی مسائل کے باعث ہمیں مزید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔اس میں چنداں شک نہیں ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ہماری سکیورٹی فورسز کارروائیاں کررہی ہیں لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے اور اس سلسلے میں افغان حکومت کو بھی اعتماد میں لیاجائے۔پوری قوم دہشت گردوں کی ان مذموم کارروائیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور اپنے بہادر جوانوں اور افسروں کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہارکرتی ہے۔قوم کایہ عزم ہے کہ دہشت گردی کے اس عفریت کا مکمل خاتمہ کر کے ہی دم لیں گے۔ وہ وقت دور نہیں جب ہمارے بہادر سیکورٹی ادارے اس عفریت کا سرکچل کررکھ دیں گے۔
جی 20 اجلاس اوربھارتی ہزیمت
غیر قانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں گروپ 20کا تین روزہ اجلاس سخت سیکورٹی حصار میں 22 مئی کوشروع تو ہوا تاہم بھارت کوسخت ہزیمت کا سامنا کرناپڑ رہا ہے اور کانفرنس شروعات سے پہلے ہی دم توڑگئی کیونکہ چین، سعودی عرب اور ترکیہ نے کانفرنس کا بائیکاٹ کیا جبکہ مصراور، انڈونیشیا سمیت کئی ممالک کے نمائندے شریک نہیں ہوئے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق جی 20اجلاس کے انعقاد کیلئے سخت سیکورٹی پر بھارتی مبصرین بھی بول اٹھے کہ سیاحت کے فروغ کیلئے ہونے والی کانفرنس میں کمانڈوز کی تعیناتی، سخت سیکورٹی اور حصار سے دنیا کو کیا پیغام گیاہے۔کانفرنس کے انعقاد کیخلاف مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی اورآزاد جموںو کشمیراور یورپ میں مظاہرے کئے گئے۔بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق مسلمان اکثریت والے تینوں ملکوں نے اس اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے وفود کی رجسٹریشن نہیں کرائی۔G-20کے رکن ملکوں میں بھارت، امریکہ، چین، برطانیہ، روس، سعودی عرب، آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، فرانس، اٹلی، جاپان، ارجنٹائن، برازیل، انڈونیشیا،میکسیکو، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا اور ترکیہ سمیت یورپی یونین شامل ہیں۔
مودی سرکار نے کشمیریوں کو جبری ہتھکنڈوںکیخلاف اقوام عالم میں آواز بلند کرنے سے روکنے کیلئے پوری مقبوضہ وادی اپنی دس لاکھ سکیورٹی فورسز کے حوالے کرکے کشمیریوں کو انکے گھروں میں محصور کر دیاہے۔بھارت کا دوغلا پن ملاحظہ کیجیے کہ وہ خود تو پوری دنیامیں مسلمانوں کی شدت پسندی دہشت گردی کا جھوٹا واویلا کرتا ہے لیکن اس نے خود اپنے ہاں اور بالخصوص مقبوضہ وادی کے مسلمانو ںکی زندگی اجیرن بناکررکھ دی ہے۔آخر بھارت کب تک یو این قراردادوں اور عالمی قوانین کو نظرانداز کرے گااور کب تک عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہے گا؟ اور عالمی برادری کب تک اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آتی رہے گی؟اب عالمی اداروں اور قوتوں کو چاہیے کہ وہ بھارتی دہشت گردی کاسخت نوٹس لیتے ہوئے اس کے سدباب کے لیے اقدامات کریں۔ مقبوضہ وادی میں جی ٹونٹی اجلاس کی ناکامی بھارت کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔جن رکن ممالک نے اس کانفرنس کابائیکاٹ کیاان کا یہ عمل لائق تحسین ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex