کالم

گدھا انسانی حیوانیت کا شکار

ڈاکٹر سعید احمد آفتاب

ہمارے معاشرے میں لفظ ’گدھا‘ اکثر کسی کی تذلیل یا کسی کو نکما، بے عقل اور احمق ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ یہی گدھے ہم انسانوں کی زندگی سہل بنانے میں دن رات جتے رہتے ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں گدھا سب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا جانور ہے، شاید یہ شعور کی کمی ہے کہ کچھ دن قبل کراچی میں کچھ سیاسی کارکنوں نے دوسری سیاسی جماعت کی تذلیل کے لیے گدھے پر ایک سیاسی لیڈر کا نام لکھا اور اپنے دل کی بھڑاس نکال کر اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔اس بے زبان کی ناک کی ہڈی توڑدی گئی، جبڑے الگ کردیے گئے، منہ اور پیٹ پر اس قدر ظلم ڈھایا کہ وہ بیچارا کھانے پینے سے بھی محروم ہوگیا۔ اللہ بھلا کرے کہ ایک نجی انیمل ریسکیو سینٹر کا، جس نے زخموں سے چور اس جانور کو پناہ فراہم کی اور تین دن کی دیکھ بھال کے بعد وہ کھڑا ہونے کے قابل ہوا۔زخمی گدھے کی قوت برداشت کو دیکھ کر اسے ’ہیرو‘ کا نام دیا گیا، ابھی ہیرو کا علاج جاری تھا کہ کہ گلشن اقبال میں ایک اور گدھا سیاسی تشدد کی بھینٹ چڑھ گیا جس پر سریا مار کر اس کا
سر پھاڑ دیا گیا۔الیکشن کے قریب اس صورتحال نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے، کیا یہی اخلاقی اقدار ہیں اور کیا بے زبان پر تشدد کرنا ہماری تہذیب کا حصہ ہے؟ ہمیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ پاکستان میں 40 سے 60 فیصد بازاروں میں سامان کی ترسیل انہی گدھوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔جس وقت یہ واقعہ ہوا اسے دیکھنے والوں نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اسے بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ اور کیوں پاکستان میں جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اس صورتحال میں خاموش ہیں؟
امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کا سیاسی نشان گدھا ہے، گدھا محنتی اور مضبوط ارادوں کا جانور تصور کیا جاتا ہے۔2006 میں اس لیے پارٹی سربراہ جیکسن نے سیاسی مہم کے لیے گدھے کا نشان ہی منتخب کیا تھا۔میں پاکستان لائیو اسٹاک کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 47 لاکھ گدھے دن رات ہم انسانوں کی زندگی آسان کرنے میں مصروف ہیں۔لیکن ہم ان کے ساتھ کیا کررہے ہیں؟ ان کے مزدور مالکان جو دو وقت کی روٹی ان گدھوں پر سامان لاد کر حاصل کرتے ہیں وہ تک ان کی صحت اور فلاح و بہبود پر کم ہی توجہ دیتے ہیں۔تو ہم اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اور کسی کی تذلیل کے لیے انہیں تشدد کا نشانہ کیوں بنا رہے ہیں؟کیا خوف خدا ختم ہوگیا؟ یا ملک میں بے زبانوں کے حقوق پر آواز اٹھانے والے ناپید ہیں؟کہیں تہذیب اور برداشت کا دامن ہمارے ہاتھوں سے نکلا تو نہیں جارہا؟کوشش کریں کہ ذاتی مفاد سے نکل کر ان کے لیے بھی ذرا سوچئےجو جانور تو ضرور ہے لیکن انسانیت کے رحم دل رویئے کا طلب گار ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex