کالم

یوم مئی :مزدور اور قلمکار کے شب وروز

چوہدری غلام غوث

انسان کے لئے زندگی گزارنے کے لئے روٹی،کپڑا اور مکان بے حد ضروری ہیں اس کی تاکید آئین پاکستان میں بھی موجود ہے۔اگر بغور جائز ہ لیا جائے تو پوری دنیا میں مزدور ، محنت کش اور قلمکار لوگوں کی تعداد باقی شعبہ ہائے زندگی سے زیادہ ہے۔دنیا بھر کی بڑی بڑی معیشتوں میں مزدوروں اور محنت کشوں کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔دنیا کے ہر ملک میں شہری کی صحت، تعلیم، کھانے پینے کی ضروری اشیاء اور روزگار کی فراہمی سر فہرست ہیں۔ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہر ملک کے لئے ضروری قرار دی گئی ہیں ۔پاکستان کے حکمران بیرونی قرضوں کے بل بوتے پر اپنی معیشت کو سہارا دے کر چلا ر ہے ہیں۔بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی ملک کا ہمیشہ اہم مسئلہ رہا ہے۔ ملک کے مزدوروںقلمکاروں کو روح اور جسم کارشتہ قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ پا پڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ راقم محنت کشوں،قلمکاروں کی تنظیم کا اہم عہدیدار ہے۔اسکا مشاہدہ ہے کہ اکثر اوقات محنت کشوں، قلمکاروں کو اپنے پیاروں کا علاج کروانے کی غرض سے اپنا جی پی فنڈ نکلوانا پڑا۔ اگلی سہولت مزدور کے بچوں کی تعلیم ہے حالت یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کے معیار پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔حکومتی عدم توجہی اور سہولیات کی عدم فراہمی ،سٹاف کی کمی جیسے مسائل سرکارسکولوں میں معیاری تعلیم کی فراہمی میںرکاوٹ ہیں۔مزدور کے بچوں کے لئے سکولوں کا معیار اور سلیبس علیحدہ جبکہ امراء اور رئیسوں کے بچوں کے لئے سکولوں اور سلیبس کا معیار یکسر علیحدہ ہے۔طبقاتی نظام نے عام آدمی کو اس نظام کہن سے متنفر کر دیا ہے۔محنت کش، مزدوراور قلمکار کا بچہ آج بھی نامساعد حالات میں اپنی بقاء کی جنگ لڑتاپارٹ ٹائم مزدوری کرتا نظر آتاہے۔ طبقاتی نظام اشرافیہ کے بچوں کے ناز نخرے اور چونچلے پورے کرنے میں سرگرداں ہے کم ازکم 25000/-ہزار وپے تنخواہ والے مزدور کے خاندان کا بجٹ نہیں بنتا ۔دال ، سبزیاں،چکن، چینی،بناسپتی گھی، گندم کا آٹا اس کی پہنچ سےہے اس کے بچے فروٹ کو صرف دیکھ سکتے ہیں۔موجودہ شدید مہنگائی نے عام آدمی کا بھرکس نکال دیا ہے۔25000/-ہزار روپے میں فی زمانہ ایک کنبے کا ماہا نہ بجٹ بنانا شوکت ترینوں اور اسحق ڈاروں کے بس کی بات نہیں ۔ فطری طور پر مزدور کے بچوں میں صبر واستقلال اور استقامت جیسی صفات پید اہو جاتی ہیں ۔ طبقاتی نظام کا منطقی انجام صر ف تباہی اور بربادی ہوتا ہے ۔مزدوری نہ ملنے پر شاعر نے کہا:
موت سے جوڈرتا نہ تھا بچوں سے ڈر گیا
اک روز جب مزدور خالی ہاتھ گھر گیا
روزگار کی فراہمی کی سہولت کا مسئلہ جوں کا توں ہی رہا ہے۔ ہمیشہ خودکشیوں کے رحجان میں اضافہ ہوا ۔ہمیشہ طاقتور میرٹ مزدور کے تعلیمیافتہ بچے کے آڑے آتا ہے ، مایوسی بعض اوقات مزدور کے بچوں کو جرائم پیشہ افراد میں دھکیل دیتی ہے اپنا جائز حق نہ ملنے پر ان کی ساری صلاحیتیںاور توانائی منفی سرگرمیوں میں صرف ہوجاتی ہیں جس سے معاشرے میں بگاڑپید ا ہوتا ہے اس کی تمام تر ذمہ دار ریاست ہے ۔ حکومت اگر یہ تہیہ کرلے کہ وہ اپنے ملک کے مزدور اور قلمکار کی عزت کرے گی اور اس کو ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی بنائے گی تو حکومت کو اس کے لئے لمبے چوڑے اخراجات کر نے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی ،بس اس پر عملدرآمدکرائے کہ وزیر اعلیٰ، سیکرٹری اور عام مزدور اور کلرک کا بچہ ایک سکول ، ایک مادر علمی میں پڑھے گا ۔ اس کے لئے کون سا بجٹ اور دیگر اخراجات درکار ہیں صرف نیک نیتی کا ہتھیار درکار ہے ۔ اعلان کیا جائے کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری سمیت دیگر تمام مقتدر حلقے کھانے پینے کی ضروری اشیاء کی خود خریداری کیا کریں گے۔ میرٹ ہر حال میں قائم ہوگا رشوت اور سفارش کو نکال دیاجائے گا ۔حکمران طبقے کو اپنے وجودکی نفی کرکے اس پر عملدرآمد کروانا پڑے گا۔ عام مزدور کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کردی جائے تو مزدور موجودہ ہوشربا مہنگائی میں بھی روز مرہ زندگی کو بآسانی گزار سکتا ہے۔ یہ یوم مئی کا حقیقی پیغام ہے جو اس روح کے مطابق ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex