کالم

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

سلمان احمد قریشی

سیاسی رہنما ہمیشہ جلسہ،جلوس، بیانات اور اعلانات کے ذریعے سیاسی ہلچل میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔الیکشن سے قبل گرما گرمی، نئی صف بندی، اختلافات اور عہد و پیماں سیاست کا حصہ ہیں۔مخالفانہ بیانات اورخوشنما اعلانات ہمارے سیاست دانوں کا مرغوب مشغلہ ہے۔بسااوقات ان اعلانات اور بیانات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔اقتدار میں آکر ملک وقوم کی تقدیر بدل دینیکا اعلان اور عوام الناس کا آنکھوں میں خواب سجائے دیوانہ وار رہنماوں کے پیچھے بھاگنا سیاست میں تکلیف دہ عمل ہے۔ہم جانتے ہیں کہ حکمرانی ملنے کے بعد ہی زمینی حقائق دکھائی دیتے ہیں پھر ترجیحات بدل جاتی ہیں۔وقت گزر جاتا ہے اور پھر انتخابی عمل اور یہی سب کچھ ہوتا رہتاہے۔قابل غور تو یہ ہے کہ عوام یہ سب کچھ بدلنے کے لیے کھڑے کیوں نہیں ہوتے۔۔۔؟کب تک اپنے مستقبل کوخوابوں کی نظر کرتے رہیں گے۔زندہ باد، مردہ باد،بس یہی سیاست ہے اور یہی حاصل۔سیاسی اجارہ داریاں ختم ہوتی ہیں نہ نئے چہرے آگے آتے ہیں۔تبدیلی کا خواب بھی سراب ثابت ہوا۔تبدیلی کے دعویدار ناکام حکومت کے ساتھ بد ترین سیاست کرنے کے بعد جیل میں ہیں۔ہمارے سیاستدانوں کی عمومی روش ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں رہتے ہوئے تو عوام کو بہلائے رکھتے ہیں مگر حکومت سے باہر آتے ہی مفاد عامہ کا خیال ستانے لگتا ہے۔وطن عزیز میں عوام کی اکثریت جمہوریت سے مایوس دکھائی دیتی ہے اس کا سبب ہمارے سیاست دانوں کا طرز عمل ہے۔ جو ٹھوس عملی اقدامات سے گریزاں فقط بلند و بانگ نعروں اور وعدوں پراکتفا کرتے ہیں۔نوجوان طبقے کو نظر انداز کر کے ملک ترقی نہیں کر سکتا۔پی ٹی آئی نے نوجوان طبقہ کو سیاست میں متحرک تو کیا لیکن تعلیم کے ساتھ معقول طرز عمل کا حامل ہونا بھی ضروری ہے۔ بلاول بھٹو نوجوان طبقہ کے فعال اور موثر کردار کے خواہش مند ہیں۔نوجوانوں کا فعال کردار ہی قومی ترقی کا ضامن ہے اور نوجوان نسل ہی صحیح معنوں میں کسی قوم کی افرادی قوت ہے۔بانی پاکستان محمد علی جناحؒ نے نوجوانوں کو قوم کا مستقبل قرار دیاتھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی طلبہ پر انحصار کیا تھا۔معاشرے کی اصلاح کے لئے اس معاشرے کی نئی نسل کی اصلاح کی جائے۔ نوجوان نسل کی تربیت سے معاشرے میں مثبت اثرات مرتب ہونگے اور انہی نوجوانوں میں سے بہت سے ایسے نوجوان بھی ابھر کر سامنے آئیں گے جو مستقبل میں اس معاشرے اور ملک کی رہبری کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔نوجوان وہ طاقت ہیں جو کسی بھی قوم کے عروج کا باعث بنتے ہیں۔بہت ضروری ہے بزرگ سیاستدان نوجوان طبقہ کو آگے آنے کا موقع دیں اورنوجوان بھی دوسروں کی بات سنے۔ بات سماجی تبدیلی کی ہو یا کسی بڑے انقلاب کی نوجوان طبقے کے کردار کو نظر انداز کرنا صریحاً نا انصافی ہے۔اگر ہم پاکستان کو واقعی ایک بہتر ریاست بنانا چاہتے ہیں تو نوجوانوں کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کا مکمل موقع دینا ہی ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex