کالم

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

محمود شام

’’جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا۔ وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے۔ جو کچھ خدا نے ان کو اپنے فضل سے بخش رکھا ہے اس میں خوش ہیں اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے اور (شہید ہو کر) ان میں شامل نہیں ہو سکے۔ ان کی نسبت خوشیاں منارہے ہیں کہ (قیامت کے دن) ان کو بھی نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہو رہے ہیں اور اس سے کہ خدا مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (القرآن۔ سورۃ آل عمران آیت۔ 169تا 171۔ مضامین قرآن حکیم۔ مرتبہ: زاہد ملک)‘‘
آج پاکستانی قوم ’یوم تکریم شہدا پاکستان‘‘ منا رہی ہے۔عبدالمجید سالک کہہ گئے تھے۔’شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے۔‘‘واہگہ سے گوادر تک فضائیں گونج رہی ہیں۔ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔دل سے لکھی ہوئی۔ دل سے الاپی ہوئی یہ صدا بھی ہم سب کے دل گداز کرتی ہے۔
اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
برّ صغیر میں مسلمانوں کیلئے یہ الگ وطن لاکھوں شہیدوں کی قربانیوں سے حاصل ہوا تھا۔ مجھ سمیت لاکھوں پاکستانیوں کو وہ المناک مناظر نہیں بھولتے جب غلامی سے آزادی کی طرف سفر کرتے ہوئے کتنے بزرگ، نوجوان، مائیں، بہنیں، بچے۔ سکھوں کی کرپانوں ہندوئوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ اس ملک کی بنیادیں شہیدوں کے لہو سے عبارت ہیں۔ پھر 1948میں کشمیر میں۔ 1965 میں پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے۔ 1971میں مغربی، مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کو پسپا کرتے ہوئے کتنے جانبازوں نے موت کو گلے لگایا ۔میں تو یہ کہتا ہوں کہ
یہ ارض پاک امانت ہے سب شہیدوں کی
پاکستان میں بزرگ، نوجوان، مرد، خواتین سب اپنے شہدا کی ہمیشہ تکریم اور احترام کرتے آئے ہیں۔ شاعروں نے نغمے ترانے نظمیں لکھیں۔ ناول نگاروں نے بہت اعلیٰ ناول لکھے۔ صرف اُردو ہی نہیں۔ انگریزی میں پاکستان کی تمام قومی زبانوں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو، ہندکو، بلوچی، براہوی کی شاعری شہیدوں کی عقیدت سے مالا مال ہے۔ یوم دفاع ، یوم آزادی، یوم جمہوریہ پرہمیشہ عظیم شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ دلی جذبے سے ہوتا ہے۔ کسی حکمراں کے حکم پر نہیں۔ آزادی کیلئے گلگت بلتستان نے بھی، آزاد کشمیر نے بھی بہت جانیں نثار کی ہیں۔ پھر ان شہدا کی قربانیوں سے حاصل کئے گئے عظیم وطن پاکستان کے استحکام کیلئے۔ جمہوریت کی بحالی کیلئے اپنے اپنے حقوق کیلئے بھی جانیں واری گئیں۔ پھر انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مزاحمت کرتے ہوئے بھی 80ہزار جانیں راہ حق میں قربان ہو چکی ہیں۔ شہادتوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ہر روز ہی کتنے عام سپاہی، لانس نائیک، لیفٹیننٹ، کیپٹن، میجر بلوچستان میں وزیرستان میں جراتمندی سے خونخوار دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہورہے ہیں۔شہیدوں کے ورثا کی بستیاں آباد ہیں۔ ان کی یادگاروں پر خلق خدا سال بھر حاضری دیتی ہے۔ سلام پہنچاتی ہے اور بجا طور پر یقین رکھتی ہے کہ ان ہستیوں کی اس جاں نثاری سے ہی ملک محفوظ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان عظیم شہدا کے صدقے پاکستان کو استحکام بخشے۔ لٹیرے، بد عنوان، حکمرانوں سے شہیدوں کی امانت سر زمین کو نجات دلائے۔ 25مئی 2023کو جب ہم اپنی تکریم اور احترام کا اظہار کررہے ہیں۔ اس وقت قائد اعظم کا پاکستان، 1947والا نہیں۔ 1971کے معرکے میں بچا ہوا پاکستان۔ معاشی، اخلاقی، سیاسی،سماجی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ روپیہ ڈالر کے سامنے پستی کا شکار ہے۔ 300 روپے کا ہوکر بھی ڈالر کی پرواز رک نہیں رہی۔ آئی ایم ایف سےمعاہدہ اب تک نہیں ہو سکا ۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔
1985کے غیر جماعتی غیر سیاسی انتخابات میں کاشت کی گئی فصلیں پک رہی ہیں۔ کٹ رہی ہیں۔ پورے ملک میں کڑواہٹ پھیل چکی ہے۔ہم ایک دوسرے سے خوف کھاتے ہوئے شہیدوں کی امانت اس لازوال سرزمین کو آج کس بد ترین حالت میں لے آئے ہیں۔ اگر ہم انسانوں سے خوف کی بجائے۔ خوف خدا سے سرشار ہوتے تو آج یہ مملکت خداداد کتنی مستحکم ہوتی۔ 22کروڑ کتنے خوشحال ہوتے۔ ہماری دنیا میں کتنی عزت ہوتی۔ غور کیجئے کہ 1985سے جب سے قومی سیاسی جماعتوں سے ماورا انتخاب یے ملک کے سیاسی افق پر غالب کئے گئے ہیں۔ جو نامعلوم قوتوں کے کہنے پر وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ کو کتنا بے اثر کردیا ہے۔ آئین بے دست و بازو ہو گیا ہے۔ جمہوریت لاوارث ہے۔ پارلیمانی نظام میں انتقال اقتدار کی بجائے شراکت اقتدار اور ووٹروں کی فلاح و بہبود پر سرکاری خزانے سے خرچ ہونے کی بجائے رقوم کو ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی نظام میں 1985 سے تسلسل نہیں ہے۔ آپ تعلیمی نظام پر نظر ڈالیں۔ یہی وہ سال ہیں جب امتحانات میں نقل بزور قوت کی گئی۔ اب ملک کے بڑے چھوٹے عہدوں پر نقل سے پاس ہونے والے ہی فائز ہیں۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ لسانی اور نسلی گروہوں نے اساتذہ کو مجبور کیا کہ وہ امتحانوں میں نہ بیٹھنے والوں کو بھی پاس کر دیں۔ اسی عرصے میں نوکریاں بکتی رہیں۔ تھانے فروخت ہوئے۔ ملک کے 226 سے زیادہ کلیدی عہدوں پر بھی میرٹ کی بجائے عزیز و اقربا بیٹھے۔ انہی برسوں میں برادریوں، قبیلوں اور ڈومیسائل نے انسانیت، اہلیت اور قابلیت کو پچھاڑ کر رکھ دیا۔ 1971 کے المیے کے زخم بھی نسل در نسل منتقل ہو رہے ہیں۔ یہ آج کے بحرانوں میں مبتلا پاکستانی سماج کے خدّوخال ہیں۔ اس کا علاج حقیقی سیاسی ماحول، اور نئے مینڈیٹ کیلئے عوام کو اختیار ہے، جس سے صاف انکار کیا جا رہا ہے۔
ہمارے درد مند پاکستانی و دانشور، تحقیقی ادارے، یونیورسٹیاں، ماہرین نفسیات غیر جانبداری سے تحقیق کریں۔ شخصیات پر نہیں رجحانات پر نظر جمائیں۔ ایک اک علاقے پر غور کریں کہ ایک طرف تو ان کو زندگی کی سہولتیں نہیں پہنچائی گئیں۔ ان کیلئے ٹرانسپورٹ اچھی فراہم نہیں کی گئی۔ اکثریت پر جاگیرداروں، زمینداروں، ٹھیکیداروں کی اقلیت کو مسلط کیا گیا۔ تنظیمیں بنائی گئیں۔ انہیں قومی سیاسی جماعتوں کے راستے میں کھڑا کیا گیا۔ اسکولوں، کالجوں یونیورسٹیوں میں ایسی کتابیں پڑھائی گئیں جن میں انسانوں کی برابری نہیں دکھائی گئی۔ بلدیاتی اداروں کو پھلنے پھولنے نہیں دیا گیا۔ ادارے آپس میں لڑتے رہے۔ اپنے لالچ کو نہیں بدلا گیا۔ احتساب کے قوانین بدل دیے۔وقت آگیا ہے کہ پستی کے اس سفر کو روکا جائے۔ مملکت خداداد کا وقار بحال کیا جائے۔ ہر فرد کی عزت کی جائے کہ
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex