اداریہتازہ ترین

مذاکرات کے اگلے مرحلے کی نوید

گو کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں مذاکرات جاری ہیں تاہم ابھی تک انتخابات کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہو سکا جس کیلئے حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ دونوں فریقین خلوص سے چلیںگے تو مذاکرات کا اگلا مرحلہ بھی طے ہو جائے گا جو مذاکرات کی کامیابی کی نوید بن سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کے رکن مخدوم شاہ محمود قریشی کے بقول پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ کی مثبت سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے مذاکراتی ٹیم تشکیل دی اور مذاکرات کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے مذاکرات کے تیسرے رائونڈ کے اختتام پر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ مذاکراتی عمل کسی تاخیری حربے کے طورپر استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اگر مذاکرات کے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہو سکے تو ہم سپریم کورٹ کو آگاہ کردیں گے کہ مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ان کے بقول ہم نگران حکومتوں کے تحت ایک ہی دن انتخابات پر متفق ہیں جبکہ مذاکرات میں اسمبلیوں کی تحلیل پر ابھی تک اتفاق نہیں ہو سکا۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن سید یوسف رضا گیلانی کے بقول مذاکرات میں اس امر پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ انتخابات میں جو بھی کامیاب ہو‘ انتخابات کے نتائج بہر صورت تسلیم اور قبول کئے جائیں گے۔ حکمران اتحادیوں اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات شروع ہوئے اور عدالت عظمیٰ کے متعلقہ تین رکنی بنچ نے بھی ان مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھنے کے انتظار میں کیس کی سماعت 8 مئی تک ملتوی کردی۔ زمینی حقائق کی روشنی میں تو اب 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں جس سے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو دوبارہ آگاہ بھی کر دیاگیا ہے۔ چنانچہ جب 90 دن کے اندر تحلیل شدہ اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد عملاً ممکن نہیں تو ان حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے تمام متعلقہ فریقین کو اپنی اپنی انائوں کی قربانی دیکر ملک و قوم کے بہترین مفاد کی خاطر ایک ہی دن عام انتخابات کی کسی ایک تاریخ پر اتفاق رائے کر لینا چاہئے۔ اس حوالے سے نگران حکومتوں کی تشکیل کیلئے بھی سارے معاملات اتفاق رائے سے طے کر لئے جائیں تو ملک میں جاری سیاسی انتشار و خلفشار پر قابو پایا جا سکتا ہے اور جمہوریت کی گاڑی کو ٹریک پر رواں دواں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ صورتحال ادارہ جاتی ہم آہنگی کی متقاضی ہے جس کیلئے فضا ایک دوسرے کے خلاف بلیم گیم کا سلسلہ ختم کرکے ہی ہموارکی جا سکتی ہے۔ قوم اپنی سیاسی قیادتوں کی جانب سے معاملہ فہمی کیلئے سجائی گئی مذاکرات کی میز پر اتفاق رائے اور سلجھائو کی روشنی دیکھنے کی منتظر ہے۔ اگر اس معاملہ میں قوم کو خدانخواستہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تو پھر یقینا کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے بقول معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے جوکسی مدبر قوم کا شیوہ ہرگز نہیں۔بے شک آئین میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی پانچ سال کی آئینی مدت متعین ہے جس کی تکمیل کے بعد نئے انتخابات کیلئے وفاقی اور صوبائی سطح پر نگران حکومتیں تشکیل پاتی ہیں جو آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کیلئے الیکشن کمشن کی معاونت کرتی اور اسے مطلوبہ سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ آئین کے تحت اسمبلیاں قبل از وقت بھی تحلیل کی جا سکتی ہیں جس کیلئے قومی اسمبلی کے معاملہ میں وزیراعظم صدرمملکت کو اور وزرائے علیٰ‘ گورنروں کو ایڈوائس بھجواتے ہیں۔ اگر صدر یا گورنر مقررہ آئینی میعاد کے اندر اسمبلی تحلیل نہ کریں تو یہ میعاد ختم ہونے کے بعد متعلقہ اسمبلی ازخود تحلیل ہو جاتی ہے جبکہ اسمبلی کی تحلیل سے متاثرہ کوئی فریق اس کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے بھی رجوع کر سکتا ہے۔ اس معاملہ میں بنیادی نکتہ تو یہی ہوتا ہے کہ آیا اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس نیک نیتی پر دی گئی یا اس کے پس پردہ سیاسی مقاصد تھے۔ چنانچہ متعلقہ عدالت ایڈوائس کیلئے نیک نیتی ثابت نہ ہونے کی صورت میں تحلیل شدہ اسمبلی بحال کر سکتی ہے جیسا کہ 1993ء کے نوازشریف کے کیس میں ہوا تھا۔ملک میں جاری موجودہ سیاسی کشیدگی اور انتشار و خلفشار کا آغاز رواں سال کے آغاز میں اسی تناظر میں ہوا تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے قبل از وقت انتخابات کرانے کی اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیاں ان کی آئینی میعاد پوری ہونے سے پہلے تحلیل کرا دیں۔ اس معاملہ میں بھی سیاسی درجہ حرارت اس بنیاد پر تیز ہوا کہ گورنر پنجاب نے اسمبلی کی تحلیل کیلئے وزیراعلیٰ پروزالٰہی کی بھجوائی ایڈوائس پر عملدرآمد سے معذرت کر لی۔ چنانچہ یہ اسمبلی از خود تحلیل ہوئی جبکہ خیبر پی کے کی اسمبلی کی تحلیل گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ کے پی کے کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے باعث عمل میں آئی۔ آئینی تقاضے کے تحت قبل از وقت تحلیل کی گئی اسمبلی کے انتخابات 90 روز کے اندر اندر عمل میں آتے ہیںاور یہ انتخاب نگران حکومت کے ماتحت ہوتا ہے۔بہر حال حالات جیسے بھی ہوں اور سیاسی بحران کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو اس کا حل صرف اور صرف مذاکرات ہیں ۔ مذاکرات کا پہلا مرحلہ تو کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہا تاہم اب اسحاق ڈار کا یہ کہنا کہ’’ دونوں فریقین خلوص سے چلیںگے تو مذاکرات کا اگلا مرحلہ بھی طے ہو جائے گا ‘‘۔ہماری دعا ہے کہ یہ اگلہ مرحلہ کسی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچ سکے اور قوم کے لیے امید کی کرن ثابت ہو ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex