کالم

مقدس گائے

راناشفیق خان

نومبر 1989 کے شروع دنوں کی بات ہے، میں دہلی (بھارت) کے چاندنی چوک میں کھڑا ایک جلسہ سن رہا تھا۔ یہ جلسہ راجیوگاندھی کی مخالف (جنتا پارٹی) نے منعقد کیا تھا۔ پارٹی کے تمام بڑے رہنما موجود تھے، مگر لوگ فلمی اداکار ”شتروگھن سنہا“ کی تقریر سننے آئے تھے۔ جب ”سنہا“ نے تقریر شروع کی تو سٹیج کے بائیں طرف سے (جدھر ہم بھی کھڑے تھے) ایک پولیس والے نے دو گائے مجمع میں دھکیل دیں۔ جیسے ہی گائے مجمع میں گھسیں۔ ہلچل مچ گئی، سارا مجمع خراب ہو گیا، مگر کسی ایک شخص نے بھی دونوں میں سے کسی ایک گائے کو بھی ہاتھ نہیں لگایا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اپنے دہلی کے دوستوں سے کہا ”یہ کیا ہوا ہے؟ سارا مجمع ہل گیا، جلسہ خراب ہو گیا، مگر کسی نے ، کسی گائے کو ہاتھ نہیں لگایا“ تو انہوں نے جواباً کہا ”گائے ، ہندوؤں کے نزدیک ماں سے بھی بڑھ کر مقدس و محترم ہے، یہ تو اس کی پوجا کرتے ہیں۔ اس کو مارتے کیوں؟ بلکہ گائے کی وجہ سے مسلمانوں کا قتل عام کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔“ اس آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی کے بعد سمجھ میں آیا کہ ہمارے ہاں جو کہاجاتا ہے کہ ”کیا فلاں ادارہ مقدس گائے ہے۔”یا“ فلاں فلاں مقدس گائے ہیں کہ ان کے بارے میں کوئی کچھ نہ کہے؟“۔۔۔تو اس کہے ہوئے کا مطلب کیا ہوتا ہے!۔ آج کل پاکستان بھر میں یہی فقرہ تواتر سے کہا جا رہا ہے۔ کہ ”فلاں“ ادارہ یا اس ادارے کے چند افراد ”مقدس گائے “ تو نہیں کہ وہ جو چاہے کرتے رہیں، اور کوئی کچھ نہ کہے“….اس طرح کے تبصروں کو سن اور پڑھ کر ہمیں دہلی کا مذکورہ بالا واقعہ بار بار یاد آ رہا ہے۔ایک ہندو ڈاکٹر ”چندرا (Dr. Tricok Chandra) نے اپنی کتاب(The God of Creation)میں ”مقدس گائے“ کے بارے میں لکھا ہے۔ ”یہ کائنات ایک کھلا سمندر تھا، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا، اسی دوران ”برہما“ اور ”وشنو“ (ہندوؤں کے تین بنیادی دیوتا ہیں، شیو، برہما اور وشنو) کے درمیان اپنی اپنی عظمت اور بڑائی کا جھگڑا شروع ہو گیا۔ ”برہما“ نے دعویٰ کیا کہ ”میں دنیا کا خالق اور نگہبان ہوں، اس لیے میں بڑا ہوں۔“ جبکہ ”وشنو“ نے کہا ”میں ہر ایک شے کو تباہ کرنے والا ہوں، اس لیے کوئی میرا جوڑ نہیں۔“دونوں کی بحث اس حد تک بڑھی کہ نفرت و حقارت پیدا ہو گئی اور معاملہ جنگ تک پہنچنے کو ہو گیا۔ دونوں اپنی اپنی جگہ ایک دوسرے پر اپنا سکہ بٹھانے پر کوشاں تھے۔ اسی دوران دونوں کے درمیان ایک ”لنگا“ نمودار ہوا۔ جو بڑی چمک دمک والا، نہایت خوشنما تھا۔ یہ ”لنگا“ دیکھتے ہی دیکھتے بڑی تیزی کے ساتھ بڑھنے لگا، نیچے کی طرف پانی کی طرف بڑھ رہا تھا تو اوپر کو آسمان کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ”برہما“ اور ”وشنو“ اس کے کناروں تک پہنچنے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے۔ یکدم مقدس آسمانی آواز آئی۔ ” جو کوئی اس ”لنگا“ کے آغاز یا انتہا کو پالے گا، وہی دوسرے سے بڑا ہو گا۔ “ اب ”برہما“ گولک دیوتا کے آسمان کی طرف اوپر کو بھاگا۔
وہاں پہنچا تو اس کی ملاقات ”مقدس گائے“ سے ہوئی جس کا نام ”کامد ھینو“ تھا۔ برہما نے گائے کو بتایا کہ وہ شوجی کے لنگا کی انتہا دیکھنا چاہتا ہے۔ مقدس گائے نے کہا ”یہ تو ناممکن ہے“۔ چنانچہ برہما نے مایوس ہو کر فیصلہ کیا کہ ”وہ اپنی عظمت اور برائی کو منوانے کے لیے جھوٹ بولے گا کہ ”میں نے ”لنگا جی“ کی انتہا دیکھ لی ہے“ ادھر ”وشنو دیوتا“ کا حال یہ تھا کہ اس نے پانی کی گہرائیوں میں غوطہ لگایا تاکہ ”لنگا جی“کی ابتداءکا پتہ لگا سکے۔ پانی کی گہرائیوں میں اس کی ملاقات سانپوں کے دیوتا ”اننت“ سے ہوئی۔ (یاد رہے مقبوضہ کشمیر میں سرینگر کے بعد دوسرا شہر ”اننت ناگ“ ہے ناگ، پھنیر سانپ کو کہتے ہیں۔ ہندوؤںنے اس شہر کا نام اپنے سانپ دیوتا کے نام پر ”اننت ناگ“ رکھا، اب مسلمانوں نے اس کا نام ”اسلام آباد“ رکھا ہے۔( جب ”وشنو“ کی ”اننت“ سے ملاقات ہوئی تو اس نے ”وشنو“ سے کہا ”شوجی کے لنگا جی کی ابتدا¾ جہاں سے ہوئی ہے، وہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔“چنانچہ دونوں (برہما اور وشنو) ناکام رہے۔ برہما نے جھوٹ بولتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس نے لنگا جی کی انتہا¾ کو پا لیا ہے۔“ مقدس گائے (کامدھینو) نے سرہلاتے ہوئے برھما کے دعوے کی تصدیق کر دی۔ جبکہ ساتھ ہی اپنی دم ہلا کر برھما کے دعوے کی تردید بھی کر دی۔ وشنو نے صاف کہا ”میںناکام رہا ہوں۔“ اس پر ”شوجی“ ظاہر ہوئے اور کہنے لگے۔ ”وشنو نے چونکہ سچ کہا اس لیے اس کی پوجا عام ہو گی۔ برہما نے جھوٹ بولا اس لئے برہما پر لعنت ہے اور اس کی پوجا نہ ہو گی۔“ اسی طرح شیو جی نے ”مقدس گائے“ پر بھی لعنت کی، یہ اس لعنت کا ہی اثر ہے کہ اس کا اگلا حصہ (جس نے جھوٹ بولا) صاف نہیں، جبکہ پچھلا حصہ پوتر اور مقدس ہے۔ (کیونکہ اس نے سچ بولا تھا۔)ہندو ڈاکٹر ”چندرا“ مزید لکھتا ہے کہ ”شیوجی کے پجاری ہندو، گائے کی دم کے نیچے والی جگہ کو اسی لئے مقدس جانتے ہیں کہ اس نے برہما کے جھوٹے دعوے کی تردید کر کے سچ بولا تھا۔ اب چونکہ یہ جگہ مقدس ہے۔ اس لئے یہاں سے نکلنے والا موادبھی پاک اور پوتر ہے۔ یعنی گائے کا گوبر بھی پاک اور پیشاب بھی پوتر ہے۔“ہندو گائے کے تقدس کی وجہ سے اس تھڑے کو جہاںکھانا کھاتے ہیں اور جہاں کھانے پینے کے برتن، سامان، لسی کی چاٹی، پانی کا گھڑا وغیرہ رکھتے ہیںَ وہاں گائے کے گوبر میں پانی ملا کر پھیرتے ہیں۔ اسی طرح ہر وہ جگہ جہاں مسلمان (جنہیں متعصب ہندو ملیچھ کہتے ہیں) چلے جائیں وہاں بھی گائے کا گوبر پھیرتے ہیں۔ جنرل مشرف آگرہ مذاکرات کے لئے گئے تو دہلی میں مہاتما گاندھی کی سمادھی پر پھول چڑھانے بھی گئے تھے۔ ان کے وہاں سے واپسی پر ہندوؤں نے اس سمادھی کو گائے کے پیشاب سے دھو کر ”پوتر“ کر لیا تھا۔ اسی طرح ”گاؤ ماتا “ کے پیشاب کی بھری شیشیاں قیمتاً فروخت ہوتی ہیں۔مذکورہ بالا دیو مالائی قصے میں ”مقدس گائے“ کے سچ اور جھوٹ (یعنی دوہرے کردار) کی وضاحت ہے۔ ”مقدس گائے“ بیک وقت دوہرے کردار کے باوجود بھی مقدس اور ماں ہی ٹھہری ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں کی ہر ”مقدس گائے“ کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ ایک طرف قربانیوں کی داستان ہے تو دوسری طرف اقتدار کے معاملات جانبازی کی حکایت بھی اور سیاست شکنی کی واردات بھی۔ ”مقدس گائے“ کا اگلا حصہ کچھ اور بول رہا ہے اور پچھلا حصہ کچھ اور کہہ رہا ہے سامنے کچھ اور ہے اور پیچھے کچھ اور…. ”تقدس مآبوں“ کی تضاد بیانیاں اور تضاد کرداریاں جو ”طباق“ کے حسن صنعت سے لائقِ تعریف قرار پاتی ہیں، عام ہیں….!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex