کالم

حاکم،ایسے ہونے چاہیے

راناشفیق خان

حمص کے باشندے اپنے گورنروں کو پریشان اور ان کے خلاف شکایت کرنے میں مشہور تھے،وہ گورنر کے اندر ضرور کوئی نہ کوئی عیب ڈھونڈ نکالتے،اس کی شکایتکرتے، اور خلیفہ سے مطالبہ کرتے کہ اس کی جگہ پر اس سے بہتر حاکم مقرر کیا جائے، یہ دیکھ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ نے طے کر لیا تھا کہ ان کے اوپر کسی ایسے شخص کو والی بناؤں گا جس کی سیرت وکردار پر انہیں کسی طرح سے اعترا ض اور نکتہ چینی کا موقع نہ مل سکے،انہوں نے اپنے تمام قابل اعتماد افسروں پر نظر ڈالی ،آخرکار ان کی نگاہ انتخاب حضرت عمیربن سعدؓ پر جاکر ٹک گئی ، امیرالمومنین نے شام کے محاذ سے واپس بلا کر حمص کی گورنری کا عہدہ ان کے سپر دکیا اور وہاں جانے کا حکم دیا انہوں نے امیرالمومنین کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔حضرت عمیر بن سعدؓ نے حمص میں گورنر کی حیثیت سے مکمل ایک سال گزارامگر اس مدت میں نہ تو انہوں نے دربار خلافت کو خط لکھا نہ مسلمانوں کے بیت المال کیلئے خراج وغیرہ کی کوئی رقم ہی بھیجی تو خلیفہ کے دل میں شکوک و شبہات نے سر اٹھانا شروع کیا، کیونکہ وہ اپنے گورنروں کے متعلق امارت کے فتنے سے ہمیشہ چوکنے اور ہوشیار رہتے تھے۔ انہوں نے اپنے کاتب کو بلا کر کہا، عمیر بن سعدؓکو لکھو کہ’’امیر المو منین کا خط پاتے ہی حمص کو چھوڑ دو ،دربار خلافت کے لئے روانہ ہوجاؤ او اپنے ساتھ خراج کی وہ پوری رقم لے کر آؤ جو تم نے اب تک جمع کی ہے۔خط پڑھ کر انہوں نے زادراہ کی تھیلی اٹھائی، کندھے پر پیالہ اور پانی کابرتن رکھا، ہاتھ میں نیزہ تھا ما اور پیدل ہی مدینہ پہنچے تو بھوک اور فاقہ کی وجہ سے ان کارنگ بدل گیا تھا، جسم نحیف اور لاغر تھا، صعوبت سفر سے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔حضرت عمرؓ نے دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے پوچھا : ’عمیر! یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟‘’’امیر المو منین !مجھے کچھ نہیں ہوا ،خدا کاشکر ہے میں بالکل ٹھیک ہوں ، اپنے ساتھ پوری دنیا اٹھا لایا ہوں۔‘‘عمیرؓ نے جواب دیا۔’’تمھارے ساتھ کیا ہے ؟‘‘(انہوں نے سمجھا کہ بیت المال کیلئے خراج کی رقم لائے ہیں) ’’میرے ساتھ میری تھیلی ہے جس میں زاد راہ ہے، پیالہ ہے جس میں کھاتا ہوں،اور اپنا سر اور کپڑے دھوتا ہوں۔‘‘میرے ساتھ میرا مشکیزہ ہے جس میں وضواور پینے کا پانی رکھتا ہوں۔’’امیر المومنین! میرے اس سامان کے علا وہ باقی دنیا میرے لئے بے ضرورت ہے مجھے اس کی کوئی احتیاج نہیں ۔‘‘’’کیا تم پیدل آئے ہو ؟ہاں،اے امیر المو منین، بیت المال سے سواری کیلئے تمہیں کوئی گھوڑا نہیں ملا؟، نہ انہوں نے دیا،نہ میں نے مطالبہ کیا ۔تم بیت المال کیلئے جو رقم لائے ہو وہ کہاں ہے؟میں بیت المال کیلئے کچھ نہیں لایا ۔وہ کیوں؟حمص پہنچا تو میں نے وہاں کے صلحاء کو جمع کر کے خراج کی وصولی اور اس کی فراہمی کی ذمہ داری ان کو سونپ دی تھی ، وہ جو کچھ بھی وصول کر کے لاتے میں ان کے مشورے سے وہ پوری رقم مستحقین میں تقسیم کر دیا کرتا تھا۔۔ حضرت عمرؓ نے اپنے کاتب سے کہا،عمیرؓ کیلئے حمص کی گورنری کا پروانہ تجدید تحریر کرو ۔نہیں امیر المو منین ،اب میں یہ ذمہ داری نہیں اٹھانا چاہتا، نہ آپ کے بعد کسی دوسرے کیلئے ،حضرت عمیرؓ نے سر کو نفی میں ہلاتے
ہوئے کہا۔پھر وہ حضرت عمرؓ سے اجازت لیکر مضافات مدینہ کی ایک بستی میں چلے گئے جہاں ان کے اہل وعیال مقیم تھے ۔ چند دنبعد حضرت عمرؓ نے ان کی آزمائش کا فیصلہ کرلیا، اپنے قابل اعتماد شخص حارث کو بلا کر کہا ’’عمیرؓ کے یہاں جاؤ اور وہاں بہ حیثیت مہمان قیام کرو،اگر تمہیں ان کے یہاں خوش حالی اور کشادگی کے آثار نظر آئیں تو فورا ًواپس آکر مجھے آگاہ کرنا، اگر افلاس وتنگدستی کے حالات دیکھو تو یہ سودینار ان کے حوالہ کر دینا۔‘‘حارثؓ عمیرؓ کی بستی میںآئے،اور پتہ پوچھتے ہوئے ان کے گھر پہنچے،ملاقات ہوئی تو سلام کیا ،حضرت عمیرؓ نے پوچھا،کہاں سے آئے ہو؟’’مدینہ سے ‘‘ مدینے کے مسلمان کیسے ہیں؟بخیر وعافیت‘ امیر المومنین کیسے ہیں وہ بھی بخیر ہیں،کیا وہ حدود کا نفاذ نہیں کررہے ہیں؟کیوں نہیں ،اے اللہ عمر کی مدد فرما،وہ تجھ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں، انہوں نے آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ہوئے کہا۔حارثؓ عمیر بن سعدؓ کے یہاں مہمان کی حیثیت سے تین رات مقیم رہے ،وہ رات ان کو جوکی ایک روٹی پیش کرتے،تیسرے دن ان کے قبیلے کے ایک شخص نے حارث سے کہا کہ تم نے عمیرؓ اور ان کے گھر والوں کو سخت پر یشانی میں مبتلا کر دیا ہے،ان کے پاس ایک ہی روٹی ہوتی ہے، یہ لوگ خود بھوک اور فاقہ کرکے تم کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں،اگر مناسب سمجھو تو تم میرے یہاں منتقل ہوجاؤ، اس کے بعد حارث نے دیناروں کی تھیلی نکالی اور عمیرؓ کے سامنے رکھ دی، عمیرؓ نے تھیلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ،یہ کیا ہے ؟اسے امیرالمومنین نے آپ کیلئے بھیجا ہے۔اس کو واپس لے جاؤ اور ان کی خدمت میں میرا سلام پیش کرنے کے بعد کہنا کہ عمیرؓکو اس کی ضرورت نہیں ،یہ سن کران کی اہلیہ بول پڑیں وہ اپنے شوہر اور مہمان کی گفتگو دروازہ کی اوٹ سے سن رہی تھیں،عمیرؓ اسے لے لیجئے ،آپ کو ضرورت ہو تو ،خرچ کیجئے ورنہ مستحقین میں تقسیم کردیجئے ،یہاں ضرورت مندوں اور محتاجوں کی کمی نہیں ،حارث دیناروں کی تھیلی عمیرؓکے سامنے چھوڑ کر واپسی ہو گئے، عمیرؓنے دیناروں کو لیا اور انہیں بہت سی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں رکھ کر راتوں رات ضرورت مندوں خصوصا ًشہداء کی اولاد میں تقسیم کردیا،ادھر حارث مدینہ پہنچے تو حضرت عمرؓ نے پوچھا،حارث تم نے کیا دیکھا؟امیر المومنین !عمیرؓ اور ان کے اہل وعیال بڑے سخت حالات سے دوچار ہیں، تم نے دینار ان کو دے دیے تھے؟ہاں اے امیر المو منین۔ انہوں نے کیا کیا، مجھے نہیں معلوم، لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اس میں سے ایک دینار بھی اپنی ذات پر نہیں خرچ کریں گے۔تب حضرت عمرؓ نے حضرت عمیرؓبن سعد کولکھا۔’’میرا یہ خطملتے ہی مدینے کے لئے روانہ ہوجاؤ۔‘‘حضرت عمیرؓنے مدینہ کارخ کیا، حضرت عمرؓ نے ان کاپرتپاک خیر مقدم کیا اور اپنے قریب بٹھاتے بولے ،عمیرؓ تم نے ان دیناروں کاکیاکیا؟ امیرالمومنین! جب وہ دینارآپ مجھے دے چکے ، تو اب آپ کو ان سے کیا غرض ہے؟ میںیہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ تم نے ان کوکہاں خرچ کیا؟میں نے انہیں جمع کر دیا ہے تاکہ وہ اس روز میرے کام آئیں جس روز مال اور اولاد کوئی چیز کام نہ آئے گی۔یہ سن کر حضرت عمرؓکی آنکھیں جھلک پڑیں اور انہوں نے بھر ائی ہوئی آواز میں کہا:’’عمیرؓمیں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جوتنگدستی کے باوجود اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں‘‘۔پھر آپؓ نے ایک وسق غلہ اور دو کپڑے دینے کا حکم دیا،حضرت عمیرؓ نے کہا:’’امیر المومنین! غلہ کی ضرورت نہیں ،میں دوصاع جوگھر پر چھوڑ آیا ہوں،جب تک ہم اسے کھائیں گے، اللہ تعالیٰ ہمارے لئے رزق کابندوبست کر دیگا، البتہ کپڑے میں بیوی کیلئے رکھ لیتا ہوں،اس کے کپڑے بالکل بوسیدہ ہوچکے ہیں‘‘۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button