بچے

بندر میاں

سردی کے دن تھے۔انسان تو انسان جانوروں کو بھی دھوپ اچھی لگ رہی تھی۔بندر میاں قلابازیاں کھا کے دھوپ کے مزے لے رہے تھے۔اچانک انہیں ایک مانوس سی آواز سنائی دی۔آواز کی سمت دیکھ کر وہ چونکے۔درخت پر بی فاختہ بیٹھی ہوئی تھیں۔بندر میاں نے انہیں آداب کیا۔انہوں نے جواب دیتے ہوئے پوچھا۔”ارے بندر میاں تم یہ شہر میں کیا کر رہے ہو․․․؟“
”میں ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس رہ رہاں ہوں اور میں یہاں بہت خوش ہوں۔“
آزادی چھوڑ کر غلامی میں خوش ہو یہ تم نے کیا بات کر دی․․․؟“”آپ بھی شہر میں ہیں اس کا مطلب کہ آپ بھی غلامی میں ہیں۔“بندر میاں نے کہا۔
”شہر میں رہنا غلامی نہیں دراصل تمہارے گلے میں جو زنجیر لگی ہوئی ہے وہ غلامی ہے۔میں تو جنگل سے اپنے عزیزوں سے ملنے شہر آتی ہوں اور اپنی مرضی سے واپس جنگل چلی جاتی ہوں۔میرے گلے میں کوئی زنجیر نہیں اور نہ میں کسی پنجرے میں قید ہوں۔اپنی مرضی کی مالک ہوں جب دل چاہے کہیں بھی آ جا سکتی ہوں۔
یہ کہہ کر فاختہ بی نے بندر میاں سے پوچھا۔”تم کس طرح ڈاکٹر صاحب کے پاس آ کر پھنس گئے؟“
”مجھے ایک شکاری نے جنگل سے پکڑ کر ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔اب میں یہاں بہت خوش ہوں۔بڑے مزے سے رہتا ہوں۔بے فکری سے گھاس پر قلابازیاں کھاتا رہتا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب کی خدمت کرتا ہوں ان کو دوائی تیار کرانے میں مدد کرتا ہوں۔ان کے ساتھ رہ کر میں خود بھی ڈاکٹر بن گیا ہوں۔
کیا شہر کی آب و ہوا جنگل کی آب و ہوا کا مقابلہ کر سکتی ہے․․․؟ہر وقت دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے۔باسی اور گلی سڑی چیزیں کھانے کو ملتی ہیں۔اوپر سے گلے میں زنجیر باندھ دی ہے“ بی فاختہ نے کہا۔
یہ بات آپ کی درست ہے کہ جنگل کی آب و ہوا اور شہر کی آب و ہوا میں بہت فرق ہے۔ڈاکٹر صاحب کے دوا خانے کے باہر درخت اور گھاس نہ ہوتی تو میں بھی یہاں رہ کر بور ہو جاتا اور بھاگنے کی کوشش کرتا۔
آپ سے ملاقات ہو جانے پر مجھے جنگل یاد آ گیا ہے۔ایک دن میں ضرور موقع ملتے ہی جنگل کی طرف فرار ہو جاؤں گا اور پھر کبھی پلٹ کر شہر میں نہیں آؤں گا۔“بندر میاں نے کہا۔
ایک رات ڈاکٹر صاحب نے بندر میاں کی زنجیر کھول کر لکڑی کے بنے ہوئے گھر میں بند تو کر دیا لیکن وہ دروازے کی کنڈی لگانا بھول گئے۔ہوا کے زور دار تھپیڑے لگنے سے دروازہ کھل گیا۔
بندر میاں کو اب وہاں سے فرار ہو کر جنگل جانے کا موقع مل گیا۔جنگل میں آ کر بندر میاں کو بہت سکون ملا۔
ان کی واپسی پر سب جانور خوش تھے اور انہیں مبارکبادیں دے رہے تھے۔وہ بھی اپنوں سے مل کر بہت خوش تھے۔
بندر میاں کو جنگل میں آئے کئی دن گزر گئے لیکن وہ اپنے اندر ایک بے چینی محسوس کر رہے تھے۔وہ جنگل کے جانوروں میں خود کو نمایاں رکھنا چاہتے تھے تاکہ جانوروں کو احساس ہو جائے کہ انہوں نے جنگل سے باہر رہ کر بہت کچھ سیکھا ہے۔
ایک دن بیٹھے بیٹھے بندر میاں کو خیال آیا کیوں نہ وہ جنگل میں ڈاکٹری کا کام شروع کر دے۔اس کام سے وہ جانوروں میں نمایاں ہو جائے گا اور ہر کوئی اس کی عزت کرے گا۔بندر میاں نے یہ خیال آتے ہی اس منصوبے پر عمل شروع کر دیا۔جنگل سے جڑی بوٹیاں جمع کرکے مختلف امراض کی دوائیں بنا ڈالیں اور اپنا دوا خانہ کھول لیا۔بھالو میاں ان کے پہلے مریض تھے انہیں دانتوں کی تکلیف تھی۔
”میں تمہیں دانتوں کی دوا دے رہا ہوں۔یہ ایسی دوائی ہے کہ دانتوں کو پتھر سے توڑنا چاہو گے تو پتھر ٹوٹ جائے گا لیکن دانت نہیں ٹوٹیں سے۔“
”کیا واقعی ایسا ہو جائے گا․․․؟“بھالو نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں ہاں ایسا ہو جائے گا۔“بندر میاں نے انہیں یقین دلایا۔”ایسا ہو جانے پر میں تمہارا منہ شہد سے بھر دوں گا۔
“بھالو میاں نے خوشی سے اپنے پیلے میلے کچیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا۔
بی لومڑی کو چلنے میں ایک پاؤں میں تکلیف ہوتی تھی۔وہ بھی علاج کرانے پہنچ گئیں۔کچھوے کو قبض کی شکایت تھی۔چیل کو دور کا کم نظر آتا تھا۔ہرن کو بھاگنے سے جلدی سانس پھول جاتا تھا۔مینڈک میاں اس قدر بھاری ہو گئے تھے کہ ان سے چلنا دوبھر ہو گیا تھا۔جس جانور کو بندر میاں کے دوا خانے کا علم ہوتا وہ وہاں پہنچ جاتا۔
بندر میاں اپنے دوا خانے میں جانوروں کو آتا دیکھ کر بہت خوش تھے۔ان کا پورا دن جانوروں کو دوائیاں دینے میں گزر جاتا۔
بھالو میاں نے تین خوراک دوائیں کھا کر اپنے دانتوں پر ہاتھ پھیرا تو ایک دانت باہر آگیا،دوبارہ ہاتھ پھیرنے پر آدھا دانت ان کے ہاتھ میں آگیا۔اپنے دانتوں کو گرتا دیکھ کر بھالو میاں اس خوف سے کہ کہیں سارے دانت باہر نہ آجائیں سختی سے منہ بند کر لیا۔
بی لومڑی صبح سو کر اُٹھی اور خوراک کی تلاش میں نکلنا چاہا تو ان کی وہ ٹانگ جس میں تکلیف تھی وہ پوری طاقت لگانے پر نہ اُٹھ سکی۔کچھوے میاں دوائی کھا کر پوری رات پریشان رہے۔صبح اُٹھنے پر چیل نے آنکھ کھول کر دیکھنا چاہا تو اس کی آنکھ میں اندھیرے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا جبکہ دوسری آنکھ سے بھی دھندلا نظر آ رہا تھا۔بی ہرن دوائی کھا کر ایسی سوئیں کہ صبح اُٹھانے پر بھی نہ اُٹھ سکیں۔
بندر میاں اپنے دوا خانے میں بیٹھے مریضوں کا انتظار کر رہے تھے۔انہوں نے بہت سارے جانوروں کو دوا خانے کی جانب آتا دیکھا تو سمجھ گئے کہ ان کی دوائیوں نے اُلٹا کام دکھایا ہے جبھی وہ غصے میں بھرے ان کے پاس آ رہے ہیں۔
بندر میاں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً دوڑ لگا دی۔غصے میں بھرے جانوروں نے دوا خانے کو خالی پایا تو ان کا غصہ اور بھڑک اُٹھا۔
دور کھڑے بندر میاں تھر تھر کانپ رہے تھے اور اس دن کو بری طرح کوس رہے تھے جس دن انہوں نے ڈاکٹر بننے کا سوچا تھا۔
تمام جانور سخت غصے میں تھے اور بندر میاں کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔بندر میاں کو جانوروں کی تکلیف کا بہت افسوس تھا ساتھ ہی ساتھ وہ دل میں یہ بھی کہہ رہے تھے کہ جس کا کام اُسی کو ساجھے اور اب ان کے قدم شہر کی جانب دوبارہ اُٹھ رہے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex