کالم

4مئی، عالمی فائر فائٹرز ڈے

کرامت علی

ہر سال 4 مئی کو فائر فائٹرز عالمی دن دنیا بھر میں فائر فائٹرز قربانیوں کو خراج ِ عقیدت پیش کرنے اور انکی پیشہ وارانہ بے لوث خدمات،بہادری،جواں مردی سچی لگن اور اپنے وطن سے والہانہ عقیدت و محبت کی یاد دہانی کے طور منایا جاتا ہے جو لوگوں کی جان و مال کو آگ اور دیگر آفات سے بچانے کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں۔فائر فائٹرز کے عالمی دن کا خیال پہلی بار 1998 میں اس وقت پیش کیا گیا جب آسٹریلیا میں جنگل کی آگ سے لڑتے ہوئے پانچ فائر فائٹرز المناک طور پر ہلاک ہو گئے۔ یہ تقریب نہ صرف آسٹریلیا بلکہ پوری دنیا میں فائر فائٹرز کی قربانیوں کے لیے حمایت اور تعریف کا باعث بنی۔ تب سے، فائر فائٹرز کا بین الاقوامی دن ایک عالمی تقریب بن گیا ہے، جسے دنیا بھر میں فائر اینڈ ریسکیو سروس و ادارے ، گورنمنٹز اور کمیونٹیز نے تسلیم کیا ہے۔ یہ دن فائر فائٹرز کے کام کے لیے شکریہ ادا کرنے اور انہیں روزانہ کی بنیاد پر درپیش چیلنجوں کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کا اہم موقع ہے۔آگ بجھانے والے افراد معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں، جس میں آگ، قدرتی آفات، اور خطرناک مواد کے واقعات شامل ہیں۔ فائر فائٹرزاکثر دوسروں کی حفاظت کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں جسکی کی وجہ سے انھیں کچھ انتہائی مشکل اور خطرناک ماحول میں کام کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ فائر ریسکیورز، جنہیں فائر فائٹرز کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو اکثر اپنے کام کی نازک اور خطرناک نوعیت کی وجہ سے گمنام ہیرو سمجھا جاتا ہے۔
فائر فائٹرز معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں جب لوگ اپنی جان بچانے کے لئے جائے حادثہ سے دور بھاگ رہے ہوتے ہیں اس کے بر عکس فائر فائٹرز انتہائی تندہی اور بہادری سے خالصتاََ لوگوں کی جان اور املاک کی حفاظت کے لیے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں ۔ فائر فائٹر بننے کے لیے انہیں سخت اور مشکل تربیت سے گزرنا پڑتا ہے جس میں جسمانی اور ذہنی تیاری دونوں شامل ہوتی ہیں تاکہ ہنگامی حالات میں پیش آنیوالی مشکلات سے نمٹنے کے لئے تیار رہیں ۔ اسی تناظر میں فائر فائٹرز کو آگ کے رویے،آگ بجھانے کی مہارتیں ،تلاش اور بچاؤ، اور ہنگامی طبی ردعمل اور جدید ذاتی حفاظتی آلات کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ فائر فائٹرز مختلف قسم کے آلات استعمال سے خطرناک حالات میں کام کرنے کے قابل ہو سکے ۔ پاکستان میں چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے دور سال 2004میں ریسکیو 1122 سروس کی بنیاد رکھی گئی جس نے ڈاکٹر رضوان نصیر کی سربراہی میں ابتدائی طور پر ایمبولینس سروس کے طور پر عوام کو ہنگامی حالات میں احساس تحفظ شروع کیا تو سروس کو انتھک عوامی خدامات کی بدولت عوام الناس میں بے پناہ عزت اور پذیرائی ملی جس کی وجہ سے ایک جدید اور موثر فائر اینڈ ریسکیو سروس کو بنانے کی ذمہ داری بھی ریسکیو سروس کو سونپ دی گئی ۔ حکومت وقت نے فائر ریسکیو سروس کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہو ئے سال 2007 میں پہلی فائر اینڈ ریسکیو سروس کا بھی آغاز کر دیا۔ ریسکیو 1122کے قیام سے قبل پاکستان میں فائر اور ریسکیو خدمات کا نظام زیادہ تر ناکافی اور فرسودہ تھیں اور فائر کے اداروں میں افراد کی کمی اور تربیت یافتہ افراد کا شدید فقدان تھا جس کے نتیجے میں آتشزدگی کے واقعات میں املاک کو شدید نقصان ہوتا اور انسانی جانیں بھی شدید خطرے سے دو چار ہوتیں ۔فائر ریسکیو سروس نے اپنے آغاز سے لے کرابتک اوسطاً سات منٹ کے رسپانس ٹائم کے ساتھ، مختلف ایمرجنسز کے تقریباََ 10 ملین سے زائد متاثرین کو بچایا ہے، اور رسپانس ٹائم اور پیشہ ورانہ فائر فائٹنگ کو بہتر بناتے ہوئے 605بلین روپے سے زیادہ کے ممکنہ نقصانات کو بھی بچایا ہے۔
آگ کے بحران سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے ۔آگ سے بچاؤ کے اقدامات کے بارے میں تعلیم، جیسے آتش گیر اشیاء اور برقی آلات کی صحیح ہینڈلنگ، انخلاء کے محفوظ طریقے، اور اسموک ڈیٹیکٹر اور فائر الارم نصب کرنے کی اہمیت، اس صورتحال میں آگ کی ہنگامی صورتحال کو روکنے کے لیے سب سے زیادہ موثر طریقوں میں سے ایک ہے۔ آگ کے ممکنہ خطرات کی نشاندہی کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے عمارت کا باقاعدہ معائنہ ضروری ہے، خاص طور پر زیادہ خطرے والے مقامات پر۔اس اہم دن پر، آئیے ہم ہر قوم کے ان تمام حقیقی ہیروز کو عزت اور سلام پیش کریں جنہوں نے اپنے ہم وطنوں کی حفاظت کے لیے خود کو خطرے میں ڈالا۔ اس موقع پرمیں ان تمام فائر ریسکیورز کو زبردست خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے پاکستانی عوام کی جان و مال کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی روح کو جوار رحمت میں جگہ دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے( آمین)۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
%d bloggers like this: