اداریہ

پاک چین دوستی زندہ باد

پاک چین وزرائے خارجہ سٹریٹجک ڈائیلاگ کے چوتھے دور کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔ دفتر خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی دعوت پر چینی وزیر خارجہ نے پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ کیا۔ پاک چین وزراءخارجہ نے سٹریٹجک ڈائیلاگ کے چوتھے دور کی صدارت کی۔ مذاکرات میں سیاسی‘ اقتصادی‘ دفاعی سلامتی‘ تعلیم اور ثقافتی شعبوں میں تعاون کا جائزہ لیا گیا۔ دوطرفہ تعلقات اور تعاون کے تمام امور کا جائزہ لیا گیا۔ مذاکرات میں علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ پاکستان اور چین نے دوطرفہ شعبوں میں تعاون کی ضرورت کا اعادہ کیا۔ وزراءخارجہ نے زور دیا کہ پاک چین دوستی تاریخی حقیقت ہے۔ چین نے پاکستان کی خود مختاری‘ آزادی اور علاقائی سالمیت کیلئے حمایت کا اعادہ کیا اور پاکستان کے اتحاد‘ استحکام اور اقتصادی خوشحالی کی حمایت کا عزم کیا۔ دونوں ملکوں نے سٹریٹجک تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔ پاکستان نے تائیوان‘ سنکیانگ‘ تبت اور ہانگ کانگ سمیت بنیادی مسائل پر چین کی حمایت کے عزم کا اعادہ کیا۔ مذاکرات کے دوران 2023 ءمیں سی پیک کی ایک دہائی کی تکمیل کا خیرمقدم کیا گیا۔
پاکستان چین کے لیے خطے میں اہم ترین تزویراتی شراکت دار کی حیثیت رکھتا ہے جس کی ایک مثال چین کا بلین ڈالر منصوبہ سی پیک بھی ہے جب کہ دونوں ملکوں کے دوطرفہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں پاکستان اور چین نے عالمی امور پر عموماً ہمیشہ یکساں پالیسی اختیار کی۔دونوں ملکوں کے تعلقات کا اظہار اب ایک بارپھرپاک چین وزراءخارجہ سٹریٹجک ڈائیلاگ میں بھی کیاگیاہے کہ چین پاکستان کے معاشی اور سماجی استحکام کی کوششوں میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تمام فریقوں سے مشترکہ کوششیں کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔خیال رہے کہ عالمی ریٹنگ ایجنسیوں موڈیز اور فچ کے مطابق،پاکستان پر جون تک واجب الادا قرض سات ارب ڈالر ہے جس میں چین کے قرضے بھی شامل ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان دیرپا تعلقات کے پیشِ نظر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا چین پاکستان پر اپنے واجب الاداقرضوں میں کوئی رعایت برتے گا؟ چین کا اس معاملے پر موقف دوٹوک اور واضح ہے کہ اس پر اعلیٰ چینی حکام ہی کوئی حتمی جواب دے سکیں گے تاہم چین اور پاکستان ایک مضبوط اسٹریٹجک شراکت دار ہیں ۔ چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان کی جانب سے بھی چندروزقبل کہا گیاکہ دونوں ملک ایک دوسرے کے مشکل وقت میں ہمیشہ ایک ساتھ کھڑے رہے ہیں، اور چین پاکستان کے ساتھ قریبی اقتصادی اور مالی تعاون کرتا رہا ہے اورپاکستان کے اقتصادی استحکام، عوامی زندگی کو بہتر بنانے اور ترقی کے ہدف کے حصول کے لیے اس کی کوششوں میں مددگار اور معاون رہا ہے۔پاک چین وزراءخارجہ سٹریٹجک ڈائیلاگ کی جانب سے تازہ موقف کہ چین پاکستان کے معاشی اور سماجی استحکام کی کوششوں میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تمام فریقین سے مشترکہ کوششیں کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ چین پاکستان کو معاشی مشکلات کے بھنور سے نکالنے کے لیے پرعزم ہے جس میں وہ یقیناً کامیاب ہوگا۔یہ حقیقت تو اظہرمن الشمس ہے کہ آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں پر امریکی پالیسیوں کا غلبہ ہے۔وہ کسی ملک کیلئے بیل آئوٹ پیکیج کی منظوری دیتے ہوئے امریکی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہیں اور مقروض ممالک کو جن شرائط کا پابند کرتے ہیں وہ امریکی ڈکٹیشن پر ہی مبنی ہوتی ہیں۔ مالیاتی اداروں کے بیل آئوٹ پیکیج کا مقصد بھی متعلقہ ممالک کی معیشت کو امریکی خواہشات کے مطابق جکڑے رکھنے کا ہوتا ہے تاکہ ان میں خودداری کی کوئی رمق پیدا نہ ہو سکے اور ان کی آزادی و خودمختاری امریکی اشاروں پر ناچتی نظر آئے۔ امریکہ نے اپنے تئیں دنیا کی واحد سپر پاور بن کر دوسرے ممالک کو ڈکٹیٹ کرنا اپنا حق سمجھ لیا ہے جو اپنے مفادات پر تو کوئی زد نہیں پڑنے دیتا مگر دوسرے ممالک کی آزادی و خودمختاری کو پرِکاہ کی حیثیت نہیں دیتا۔ امریکہ نے عالمی قوانین‘ کنونشنز اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے بر عکس خود کو یہ اختیار بھی تفویض کر دیا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر کسی بھی دوسرے ملک کی سلامتی و خودمختاری پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہر رکن ملک کی مساوی حیثیت تسلیم کی گئی ہے اور ہر ملک کی آزادی و خودمختاری کے احترام کا تقاضا کیا گیا ہے۔ مگر امریکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں‘ فیصلوں اور کنونشنز کو بھی خاطر میں نہیں لاتا ۔ آئی ایم ایف اور عالمی بنک بھی اپنی قرض پالیسی کا امریکی ڈکٹیشن کے مطابق ہی اجراءکرتا ہے۔بلاشبہ چین کو اس ساری صورتحال کا مکمل احساس و ادراک ہے جو دنیا او رخطے میں طاقت کا توازن امریکہ کے ہاتھوں بگڑنے سے بچانے کیلئے علاقائی اور عالمی تعاون کے راستے ہموار کرتا ہے اور اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف کا رکن ہونے کے ناطے وہ ان فورموں پر امریکی توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بندھ باندھنے کا کردار ادا کرتا ہے۔ پاک چین دوستی کا آغاز چونکہ چین کی آزادی کے ساتھ ہی ہوگیا تھا چنانچہ ان دونوں ممالک کے مابین علاقائی ترقی‘ سلامتی اور استحکام سے متعلق مفادات میں بھی اشتراک عمل ہوا اور یہی وہ صورتحال ہے جس نے پاک چین دوستی کو شہد سے میٹھی‘ سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند کرکے دنیا کیلئے ضرب المثال بنایا۔ اور جوں جوں وقت گزرتا جائے گا پاک چین تعلقات مزید مستحکم ہوتے چلے جائیں گے ۔
ملک کی خراب معاشی صورتحال
اس وقت ملک کو جومعاشی مشکلات درپیش ہیںاس صورتحال کے لیے کوئی ایک سیاسی جماعت یا شخصیت نہیں بلکہ گزشتہ ساڑھے چھے دہائیوں میں تشکیل پانے والی تمام حکومتیں ذمہ دار ہیں کیونکہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلا قرضہ دسمبر1958ءمیں لیا تھا اور بعد میںسلسلہ کبھی رکا نہیں۔ ہمارے ہاں رواج یہ ہے کہ ہر حکومت اپنی ناکامیوں کا ملبہ خود سے پچھلوں پر ڈال دیتی ہے، لہٰذا اب بھی یہی ہورہا ہے اور حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں موجودہ معاشی عدم استحکام کے لیے عمران خان کو ذمہ دار قرار دے رہی ہیں حالانکہ ماضی میں یہ سب جماعتیں حکومت کرتی رہی ہیں اور ان سب سے کسی نہ کسی موقع پر آئی ایم ایف سے قرض لے کر ملک کے معاشی بوجھ میں اضافہ کیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف مزید قرض دینے کے لیے حکومت سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ بجلی و گیس کے بلوں میں دی جانے والی سبسڈی ختم کرے۔ حکومت نے اصولی طور پر اس حوالے سے آمادگی ظاہر کردی ہے، لہٰذا بجلی کے نرخوں میں بھی ہوشربا اضافہ کردیاگیا ہے اوربتایاجارہاہے کہ اگست2023ءتک بجلی کی قیمت میں مرحلہ وار اضافہ کیاجاتارہے گا جو کہ سراسرعوام پر ظلم ہے۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اس کے علاوہ ہو گی،ظاہر ہے کہ اس سے عام آدمی کے مالی مسائل میں مزید اضافہ ہوگا ۔اب تو نوبت بایں جارسید کہ بین آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت چاہ کر بھی آئی ایم ایف کے کسی مطالبے کو ماننے سے انکار نہیں کرسکتی۔ بس،اللہ تعالی ہی ہم پر رحم فرمائیں وگرنہ ہم نے تو اپنی تباہی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔آخر ہم کب تک ”قرض کی مئے“پیتے رہیں گے؟خود انحصاری کی جانب کب بڑھیں گے؟؟؟؟
کشمیراور عالمی برادری
کشمیریوں پر یوں تو ظلم و ستم ایک عرصے سے ڈھایا جا رہا ہے لیکن گزشتہ چار سال سے جب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت مودی سرکار نے ختم کی ہے تب سے کشمیریوں پر مودی سرکار نے مظالم کی انتہا کر دی ہے۔ آئے روز کشمیریوں کو فائرنگ کا نشانہ بنا کر ان کی زمینوں پر نئے نئے قوانین کے تحت اسرائیلی حکومت کی طرز پر ہندو بستیاں بسانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو تقریبا چارسال ہونے کو ہیں اور اس دوران بھارت کی ظالم فوج نے ظلم کے وہ بازار وہاں گرم کر رکھے ہیں کہ جن کو الفاظ میں ڈھالتے ہوئے بھی قلم شدت جذبات سے رو پڑتا ہے اور بھارتی ظلم و ستم پرکانپنے لگتا ہے۔ ہمارا یمان ہے کہ بھارت جتنے مرضی مظالم کاسہارا لے لے لیکن وہ کشمیریوں کی جدوجہدا ٓزادی کو نہیں دباسکتا اور کشمیر ی ایک دن ضرورآزادی کی منزل تک پہنچیں گے کیونکہ کشمیر ایک جنت نظیر وادی ہے اور ”جنت کسی کافر کو ملی ہے ‘نہ ملے گی“۔ آج کشمیر کے مظلوم عوام جس ابترصورتحال سے دوچار ہیںضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستانی قوم ایک ہو کر کشمیریوں کیلئے میدان عمل میں نکلے اور ان کی اخلاقی ، سیاسی ،مذہبی اور سفارتی حمایت کرے تا کہ مغربی ممالک یو این او اور بیرونی دنیا کو پیغام جائے کہ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے اور دنیا بھی اس آزادی کی تحریک میں ان کا ساتھ دے اوربھارتی مظالم رکوانے کے لیے میدان عمل میں آئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex