پاکستانتازہ ترینکالم

حیات و خدمات سیمینار

محمد ابشام

یہ قدرے پھولا ہوادن تھا دھوپ ہلکی سی تمازت کے ساتھ چمک رہی تھی۔ بہار کی آ مد نے فضا کو رنگین کر دیا تھا موسم خوشگوار تھا سنبل کے پیڑ پر پھول شگوفوں سے جھانک رہے تھی کو نپلیں درختوں کی چھال کا سینہ چاک کر کے حسین وادیوںمیں گھور رہی تھیں سیالکوٹ موٹر وے کے پہلومیں ہرے بھرے کھیت دل موہ رہی تھے جفا کش کسا ن اپنی دھن میںمگن ہری بھری فصلوں کی سیج پر اپنے کام کاج میں مصروف تھے اس روز سیالکوٹ میترانوالی کے ایک جامعہ مدرسہ میں مولا نا یوسف رشید ی کی یاد میں حیات خدمات سیمینار منقعدکیا گیا جس میں ملکی سطح کہ جید علماء کرام اور سیاسی قائدین نے شرکت کی میںبھی خصوصا اس پروگرام میں مدعو تھا وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے مذہبی امور شبیر احمد عثمانی بھی بطوری مہمان خصوصی اس پروگرام میںشرکت کے لیے آرہے تھے میری ان سے فون پر اس حوالے سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ میں ضرور حاضری دونگا چنانچہ مقررہ دن کو میں اپنے ایک عزیزمولاناآصف ہارون ایڈوکیٹ کے ہمراہ اس پروگرام کے لیے نکل پڑا سیالکوٹ موٹر وے پر سفر کرنے کے دوران اچانک گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا اس پر مجھے بچھتاوے کا احساس ہوا کیونکہ متبادل ٹائر کو تبدیل کرنے والے آلات میںگھر بھول آیا تھا چنانچہ شب انتظار کی کشمکش پوچھ رہی تھی کہ اب سحر کب ہوگی گاڑیوں کا جم غفیرپاس سے گزر رہا تھا مگر کسے فرصت تھی کہ انسانیت کا بھرم نبھاتا مگر ہم انسانوں کو جہاں پر کسی کا مان اور بھرم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں ضرور ہم کسی کے ارمانوں کو روند ڈالتے ہیں مرزا غالب کا وہ شعر باربار ذہن کے افق پر لہر ا رہا تھا۔
ابن مریم ہواکرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
کتنی ہی ّدیر کھڑا میں انسانوں کی بے حسی کا تماشہ دیکھتا رہا اسی اثناء میں موٹروے کے عقب میں موجودڈیرے کی جانب سے ایک جوان لڑکا اپنی جانب لپکتاہوا دکھائی دیا جس کے ساتھ ایک بچہ تھا اور اس نے ٹرے میں ایک بوتل اور دو گلاس رکھے ہوئے تھے وہ بوتل لے کرہمارے پا س موٹروے پر پہنچ گیا پچھلے دو تین برسوں سے میں بوتل کو منہ نہیں لگاتا مگر ان لوگوں کی اس قدر محبت اور خلوص دیکھ کر میں اس لڑکے کے ہاتھ سے بوتل کے دو گلاس پی گیا کچھ ہی دیر بعد ہمارے قریب موٹروے پولیس کی گاڑی آکر رکی اور ایک پولیس آفسیر گویا ہوا سر آپ کو اگر کوئی مسئلہ ہے تو ہمیں بتائیں میرے بتانے پر اس موبائل ورکشاپ کو فون کیا تقریبا َآدھے گھنٹے کے بعد موبائل ورکشاپ آگئی ۔جب تک انھوں نے ہماری گاڑی کا ٹائر تبدیل نہیں کیا تب تک دو تین پولیس والے ہمارے اردگرد موجود رہے وہ ہمارے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے رہے حکومت کی طرف سے یقینی طور پر ایسے اداروں کو سراہا جائے جو انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہیں موٹروے پولیس کا خدمت خلق کا جذبہ قابل تحسین ہے وہاں سے ہم سیدھا متیرانوالی میں منعقدہ حیات وخدمات سیمینار میں پہنچے تقریب کے انتظامات قابل تعریف تھے سیاسی صحافتی اور سماجی پروگراموں میں آنا جانالگارہتا ہے مگر یہ خالصتاََ مذہبی پروگرام تھا جس میں جیدعلماکرام کی کثیر تعداد موجود تھی اور سیاسی قائدین کا جمگھٹا لگا ہوا تھا طرح طرح کے کھانوں سے مہمان نوازی کی جارہی تھی پچپن کے دنوں میں اپنے گائوں پٹھانکے میں منعقد دینی اجتماعات دیکھے تھے جس میںچاولو ں کا اہتمام ہوتا تھا اور ہم بار بار جلسے سے اٹھ کر چاولوں کی دیگیں گن کر آتے تھے اور چاولوں کی سوندھی سوندھی مہک سے خوب حظ اٹھاتے تھے بطور مہمان خصوصی آئے مولوی صاحب کی تقریر لمبی ہو جانے پر من ہی من میںاسے خوب مغلظات بکتے تھے مگر آج کا یہ دینی اجتماع قدرے نرالا تھا کیونکہ مہمانوں کوکئی طرح کے لذیذ کھانے پر وسے جارہے تھے اور مختلف طبقا ت سے تعلق رکھنے والی شخصیا ت جلوہ افروز تھیں وزیراعظیم شہباز شریف کے مشیر شبیر احمدعثمانی بھی بطور مہمان خصوصی تشریف فرماتھے شبیر احمدعثمانی سے گرچہ چند ایک ملاقاتیں ہوئی ہیں مگر جب بھی ملا ہو ںمجھے کسی اعلیٰ پائے کے سیاست دان سے ملاقات کا گمان نہیں گزرابظاہر وہ سادہ اور شفیق انسان ہیں مگر مزاج کے بھی سادہ ہیں وہ سیاست کے ساتھ انسانیت کے بھی رمز شناس ہیں وہ ہر خاص وعام سے بلا تفر یق ملتے ہیں میری دوسر ی ملاقات مسلم لیگ ن کے ہر دلعزیز ایم پی اے اختر حسین بادشاہ سے ہو ئی ا ختر حسین بادشاہ محض نام کے بادشاہ نہیں بلکہ دل کے بھی شہنشاہ ہیں وہ سیاست کے بے تاج بادشاہ بن گئے۔ میری جب بھی ان سے ملاقات ہوئی وہ اس قد رشفقت و محبت سے پیش آئے کہ ان کی محبت دل میںگھر کر گئی اس پر وقار تقریب کو مولانا یوسف رشید ی کے سعادت مندفرزند مولانا طارق جمیل نے بخوبی منظم کیا تھا مبلغ اسلام مولانا یوسف رشیدی کمال او صاف کے مالک تھے ان کے چاہنے والوں میں ہر طبقہ فکر کے لوگ موجود تھے مسلک پرستی اور فرقہ واریت کا عنصران کی شخصیت سے کوسوں دور تھا ان کے آخری سفر میں ملک بھر کے لوگ امڈ آئے تھے جنہوں نے نہایت سوگواری کے ساتھ ان کو وداع کیا تھا تقریب کے روحِ رواں شبیر احمدعثمانی نے خو ب صورت اور موزوں الفاظ کے ساتھ مولاناصاحب کی عقیدت میں سما ں باندھ دیا اور ان کے ساتھ بیتے ایام اور واقعات کا اس تسلسل کے ساتھ ذکر کیا کہ منظر آنکھوں میں تیرنے لگے تقریب کے آخرمیں مفتی حسن صاحب کا خطاب ہوا اور انہوںنے اختتامیہ دعا کروائی قریباََ رات کے تین بجے اس تقریب کا خوب صورت احساس لیے میں سیالکوٹ سے واپس اپنے گھر چلاآیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex