کالم

اپریل اور تین انقلابی واقعات

جمیل مرغز

احسن اقبال نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’ہم کیوبا یا شمالی کوریا نہیں بننا چاہتے اور ہم ملائیشیاء اور ترکی کی طرح ترقی کرنا چاہتے ہیں‘ میںکیوبا کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں‘ کیوبا کے پاس کوئی تیل و گیس نہیں ہے لیکن اسے فیدل کاسترو کی صورت میں ایک عظیم قیادت ملی‘جس نے انتہائی غربت میں کیوبا کو اپنے پاؤں پر کھڑے رکھا۔
امریکا سے 90کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہونے کے باوجود کیوبا نے ترقی کی اورامریکا کا مقابلہ بھی کیا ‘ کیوبا میں صحت اور تعلیم کا نظام دنیا کے لیے مثال ہے‘ہر شہری کو مفت تعلیم ‘مفت صحت اور روزگار کی سہولت حاصل ہے‘ پاکستان میں ایسا نظام رائج ہوجائے تو اور ہمیں کیا چاہیے؟ اسی انقلابی نظام کی مخالفت میں پوری سرمایہ دار دنیا متحد ہے کیونکہ وہ محنت کشوں کی حکومت نہیں چاہتے۔
اپریل کے مہینے کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ اس مہینے کے آخری عشرے میں تین ایسے واقعات رونما ہوئے‘ جنھوں نے تاریخ کا رخ تبدیل کردیا‘ ان تینوں واقعات کا تعلق محنت کش اور غریب طبقوں کی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف جنگ سے ہے۔
عظیم انقلابی رہنما اور سوویت انقلاب کے بانی اور قائد ولاد ی میر ایلچ لینن کا یوم پیدائش 22اپریل (1870)‘افغانستان کا ثور انقلاب 27 اپریل (1978) اور محنت کشوں کا عالمی دن یوم مئی(1886) تینوں انقلابی واقعات ایک ہی نظریے اور جنگ کا حصہ ہیں۔
یکم مئی 1886کو شکاگو کے ”Hay market”چوک سے شروع ہونی والی تحریک دنیا میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے ‘محنت کشوں اور غریبوں کا تبدیلی کا جذبہ اور سرمایہ دار‘جاگیردار اور سامراجی قوتوں کا ان کو محکوم رکھنے اور ان کی محنت کا استحصال کرنے کا عمل آ ج تک جاری ہے‘ یکم مئی کے جذبے سے حاصل کردہ شعور کی بنا پر افغان ثور انقلاب کو بھی یاد کرتے ہیں جو 27 اپریل 1978کو برپا ہوا۔
یکم مئی 1979کو ثور انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقع پر کابل میں تقریر کرتے ہوئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے رہنماء اور افغان انقلاب کے سربراہ نور محمد ترکئی نے کہا تھا ’’ثور انقلاب صرف افغانستان نہیں بلکہ پوری دنیا کے محنت کشوں اور محکوموں کا انقلاب ہے‘ پی ڈی پی اے کی قیادت میں انقلابی فوج کی مدد سے برپا ہونے والا یہ انقلاب پوری دنیا کے محنت کشوں کی عظیم کامیابی ہے ‘اس نے1917کے اکتوبر انقلاب سے رہنمائی اور شکتی حاصل کی ہے اور ایک بار پھر پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دے گا ‘‘۔
افغان انقلاب نے واقعی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا‘ سامراج نے اپنے استحصالی نظام کو بچانے کے لیے جو لشکر اس انقلاب اور انقلابی قیادت کو ختم کرنے لیے تیار کیا تھا ‘وہ آج تک اس کے گلے میں پھنسا ہواہے۔طالبان کا ذکر چھوڑیں لیکن حامد کرزئی اور اشرف غنی کے جمہوری دور میں بھی افغانستان کا کوئی بھی چینل لگاتے ‘میروس نیکہ اور احمد شاہ بابا سے لے کر حامد کرزئی اور اشرف غنی تک تمام حکمرانوں کا ذکر ہوگا لیکن نور محمد ترکئی‘حفیظ اللہ امین ‘ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب کا نام موجود نہیں ہے‘ افغانستان کے سامراجی حکمران طبقے27اپریل 1978سے لے کر 12اپریل 1992کو ڈاکٹر نجیب کے استعفا تک کے 14سالوں کو تاریخ کے صفحات سے کیسے کھرچ سکتے ہیں؟
ثور انقلاب ایک تاریخی واقعہ ہے اور تاریخ کو مٹایا نہیں جا سکتا۔اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں سب سے ریڈیکل سماجی‘معاشی اور ثقافتی اصلاحات کا آغاز ’’ثور انقلاب ‘‘کے بعد افغانستان میں ہوا تھا‘ان جرات مندانہ اقدامات کا مقصد صدیوں سے مقامی اشرافیہ کے استحصال‘ پسماندگی‘غربت اور مختلف سامراجی قوتوں کی اقتصادی زنجیروں میں جکڑے افغان عوام کو آزاد کروا کے ایک جدید اور حقیقی معنوں میں انسانی سماج کی تعمیر کا آغاز کرنا تھا۔
سامراجی طبقے کے تاریخ دان اور دانشور دانستہ طور پر ثور انقلاب کو سوویت یونین کی فوج کشی کے ساتھ گڈ مڈ کردیتے ہیں‘اس حقیقت کو چھپایا جاتا ہے کہ ثور انقلاب 27اپریل 1978کو برپا ہوا اورسوویت فوجیں ثور انقلاب کے 18ماہ بعد29 دسمبر 1979کو افغانستان میں داخل ہوئی تھیں ‘ انقلابی حکومت کے پہلے دو سربراہان نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کے دور میں سوویت یونین سے دوستانہ تعلقات مضبوط ضرور ہوئے لیکن مداخلت کا واقعہ نہیں ہوا ‘اس دوران افغان انقلاب کے خلاف اندرونی اور بیرونی سازشیں شروع ہوگئی تھیں۔
افغان انقلاب مقامی فوج میں قائم پارٹی کے ساتھیوں نے برپا کیا تھا اور اس کی فوری وجہ استاد امیر اکبر خیبر کا سردار داؤد حکومت کے ہاتھوں قتل اور دوسرے رہنماؤں کی گرفتاری بنی ‘ سردار داؤد کی حکومت بھی سرمایہ داری نظام کی کٹھ پتلی تھی۔ انقلابی پارٹی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA) کئی طرح کی نظریاتی ‘تنظیمی اور سیاسی کمزوریوں کا شکار ہو گئی تھی‘ لیکن سرمایہ دار دنیا کے لیے اصل خطرے کی بات وہ اقدامات تھے ‘جو افغانستان کی انقلابی حکومت نے عوام کی بہتری کے لیے کیے۔
ملٹری انقلابی کونسل کی جانب سے نافذ کیے گئے انقلابی قوانین ثور انقلاب کی حقیقی روح اوراساس کو واضح کرتے ہیں‘انقلابی حکمنامے کے ذریعے مندرجہ ذیل اقدامات کیے گئے۔غریب کسانوں کے ذمے سود خوروں اور جاگیرداروں کا تمام واجب الادا قرضہ سود سمیت منسوخ کردیا گیا ۔ قانون کی نظر میںخواتین اور مردوں کی برابری کو یقینی بنانے کی بات کی گئی تھی ‘پیسے کے بدلے لڑکیوں کی شادی ‘زبردستی کی شادی اور بیوہ کی دوبارہ شادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی قبائلی رسم و رواج کو جرم قرار دیا گیا‘ بچپن کی شادیوں پر پابندی لگادی گئی۔
جاگیرداروں اور شاہی خاندان کی تمام تر زمین کو بغیر کسی معاوضے کی ریاستی ملکیت میں لیتے ہوئے غریب اور بے زمین کسانوں میں تقسیم کردیا گیا۔افغان انقلابی حکومت نے ان تمام اقدامات کا آغاز سوویت فوجوں کی آمدسے قبل کیا تھا ‘ثور انقلاب نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ سابق نوآبادیاتی ممالک کا ناتواں اور پیداواری صلاحیت سے عاری سرمایہ دار، قبائلی سردار، جاگیردار اور ان کا ہم نوا مذہبی طبقہ اس قابل نہیں ہے کہ انتہائی بنیادی فرائض بھی ادا کرسکے۔
ثور انقلاب کے انقلابی اقدامات پورے خطے میں جاگیرداری‘سرمایہ داری اور سامراجی مفادات کے لیے خطرہ تھے‘ واشنگٹن ‘لندن‘ریاض اور اسلام آباد تک طاقت کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں‘ واضح امکانات موجود تھے کہ افغانستان میں انقلاب کے حاصلات سے متاثر ہوکر پورے خطے کے عوام سامراج اور اس کے استحصالی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں‘چنانچہ نو مولود انقلاب کو کچل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

’’کمیونسٹ کافروں کے خلاف سامراجی جہاد‘‘کی پالیسی ترتیب دی گئی ‘امریکی سی آئی اے نے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے خفیہ ’’آپریشن سائیکلون‘‘کا روسی فوجوں کی آمد سے چھ ماہ قبل آغاز کردیا تھا ‘پٹرو ڈالر (PetroDollar) کے ایندھن سے بنیاد پرستی ‘فرقہ واریت‘جرائم ‘اور دہشت گردی کی وہ آگ بھڑکائی گئی جس میں پورا خطہ آج بھی جل رہا ہے۔

جہادی ضروریات پوری کرنے کے لیے منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ کا وسیع نیٹ ورک تشکیل دیا گیا ‘یہاں ہیروئن بنانے کی تکنیک سب سے پہلے سی آئی اے نے متعارف کرائی ‘منشیات اور جرائم کے کالے دھن کا دودھ پی کر وہ گینگ جوان ہوئے جو آج افغانستان پر قابض ہیں اور پاکستان کی ریاست کی بنیادوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

انقلاب کی ناکامی سماج کو پسماندگی کی گہری کھائیوں میں دھکیل دیتی ہے ‘افغانستان میںیہی ہواسامراج کی رد انقلاب جنگ نے ان45 برسوں میں افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام کو بھی برباد کرکے رکھ دیا ‘جس کے نتائج آج بھی ہم بھگت رہے ہیں۔

یہ سمجھنا غلطی ہوگا کہ انقلاب کا خاتمہ ہوگیا‘ جب تک دنیا میں طبقات موجود ہیں‘ سوشلزم ‘یوم مئی اور ثور انقلاب کا جذبہ زندہ رہے گا ‘افغان انقلاب کو امریکی ڈالروں کی مدد سے ختم کرنے کے لیے جو جھتے تیار کیے گئے تھے ‘وہ آج پاکستان کی ریاست کو چمٹ گئے ہیں‘جس کی پیشنگوئی ڈاکٹر نجیب نے کی تھی۔

ڈاکٹر صاحب کے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔کہ ’’جو آگ آج افغانستان میں بھڑکائی گئی ہے ‘یہ آگ کل ہمسایوں کو بھی جلاکر بھسم کردے گی‘‘۔آ ج پاکستان کے حکمران طبقے دہشت گردی کے خلاف منصوبے بنا رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کی وجوہات اور ڈالر جہاد کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex