کالم

شب قدر/لیلۃ القدر

ابرار چشتی

اللہ وحدہٗ لاشریک نے اس کائنات کو تخلیق کیا جس کے اسرار و رموز میں انسان ازل سے سرگرداں ہے ۔آج جس دور میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں۔یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ اور انسان نے کئی نئی دنیاؤں کو دریافت کیا ہے مگر اب بھی اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے عشرعشیر سے بھی آگاہ نہیں۔ قرآن مجید میں سورۃ القدر میں ارشاد ربانی ہے ،ترجمہ: ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل (کرنا شروع) کیا اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے اس میں روح (الامین) اور فرشتے ہر کام کے (انتظام کے) لیے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں یہ (رات) طلوع صبح تک (امان اور) سلامتی ہے” (القدر: 1- 5)
امام زہری ؒ فرماتے ہیں کہ قدر کا معنیٰ مرتبہ کے ہیں،چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے‘ اس لئے اسے ’’لیلۃ القدر‘‘ یعنی "شب قدر” کہا جاتا ہے۔(القرطبی‘ 20: 130)
یہ مبارک رات کیوں عطا ہوئی ؟حضرت ابن عباسؓ سے منقول روایت ہے کہ آپؐ کی بارگاہ اقدس میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا، جس نے ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا تھا۔ تو آپؐنے اس پر تعجب کا اظہار فرمایا اور اپنی امت کے لئے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا کی کہ اے میرے رب میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گے تو اس پر اللہ تعالی نے شب قدر عنایت فرمائی۔(تفسیر الخازن:397:4)
اللہ وحدہ لاشریک نے اپنی مَشِیَّت (مرضی)کے تَحت شَبِ قَدر کوپوشیدہ رکھا ہے۔ لہٰذا ہمیں یقین کےساتھ نہیں معلوم کہ شَبِ قَدر کون سی رات ہوتی ہے۔ فرمانِ مصطفےٰؐہے: ”شَبِِ قَدْر کو رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عَشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔“ (بخاری،ج1ص661 ، حدیث: 2017) اکثرصحابۂ کرام اور جمہور علماءِ کرام کی رائے ہے کہ ہر سال ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ستّائیسویں شَب ہی شَبِِ قَدْرہے۔ سیّدالْقُرَّاء حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک ستّائیسویں شبِ رَمَضان ہی ”شَبِِ قَدْر“ ہے۔ (مسلم،ص383،حدیث: 762 )
سیدالمفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی نظریہ ہے آپ نے اپنے اس نظریہ پر کئی دلائل پیش کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ "تنزل الملٰئکۃ والرّوح فیھا” میں ’’فیھا‘‘ (مراد:شب قدر ) سورۂ قدر کا ستائیسواں کلمہ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے- اور بعض علماء نے ستائیسویں شب میں شب قدر ہونے پر علم حساب سے بھی استدلال کیا ہے وہ اس طرح کہ لیلۃ القدر میں کل نو حروف ہیں اور سورۂ قدر میں لیلۃ القدر کا تذکرہ تین مرتبہ ہوا ہے، اب اگر 9 کو 3 میں ضرب دے دیا جائے تو نتیجہ 27 نکلے گا شب قدر کی عبادتیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ شب3 قدر کا کیا وظیفہ ہونا چاہئے تو آپ ؐنے ان الفاظ کی تلقین فرمائی ،اے اللہ تو معاف کر دینے والا اور معافی کو پسند فرمانے والا ہے پس مجھے بھی معاف کر دے۔ (مسند احمد بن حنبل‘ 6: 171‘ 182)
اس رات کی نیند کو قربان کرکے پوری رات عبادت میں گزاریں – اس رات کے تین حصے کرلئےجائیں (١) پہلے حصے میں نوافل وغیرہ کا اہتمام کیا جائے (٢) دوسری حصے میں تلاوت کی جائے (٣) تیسرے حصے میں توبہ واستغفار کااہتمام ہو یہ طریقہ قرآن سے زیادہ مشابہت رکھتاہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (اے نبیؐ) تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو” ( العنکبوت آیت 45 ) اگر پوری رات مشکل ہوتو کچھ وقت ، ورنہ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھ کر تراویح اور وتر باجماعت پڑھے اور اس کے بعد دو ، چار رکعت پڑھ کر سوجائے، یا سحری میں بیدار ہوکر دو چارر کعات تہجد پڑھ لے اورصبح فجر کی نماز جماعت سے پڑھ لے تو اسے ان شاء اللہ شبِ قدر مل جائے گی۔ اگر اسے مخفی نہ رکھا جاتا تو عمل کی راہ مسدود ہو جاتی اور اسی رات کے عمل پر اکتفا کر لیا جاتا اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کسی انسان کی وہ رات رہ جاتی تو شاید اس کے صدمے کا ازالہ ممکن نہ ہوتا-
مضمون نگار تاریخ ، سیاست اور اسلامک قانون کے طالب علم ہیں۔ اس وقت اومیگا کمپنی میں بحثیت ایڈوائزر منسلک ہیں ۔ تحقیق و تالیف انکا ذوق رہا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex