پاکستانسیاست

چیف جسٹس کے سوموٹو اختیارات میں کمی کا بل کابینہ سے منظور، قومی اسمبلی میں پیش

ازخود نوٹس کا فیصلہ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین جج کرینگے، فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہوگا ، 14 روز کے اندر درخواست کو سماعت کیلئے مقرر کرنا ہوگا:بل کا متن آئین کا مذاق اڑایا جا رہا ، مقننہ، عدلیہ کے اختیارات کی دھجیاں بکھیر رہی، ایک لاڈلہ کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوتا،عمران خان پہلے قوم سے معافی مانگے تب مذاکرات کرینگے :شہباز شریف

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر ،نیوز ایجنسیاں ) قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات کیلیے قانون سازی کا بل پیش کردیا گیا جس کے تحت کسی بھی از خود نوٹس کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز کریں گے۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی اصلاحات سے متعلق (سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023) وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔ اسپیکر نے ارکین اسمبلی کی درخواست پر بل پر مزید غور کیلئے قائمہ کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے قانون سازی کیلئے کل ہی کمیٹی رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کی ہدایت کردی، قومی اسمبلی اجلاس کل صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین جج از خود نوٹس کا فیصلہ کریں گے، از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہوگا اور اپیل دائر ہونے کے چودہ روز کے اندر درخواست کو سماعت کیلئے مقرر کرنا ہوگا۔وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے بل سے متعلق ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز آئین اور قانون کے تابع ہیں، عدالتی تاریخ دیکھیں تو 184/3 پر بہت زیا دہ تنقید رہی ہے، سب سے زیادہ بار باڈیز کی طرف سے 184/3 پر تنقید کی جاتی رہی ہے، وہ دور بھی دیکھا جب معمولی معمولی باتوں پر سوموٹو نوٹس لیے گئے، اپیل کا حق مجوزہ بل میں دینا ضروری سمجھا گیا ہے۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ گزشتہ روز ججز کے موقف نے تشویش کی لہر پیدا کردی، اندیشہ پیدا ہوا کہ فرد واحد کے اختیار سے اعلیٰ عدلیہ کو نقصان نہ پہنچے، بل کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 میں کہا گیا ہے عدالت عظمیٰ کے سامنے ہر معاملے یا اپیل کو ایک بینچ سنے گا جسے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا جائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے بل میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا، اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے بڑے بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا، بل میں قانون کے دیگر پہلووٴں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔مجوزہ بل کے تحت ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔بل میں کہا گیا ہے کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے بروز بدھ 29 مارچ کو اراکین کا اجلاس طلب کرلیا، جس میں عدالتی اصلاحات ترمیمی بل کی منظوری دی جائے گی، اجلاس کی صدارت چیئرمین کمیٹی محمود بشیر ورک کریں گے۔قبل ازیں حکومت نے چیف جسٹس کے 184/3 کے تحت ازخود نوٹس کے اختیار پر قانون سازی اورسوموٹو ایکشن کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس دس اپریل کو طلب رکھا ہے وہاں یہ بل منظوری کیلیے پیش کیا جائے گا۔اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آج آئین کا سنگین مذاق اڑایا جا رہا ہے، مقننہ، عدلیہ کے اختیارات کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، ایک لاڈلہ کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوتا۔قومی اسمبلی سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ 2023ء میں 1973ء کے آئین کو بنے ہوئے 50 سال گزر گئے ہیں، آئین کے 50 سال مکمل ہونے پر پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ اس آئین نے ہماری مذہبی روایت کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے، 1973ء کے آئین پر شہید ذوالفقار علی بھٹو اور سیاسی رہنماؤں کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں، ذاتی پسند اور ناپسند ایک طرف رکھ کر آئین بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ جب ہم اپوزیشن میں تھے تو ہمارے خلاف بددیانتی سے جھوٹے مقدمات بنائے گئے، ایک قوم کی بیٹی کو چاند رات کو گرفتار کیا گیا کسی نے نوٹس نہیں لیا، آج ایک لاڈلہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر تکبر کے ساتھ بات کرتا ہے، قانون اور آئین کو اس نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے، یہ وہی لاڈلہ ہے جس نے پارلیمنٹ پر دھاوا بولا تھا، اس کے حواریوں نے سپریم کورٹ کے باہر گندے کپڑے لٹکائے تھے مگر اس کے باوجود تنخواہ جیب میں ڈالتا رہا۔وزیراعظم نے کہا کہ ایک لاڈلہ کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوتا، چاہے کتنے بھی نوٹس ملتے ہیں اسے آناً فاناً رات کے اندھیرے میں مختلف عدالتوں میں ایکسٹینشن ملتی ہے، وہ عدلیہ کا مذاق اڑاتا ہے، ایک سٹنگ خاتون جج کے بارے میں اس نے کیا کہا، کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ان کا کہنا تھا کہ جب ہم اپوزیشن میں تھے کس طریقے کے ساتھ اپوزیشن کے زعما اور ان کے خاندان کے لوگوں کے ساتھ سلوک کیا گیا، کس بددیانتی سے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بناکر جیلوں میں بھجوایا گیا، کسی نے نوٹس نہیں لیا، قوم کی بیٹی کو باپ کے سامنے گرفتار کیا گیا تو کسی نے نوٹس نہیں لیا۔شہباز شریف نے کہا کہ اس لاڈلے کی حکومت کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا گیا اس کو تار تار میں نے نہیں کیا، میری حکومت نے وعدہ خلافی نہیں کی، عمران نیازی نے معاہدہ کیا اور آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کی، پاکستان کو ڈیفالٹ نہج پر پہنچا دیا، بڑی مشکل سے اس مخلوط حکومت نے شبانہ روز کوشش کرکے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا۔انہوں نے کہا کہ آج بھی ہم آئی ایم ایف کے ساتھ انگیج ہیں لیکن جو وعدوں کی خلاف ورزیاں ہوئیں جس طرح ہم نے ملکی وقار کو مجروح کیا آج آئی ایم ایف قدم قدم پر ہم سے گارنٹیز لیتا ہے جو ہم دے رہے ہیں، وزیر خزانہ نے تمام شرائط مکمل کردی ہیں، اب کہا جا رہا ہے کہ دوست ممالک سے کمٹمنٹ کو پورا کیا جائے، وہ بھی ہم کر رہے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ آج قوم میں تقسیم در تقسیم ہے مگر اس لاڈلے کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، لاڈلے کو پاکستان سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دی جائے گی، قانون اپنا راستہ لے گا، کبھی کسی نے یہ منظر دیکھا کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار اپنی قانونی ذمہ داری ادا کرنے کیلئے جائیں تو ان پر پٹرول بم پھینک دیے جائیں، گاڑیوں کو آگ لگادی جائے۔صدر مسلم لیگ ن کا مزید کہنا تھا کہ 29 نومبر کو پاکستان کے نئے سپہ سالار کا چناؤ ہوا، بلا خوف اس بات کی تردید کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پوری مشاورت، کابینہ اور اس سے ہٹ کر پوری مشاورت کے ساتھ میرٹ پر یہ فیصلہ کیا، مجھے جو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کابینہ سے مشاورت کرتا ہوں، باقی اداروں کو بھی کابینہ میں جاکر فیصلے کرنے چاہئیں، یہ کام ہم کر رہے ہیں تو باقی کیوں نہیں کرسکتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex