کالم

وفاداریاں بدلنے کا موسم

ایم زیڈ مغل

وفاداریاں بدلنے کا موسم ہے، مزید ساتھ نہ چلنے کی روایت ہے۔ جس جدوجہد کی کامیابی میں 23 سال گزرے اسے پاش پاش ہونے میں اتنے ایام بھی صرف نہ ہوئے۔ شیرازہ برق رفتاری سے بکھرتا جا رہا ہے۔ یہ کسی تحریک کی نہیں بلکہ سیاست کی اپنی نااہلی و ناکامی ہے جو واضع ہو رہی ہے۔ کیا خوب مقامِ عبرت ہے کہ پاکستان میں سیاست 75سال بعد بھی تغیر پذیر ہونے کے باوجود جمود کا شکار ہے۔ آج بھی فصلی بٹیروں والی روایت زندہ و تابندہ، جاری و ساری ہے۔ جب تک نشیمن پہ بہار ہے سب جڑے ہیں اچھے وقت کے ساتھی ہیں جیسے جیسے منجدھار کا سامنا ہو ویسے ویسے کشتی سے کُود کر موجوں کی نذر۔ کپتان پہلے ہی ڈوبتی ناؤ کا دباؤ برداشت کر رہا اب بھاگتے، جان چھڑاتے عملہ کی صورتحال کا سامنا بھی ہے۔ غرضیکہ ہر طرف سے کپتان پر دباؤ ہی دباؤ اور پریشانی ہی پریشانی۔ صرف چند گنِے چُنے ایام میں ایک حیران کن کیفیت کا سماں ہے۔ ایک مخصوص پارٹی کا حصہ رہیں گے تو مجرم، اگر علیحدگی اختیار کر لیں تو ’کیسا تیراجرم‘۔ جرم کیا صرف ریڈ لائن کراس کرنا ہے یا ریڈ لائٹ کے بعد مخصوص پارٹی کا حصہ رہنا؟ ہر سُو نا اہلی ہی نا اہلی، خود غرضی ہی خود غرضی۔ کپتان کی ایک روزہ گرفتاری اور اسکے بعد کی صورتحال کپتان سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کی نااہلی و ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حساس تنصیبات اور شہداء کی یادگاریں کیسے بے یارومددگار رہیں، کوئی بچانے نہ آیا حتٰی کہ توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ گھنٹوں پہ محیط رہا۔
اب جبکہ ردعمل شدید ہے، گرفتاریاں در گرفتاریاں؛ پرچوں پہ پرچے؛ کیا مرد، کیا عورتیں، کیا بوڑھے اور کیا نوجوان بچے، سب اندر تو بس اندر۔ وہ پارٹی جس کا چند دن قبل گراف آسمان کو چھُورہا تھا قوم دیوانہ وار اس کا ہر بیانیہ سمیٹ لیتے، سچ ہو یا جھوٹ اُن کیلئے حرفِ آخرتھا۔ گرفتار رہنما رہائی پاتے ہی یا تو دوبارہ گرفتار ہو رہے یا پھر پریس کانفرنس کر بیٹھیں تو عافیت جانیں۔ تیسری کوئی آپشن زیرِ غور نہیں۔ ان حالات میں پابندِ سلاسل عام عوام کیلئے کوئی دوسری آپشن حکومت کیوں پیش نہیں کر پا رہی۔ سیاسی لیڈر تو بیانیہ بدل کر ڈرائی کلین ہو بیٹھے ان ہزاروں شہریوں کا کیا بنے گا جو گرفتاری کی صہوبتیں برداشت کررہے؟ کارروانِ انصاف سے فرار ہونے والوں میں حالیہ اضافہ فیاض الحسن چوہان کا تھا جنہوں نے عمران خان کو 9مئی کے واقع کا مرکزی ملزم و اصل زمہ دار گردانتے ہوئے خود کو تحریک انصاف سے علیحدہ کرلیا۔ ممکن ہے یہ بیان ان کے گناہوں کی تلافی کرسکے لیکن حیرت اس بات پہ ہے کہ ایک دو دن کی گرفتاری کے دوران ہی انہیں اصل ملزم و مجرم کا ادراک ہوسکا۔ ہماری سیاست کیلئے مقامِ دکھ شیریں مزاری جیسی پڑھی لکھی خاتون کا سیاست سے اعلانِ علیحدگی ہے۔ چار مرتبہ گرفتاری اور سوشل میڈیا پہ پھیلتی پارٹی چھوڑنے کی وجوہات انتہائی خوفناک ہیں۔ ایک اور 80سالہ بزرگ خاتون سیاستدان یاسمین راشد ہسپتال سے گرفتار ہوئی ہیں جو بظاہر ان کے جرم سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف چوہدری وجاہت حسین بھی پی ٹی آئی سے جان چھڑاتے ہوئے بہک جانے کو وجہ قرار دیتے رخصت اختیار کر گئے۔ عامر کیانی نے شہداء کی تحریم کو نشانہ بنائے جانے کے بعد خود کو منجدھار میں پھنسی پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے کا طبل بجا کر کیا۔ بہت سے دوسروں کی طرح لگ بھگ 24ٹکر کے لوگ ٹوکری کی نظر ہوگئے۔ عمران ترکئی، آفتاب صدیقی، فیض اللہ کموکا، اقبال وزیر، علی زیدی، رمضان کھانچی، کریم بخش گبول، میاں عباد فاروق، ظہیر الدین، ڈاکٹر ہشام، ذوالفقار علی شاہ، محمود مولوی، اجمل وزیر، عمران شاہ، جے پرکاش، ہشام انعام اللہ، مبین خلجی، کتب فریجا، سلیم اختر لابر اور جلد ہی فواد چوہدری بھی۔ بس میدان الیکشن کیلئے صاف شفاف و سازگار ہونے کو ہے۔آئیے توجہ اخبارات کی سرخی کی طرف کئے دیتے ہیں۔ محکمہ پولیس نے اپنے 16ملازمین کو صرف عمران خان کی رہائی کی خبر پر مبینہ خوشی منانے کی پاداش میں برطرف کر دیا۔ سیاسی تعصب کا بڑھتا رجحان ایک دن سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا سیاست مکافاتِ عمل کا پڑاؤ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex