کالم

مزدوروں کا عالمی دن اور آج کا مزدور

مرزارضوان

پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی مزدوروں سے اظہار یکجہتی اور ان کی خدمات کے اعتراف میں یکم مئی کو ”مزدور ڈے“کے طور پر منایا جاتا ہے،جس کا مقصد 1886ء میں شکاگو کے مزدوروں کی تاریخ ساز جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرنا ہوتا ہے،یہ شکاگو کے محنت کشوں کی صنعتی اجارہ دار طبقے کی من مانیوں کے خلاف فیصلہ کن تحریک تھی جس میں صنعتی مزدور کے اوقات کار کے تعین کا مطالبہ کیا گیا جس کی پاداش میں سینکڑوں مزدوروں کو اپنی جان کا نذرانہ دینا پڑا۔ آج جب کہ اس واقعہ کو ایک سو سنتیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، محنت کشوں کے حالات اور اوقات کار کے ضمن میں شکاگو کے ان جیالے شہیدوں کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جنہوں نے آگ اور بارود کے سامنے سینے تان کرکے گولیاں کھائیں اور شکاگو کی سڑکوں کو اپنے خون سے سرخ کر دیا۔ اگر مزدور اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے کی کوشش کرتے تو انہیں جبر و تشدد کے ذریعے خاموش کروا دیا جاتا کہ اقتدار و اختیار سرمایہ داروں کا ہمنوا تھا۔ اس مسلسل ظلم و استحصال نے مزدوروں میں متحد و منظم ہونے کا شعور بیدار کیا اور مزدور تمام تر جبر ظلم و ستم و رکاوٹوں کے باوجود مختلف تنظیمی صورتوں میں جمع ہونا شروع ہوگئے۔ استحصالیوں کو یہ عمل کسی صورت قبول نہ تھا اس لئے انہوں نے مزدوروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے۔ یورپ‘ جاپان‘ آسٹریلیا و امریکہ وغیرہ میں 1880ء ہی میں مزدور اپنے حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کر رہے تھے۔ 1882ء میں جاپان 1885ء میں ماسکو اور 1886ء میں فرانس میں ہونے والی مزدوروں کی ہڑتالیں اس بات کی غماز تھیں کہ مزدور مزید ظلم برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ اسی دوران امریکہ میں بھی محنت کشوں نے تین ہزار سے زائد ہڑتالیں کی جن میں ایک لاکھ سے زائد کارکنوں نے شرکت کی اور وقت کے فرعونوں کے محلات میں لرزہ طاری کر دیا۔ شکاگو میں مزدوروں کا پہلا جلسہ 17 اپریل 1886ء کو ہوا جس میں 21 ہزار مزدوروں نے شرکت کی۔ 25 اپریل کو ہونے والے جلسے میں مزدوروں کی تعداد 25 ہزار سے بھی زائد تھی، یکم مئی 1886ء کو اسی تسلسل میں مزدور رہنماؤں پارسنز اور اسکی بیوی لوسی کی قیادت میں 40 ہزار سے زائد مزدوروں نے شکاگو کی سڑکوں پر جلوس نکالا۔ میک کورمک فیکٹری میں اوقات کار کے تعین کیلئے ہڑتال ہوئی انتظامیہ نے اپنے پالتو غنڈوں کے ذریعے ہڑتالی کارکنوں پر تشدد کروایا۔ اسی د وران فیکٹری کے باہر کھڑے ہوئے معصوم مزدوروں پر پولیس نے گولیاں برسانا شروع کر دیں اور چھ مزدور موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ اس واقعہ کے خلاف 4 مئی 1886ء کو مزدوروں نے پرامن احتجاجی جلسہ کا انعقاد کیا جس پر پولیس نے بندوقوں کے منہ کھول دئیے اور 10 مزدوروں کو شہید کر دیا۔ امن کا سفید جھنڈا تھامے نہتے اور بے قصور محنت کشوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ سفید جھنڈا خون سے شرابور ہو کر سرخ ہوگیا جسے آج بھی محنت کش جدوجہد کی علامت کے طور پر مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ شکاگو کی سڑکوں پر بہنے والا یہ خون قید خانوں اور پھر پھانسی گھاٹ تک جا پہنچا۔ آٹھ بے نگاہ مزدور رہنماؤں کو گرفتار کیاگیا اور جرم ثابت کئے بغیر انہیں پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی کا پھندا چومنے والے عظیم مزدور رہنماؤں نے کہا۔ ”ہم خوش ہیں کہ ایک اچھے کام کیلئے جان دے رہے ہیں۔“اور تم ہمیں مار سکتے ہو مگر ہماری تحریک کو نہیں دبا سکتے“ اور تاریخ نے ثابت کیا کہ وہ تحریک دبی نہیں بلکہ اس میں مزید شدت آئی اور آج یوم مئی ظالم و مظلوم کے درمیان ایک شناختی لائن بن چکی ہے۔آج کا مزدور جن اوقات کار کو اپنا حق سمجھتا ہے اس کا تمام سہرا شکاگو کے شہیدوں کے سر جاتا ہے جن کی یاد میں یکم مئی کو محنت کشوں کے عالمی دن کی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وہ واقعہ تھا جس نے آجر اور اجیر کے درمیان مفادات کے تضادات کو شعور کی طرف گامزن کر دیا جو آگے چل کر طبقاتی شعور کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ جس کے اثرات نے نئے سماجی اور عمرانی نظریات کو پروان چڑھایا۔ مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کیلئے ٹریڈ یونین کا ادارہ قائم ہوا۔ محنت کشوں کی شعوری جدوجہد میں جن نظریات اور عقائد نے پرورش پائی اس کا سبب صنعتی پیداواری عمل کا وہ جبر تھا جن کے دباؤ کا براہ راست محنت کش کو سامنا تھا۔
ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی ”وڈیرے“بھی اس دن سے باخوبی آشنا ہیں بھلے ہمارا مزدور طبقہ اس تاریخی دن پر بھی اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے سخت گرمی کی چلچلاتی دھوپ میں روزگار کی تلاش اور اپنے بچوں کے سہانے خوابوں کو پورا کرنے کی آس لئے مارا مارا پھر رہاہوتا ہے یعنی اس دن ”مزدور“ سارے کام پر ہوتے ہیں اور ”افسر“سارے چھٹی پر۔۔۔ان سب افسران میں سارے تو خیر نہیں کچھ اس دن بھی گھر نکلتے ہیں مگر ٹھنڈے ترین کمروں میں صرف ایک آدھ گھنٹا بیٹھنے کیلئے اور اس دن کو منانے کیلئے، اس دن کی مناسبت سے کچھ تقرریں سنی اور کیں اور گھر باقی معاملات وہیں کے وہیں، مزدوروں کے حقوق کیلئے فلک شگاف نعرے، من گھڑت بیان بازی، بے تُکے وعدے۔۔۔ہم مزدوروں کیلئے یہ کردیں گے تو وہ کردیں گے، آنیوالے بجٹ میں بہت بڑی خوشخبری رکھی گئی ہے بھلا کون یقین کرے ایسی چکنی باتوں پر پھر مزدوروں کو کیا پتہ کہ آج ان کے حقوق کیلئے پوری دنیا میں ایک ایسادن منایا جارہاہے، ان تو بس اتنا علم ہے کہ وہ چاہے بیماری میں ہوں یا پھر کسی اور ”پرابلم“میں، وہ تو روزانہ کی بنیاد پر کہیں ”دیہاڑی“لگے گی اور وہ کچھ کماکر لائیں گے تو پھر ہی ان کا چولہاچلے گا ورنہ شاید ”فریز“کمروں میں سوئے ان”افسران“ یاپھر ہمارے ”سیاسی لیڈروں“ کو کیا علم کہ مزدور کے بچے آج پھر”بھوکھا“ سو رہے ہیں۔۔۔
آج تک سمجھ نہیں سکی کہ ہمارے ہاں مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر بڑی بڑی تقریبات منعقد کرنے سے بچارے ”مزدور“کو کیا حاصل ہوتا ہے اور کیا اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑنے والوں کو ان بلند و بانگ دعوؤں سے آج تک کیا ملاہے، ہر سال بجٹ میں مزدور کی تنخواہ میں معمولی اضافہ جبکہ ”مزدور“ کا خون نچوڑنے کیلئے آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی مہنگائی۔۔۔لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے ان لیڈران کو کب خیال آئے گا ہمارا ”مزدور“کس قدر پریشانی سے دوچار ہے اور اس کے بچے ساری زندگی مایوسیوں میں کیوں بسر کردیتے ہیں، کیا ”مزدور“ کے بچوں کے دل ودماغ میں ان ہائی پروفول عناصر کے ”ممی ڈیڈی“بچوں کی طرح خیال اورخواہشات جنم نہیں لیتی ہونگی،کیا ان کے بچوں کے خون کا رنگ ”مزدور“کے بچے کے خون کے رنگ سے نہیں ملتا۔۔۔؟ کیا اچھی تعلیم، اچھا ماحول اور روشن مستقبل ”مزدور“کے بچوں کے ہاتھوں کی لکیر اور دسترس میں نہیں ہوسکتا۔۔۔؟اور پھر کیا جن محنت و مشقت کی وجہ سے اس ”وڈیرے“اور ”سیٹھ“کے گھر کو ٹھنڈے کیا ہوا ہے وہ اس”مزدور“ کی روزانہ یا ماہانہ اجرت اس کی محنت کے مطابق بروقت ادا کررہاہے اگر ”مزدور“کو اس کا حق پورا اور بروقت ادا کیا جارہاہے تو پھر حالات بدلتے نظر بھی آنے چاہیں، مگر افسو س صد افسوس کہ ایسا نہیں ہورہا اور نہ ان ”وڈیروں“اور ”سیٹھوں“کو کوئی پوچھنے والا ہے۔۔۔ایک دن کی ان مختلف تقاریب میں مزدوروں کیلئے پیش کی جانیوالی تجاویز پر کون عمل کرے گا اور غریب و مزدور کو ان کا بنیادی حق کون دلائے گا، ہمارا مزدور طبقہ اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے اور کہاں تک کا سفر کرے گا، اور کب ان کے روشن مستقبل کی نوید ابھر کر سامنے آئے گی، اور کیا ہمارے ان ”وڈیروں“اور ”سیٹھوں“کو احساس ہوسکتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا”مزدور“کہاں کھڑا ہے جس کی بدولت ہم ”وڈیرے“اور ”سیٹھ“بنے بیٹھے ہیں، مزدوروں کے بنیادی حقوق دینے کیلئے ٹھنڈے کمروں میں صرف ایک دن بات کرلینا ہی کافی نہیں حقیقی اور عملی خدمات کرنا ہونگی،روزبروز بڑھتی مہنگائی نے غریب عوام بالخصوص”مزدور“کا جینا مزید دشوار کردیا ہے۔ اب اپنے حصے کی وسیع و عریض جائیداد اور دیگر بنک اکاؤنٹس میں سے کچھ نہ کچھ ہمیں ”مزدوروں“کو بھی دینا ہوگاتاکہ ہمارا ”مزدور“اور اس کے بچے بھی ہمارے شکرگزار ہوسکیں ان کے خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوسکیں۔۔۔صرف ایک دن کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئے، دعا ہے اللہ رب العزت ہمارے ”وڈیروں“اور سیٹھوں“سمیت حکمرانوں کو مزدوروں کیلئے عملی اقدامات کرنے کی فی الفور توفیق عطا فرمائے (آمین)۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex