کالم

سیاحت کے ثقافتی اثرات

پروفیسرعبدالشکورشاہ

ہرملک،ہرقوم،ہرعلاقے کی اپنی ثقافتی پہچان ہے اور اس کا تحفظ نا صرف وہاں کے باسیوں کا اولین فریضہ ہے بلکہ علاقائ انتظامیہ، ریاست اور بین الاقوامی اداروں کا بھی فرض ہے۔جب افراد کا آپس میں تعلق استوار ہوتا ہے، ثقافتی اثرات مرتب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ثقافت ایک ہمہ جہت اصطلاح ہے جو تقریبا شعبہ ہائے زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔زبان،رہن سہن،کھانا پینا،لباس و خوراک،طرز بودوباش،فن اور فن تعمیر،ادب اور معاشرت۔دنیا بھر میں سیاحتی علاقوں میں ثقافتی تبدیلیاں دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ تیزی سے وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ثقافتی تبدیلیوں کے بہت سے اسباب ہیں جن میں نقل مکانی،جنگ،باہمی تجارتی، معاشرتی وادبی اشتراک اورسیاحت قابل ذکرہیں۔ثقافتی تبدیلی سب سے پہلے زبان پر اثراندازہوتی ہے اور یہ تبدیلی عموما غیرمحسوس نوعیت کی ہوتی ہے صرف ماہرین زبان ہی اس کا اندازہ لگا پاتے ہیں۔اگرچہ پوری دنیا میں چند مقامی زبانوں کے کوئ زبان بھی لسانی تبدیلی سے محفوظ نہیں رہی۔سیاحت اپنی تمام تررنگینیوں کے باوجود سیاحتی علاقوں کی زبان پر اپنے پنجے گاڑھ رہی ہے۔یہی وجہ ہے اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا سیاحتی علاقوں کی مقامی زبانوں پر سیاحوں کی مادری زبان کی جھلک نظر آتی ہے اور یہ عمل دھیرے دھیری ایک نئے لسانی لہجے کو پروان چڑھائے گا جس کے نتیجے میں مقامی زبان کے مخدوش ہونے کے قوی امکانات ہیں۔رہن سہن کے انداز،گھروں کی تعمیر و تزین و آرائش،میل جول کے انداز و اطوار سب آہستہ آہستہ بدل رہے ہیں۔آج سے 20 پچیس سال پہلے لوگ بازوں کھول کر گلے لگ کر ملتے تھے(چھپی با/پا کے) اب ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔مقامی زبانوں پر پنجابی اور اردو کی چھاپ واضع نظر آتی ہے۔کھانے پینے کی مقامی ڈشیز بہت کم دستیاب ہیں ان کی جگہ آمیلٹ اور فاسٹ فوڈز نے لے لی ہے۔زمین یاچارپائی پر سونے کی ثقافت تقریبا ختم ہوچکی اسکی جگہ بیڈز اور میٹریس نے لے لی ہے۔سیاحت کی سب سے مضبوط اور تیزترین تبدیلی سیاحتی علاقوں کے ملبوساتی ثقافت پر نمودار ہوتی ہے۔چادر سرکتے سرکتے کندھوں تک آن پہنچی ہے،پراندہ کی جگہ کیچر نے لے لی ہے پہرن کو شرٹ نے مات دے دی ہے اور شلوار کی جگہ ٹرائوزرز اور جینز نے لے لی ہے۔بات صرف یہیں تک نہیں محدود ،جینز کی پینٹ اب آہستہ آہستہ سکڑنے کے ساتھ ساتھ پھٹتی جارہی ہے اور شرٹ سکڑتے سکڑتے اوپر کی طرف محوسفر ہے۔جہاں خواتین کا اکیلے آنا جانا قبیح تصور کیاجاتا تھا
اب عام سی بات بن چکی ہے۔سیاحتی علاقوں کے لوگ اب اپنی ثقافت کو بھول کر سیاحوں کے ملبوساتی انداز کو اختیار کررہے ہیں۔مضبوط اور طاقتورلوگوں کی ثقافت کمزور ثقافت پر اپنا رنگ جمانے لگتی ہے۔رہی سہی کسر موبائل اور انٹرنیٹ نے نکال دی ہے اب تو ہر گلی محلے میں ٹک ٹاکرز نظر آتے ہیں۔اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو سیاحتی علاقوں کی ثقافت مخدوش ہوجائے گی جس کے نتیجے میں ثقافتی نقصان تو ہوگا ہی ہماری سیاحت سے ملنے والی آمدن بھی کم ہوجائے گی۔یہ سیاحتی علاقوں کی انتظامیہ اور باسیوں کا فرض ہے وہ باہمی مشاورت سے ایسے اصول وضوابط مرتب کریں جن سےنا صرف سیاحتی علاقوں کی ثقافت کو تحفظ ملے بلکہ سیاحت بھی متاثر نہ ہو۔ملکی اور بین الاقوامی قوانین ہمارے ثقافتی تحفظ کے ضامن ہیں۔قانون آئین کی کتاب میں سے اچھل کر کسی سیاح کے لباس کو تبدیل نہیں کرسکتا اور ناہی ثقافتی تبدیلی کی راہ میں چوکی بنا کر پہرہ دے سکتا ہے یہ ہماری ذمہ داری ہے ہم انتظامیہ سے اپنی ثقافتی تحفظ کے قوانین کو لاگو کروائیں۔مقامی افراداور انتظامیہ کا باہمی تعاون اس ثقافتی یلغار کو روک سکتا ہے۔اگر ہم نے ان ثقافتی اثرات پر بروقت اور فی الفور توجہ نہ دی تو چندسالوں بعد سیاحتی علاقے شہروں کا روپ دھار جائیں گے۔ہم ہمدردی،پیار،محبت،لگاو،خوشی غمی میں شریک ہونا،باہمی میل جول اور بےبشمار دیگر سنہری روایات سے پہلے ہی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اب ہمیں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ورنہ باقی ماندہ چند انمول روایات بھی ختم ہوجائیں گی۔سول سوسائٹی،وکلاء، اساتذہ اور طلبہ تنظیمیں،صحافی برادری اورسوشل ایکٹیویسٹس باہمی مشاورت سے سیاحوں کے لیے ہدایات مرتب کریں اور ان پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔اس سے نا صرف ہماری مقامی ثقافت کو تحفظ ملے گا بلکہ سیاح ہمارے خطے کا مثبت امیج لیکر واپس جائیں گے۔سیاحوں کے عجیب و غریب فیشنز کی وجہ سے مقامی سطح پر پائی جانے والی تشویش میں بھی کمی واقع ہوگی بصورت دیگر یہ تشویش کسی پیچیدگی کا سبب بن کر انتظامیہ کے لیے مشکل پیداکرسکتی ہے۔ثقافتی پہلو کے ساتھ سیاحتی مقامات کے حسن و خوبصورتی کے پہلو پر بھی توجہ دی جائے۔استعمال شدہ اشیاء پھینکنے کے لیے انتظامیہ کوڑا دان لگوائے اور مقامی افراد بہت شائستگی اور پیارومحبت کے ساتھ سیاحوں سے درخواست کریں کہ وہ استعمال شدہ چیزیں ان کوڑا دانوں میں ڈالیں۔روائیتی کھانوں اور ملبوسات کی ترویج کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔انٹری پوانٹس پرسیاحوں کوہدایات نامہ دیا جائے اور خلاف ورزی کرنے پر وارننگ دی جائے اور دوبارہ خلاف ورزی پر جرمانہ کیاجائے۔سیاحوں اور ہوٹلز، گیسٹ ہائوسسز، ریسٹ ہائوسسز کو اونچی آواز میں موسیقی لگانے اور کھلی جگہ پر ناچ بھنگڑوں سے منع کیا جائے اور خلاف ورزی کرنے پر انہیں جرمانے کیے جائیں۔سیاحوں کے طعام و قیام کے لیے جگہ کا تعین مقامی آبادی سے ہٹ کر کیا جائے تاکہ مقامی خواتین کی نقل وحمل متاثر نہ ہو اور ناہی ان کے ناچ گانے سے مقامی آبادی کو کوفت کا سامنا کرنا پڑے۔اس مسئلے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے عملی اقدامات کے لیے قدم بڑھائیں اور سیاحتی علاقوں کی مقامی ثقافت کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex