کالم

سوڈان کی جنگ کے اثرات

میمونہ حسین

اس وقت سوڈا ن کی جنگ سے نقصا ن صرف سوڈان اور خمیازہ سوڈان کے شہریوں کو ہی نہیں بلکہ اس کے اثرات سوڈان کی سرحدسے باہر قریبی ممالک بھی اثر انداز ہونگے۔اقتدار پر دو جنرلز کے درمیان جاری جھڑپوں نے سوڈان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے جبکہ افریقی ملک میں پیدا ہونے والے بحران کے اثرات اس کی سرحدوں سے باہر بھی جانے کا خدشہ ہے۔
سوڈان میں موجود جنگ کو اگر میں خانہ جنگی کا نام دوں تو غلط نہ ہو گا کیونکہ سوڈان میں وجہ جنگ کوئی بیرونی طاقتوں کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے اپنے ہی ملک کے محافظوں نے ہی ملک کو یوں تباہی کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے ۔سوڈان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرھان اور ریپڈ سپورٹ فورسز(آر ایف ایف) کے سربراہ جنرل محمد حمدان دقلو حالیہ تنازع کے دو فریق ہیں ۔سوڈان کا اقتدار سھنمبالنے کے لیے ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوے والے یہ جنرلز دو سال قبل تو ایک دوسرے کے اتحادی تھے انہوں نے مل کر اکتوبر 2021 میں تین دہائیوں تک سوڈا ن جاری جھڑپیںایک طویل خانہ جنگی کی شکل بھی اختیار کر رہی ہے ۔اس اقتدار کی لڑائی میں جاری جنگ کے نتائج سوڈان کے لیے بھیانک ثابت ہو سکتے ہیں اس جنگ کے نتیجے میں ملک عرب اور افریقی حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔
کسی بھی ملک کی لڑائی کبھی بھی صرف اُس ملک تک محدود نہیں رہتی کیونکہ کشیدگی کے دوران علاقائی اور بین الاقوامی فریق بھی اپنے اپنے مفادات کے تحفظ میں ایک سے شریک ہوتے ہیں ۔علاقائی سرمایہ کار اور بین الاقوامی انویسٹرز کشیدہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے تیزی سے اپنی انویسٹمنٹ نکال کے کسی دوسرے ملک میں شفٹ ہونے کی کرتے ہیں جہاں ہی وہ خود کو اور اپنے اثاثوں کو محفوظ سمجھیں اس طرح کے عمل سے اُس ملک کی اکانومی بری طرح متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی زندگی بھی بری طرح متاثر ہو کر رہ جاتی ہے صورتحال ایسی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کو بھی پورا کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔
اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ موجو دہ سوڈان کی جنگ کا اس کے ہمسایہ ممالک پہ کیا اثرات پڑیںگے۔ سوڈان رقبے کے اعتبار سے بر اعظم افریقہ کا تیسرا بڑا ملک ہے دریائے نیل کے ایک کنارے پر وسیع علاقہ سوڈان میں شامل ہے۔سوڈان کے خطے میں دیگر بڑے ممالک ایتھوپیا اور مصر بھی شریک ہیں ۔مصر اپنی 10کروڑ آبادی سے زائد آبادی کی ضروریات کے لیے نیل کے پانی پہ انحصار کرتا ہے۔
سوڈان کی سرحد دیگر پانچ ممالک سے ملتی ہے جن میں لیبیا،چاڈ،سینٹر افریقن ری پبلک،ایریٹیریا اور جنوبی سوڈان شامل ہیں ۔جنوبی سوڈان 2011میں سوڈان سے علیحدہ ہوا تھا اس تقسیم کے نتیجے میں خرطوم کے 75%تیل کے ذخائر بھی جنوبی سوڈان کے پاس چلے گئے تھے۔سوڈان کے تمام ہی ہمسایہ ممالک داخلی تنازعات کا شکار ہیں جہاں کئی مسلح گروپس سرگرم ہیں۔
دوسری جانب روس اور سوڈان کے تعلقات بھی بہت قریبی رہے اس تعلقات کو بہت سی مظبوط طاقتیں برداشت نہیں کر پاتیں ۔روس بہت عرصے سے پورٹ سوڈان میں بحری اڈہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے ۔بحیرہ احمر میں یہ بندرگاہ پورپ کے لیے جانے والی توانائی کی کھیپ کے راستوں پر انتہائی اہم مقام واقع ہے۔روس یہاں ایسا بحری اڈہ قائم کرنا چاہتا ہے جس میں چار جہاز اور کم از کم 300اہلار رکھنے کی گنجائش شامل ہو۔اس وقت سوڈان کی جنگی صورتحال سے سب کچھ غیر محفوظ ہو چکا ہے۔یہاں تک کہ عید الفظر کے موقع پہ جنگ بندی پہ قائم رہنے کے باوجود تواتر جنگ رہی۔
سوڈان کی جنگ میں مغربی ممالک کا رد عمل ہے اور اس سارے معاملات میں اُن کی خاموشی کے پیچھے کچھ تحفظات اور خدشات بھی جنم لیتے ہیں۔سوڈان کو عالمی سطح پر 1990کی دہائی میں اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی وجہ سے بدنامی کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کے بعد 2000کی دہائی میں مغربی دارفور میں پیدا ہونے والی صورت حال کی وجہ سے سوڈا ن کی عالمی تنہائی میں مزید اضافہ ہوا۔
امریکہ نے 2020میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر سوڈا کو دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والی ریاستوں کی فہرست سے نکال دیا تھا ۔پھر 2021کی فوجی بغاوت کے بعد امریکہ نے کئی ارب ڈالر کے قرضے اور امداد روک دئیے تھے۔یوکرین جنگ کے آغاز اور عالمی معاشی بحران کی وجہ سے بھی سوڈان کی معشیت تیزی سے گراوٹ کا شکار ہوئی اور موجودہ صورتحام کے بعد تو مزید حالات سنگین ہونگے۔
سوڈان کی موجودہ جنگ کی وجہ ایک تو اقتدار اور دوسرا معدنی ذخائر کا کنٹرول ہے۔اقتدار کے لیے سوڈان کی فوج کے سربراہ عبدالفتاح البرہان کے مقابل جنر ل دقلو دار فور اونٹوں کے گلہ بان رہے ہیں ،ان کے پاس مویشیوں کے بڑے ریورڑ اور سونے کی کانیں ہیںان کے لیے یہ رائے رکھی جاتی ہے کہ یمن میں ایران نواز گروپوں کے خلاف افرادی قوت فراہم کرنے کے عوض انہیں خلیجی ممالک سے بھاری معاوضہ ملتا ہے۔
اس موجودہ لڑائی میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ درکار وسائل بھی تنازع کا شکار ہوں کیونکہ ساری جنگ کی وسائل اور اقتدار ہی کی تو ہے۔سوڈان کی فوج اسمگلنگ کے راستوں اور سونے کی کانوں کا کنٹرول سھنمبالنا چاہے گی اس کے مقابلے میں پورٹ سوڈان سے خرطوم تک کے اہم تجارتی راستے آر ایس ایف کا ہدف ہونگے۔
اس لڑائی میں سوڈان کے پڑوسی ممالک کو ایک خطرہ یہ بھی لاحق ہو رہا ہے کہ یہ ملک روس اور امریکہ کے درمیانی علاقائی مقابلے کا میدان بن سکتا ہے۔اقوام متحدہ کے پباہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر اور ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا کہ سوڈان کے ہمسائے چاڈ کے اندر سرحد کے ساتھ تقریبا 10ہزار سے 20ہزار تک لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے۔
اس لڑائی سے قبل بھی سوڈان کے تقریبا ایک چوتھائی لوگوں کو شدید بھوک کا سامنا تھا۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق طبی مراکز کو ادویات کی قلت،اور طبی ماہرین کی کمی کا بھی سامنا ہے،جس کے لیے ابھی تک کوئی اقدام نہیں اس کے علاوہ علاقے میں بجلی اور ایندھن نہ ہونے کی صورت کئی آپریشن ملتوی بھی کرنا پڑے۔
اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب اور دیگر برادر ممالک نے شہریوں کے انخلا کا انتظام شروع کیا ہے۔سوڈان میں جاری لڑائی ہر گزرتے دن کے ساتھ ذیادہ مسائل کو جنم دے گی ،خصوصی طور پہ علاقائی لوگوں کو مسائل سے نکالنا آسان نہیں ہو گا۔اس لڑائی کو روکنے کا واحد حل مذاکرات اور ٹیبل ٹاک ہی ہے ۔
اس مسائل کو حل کرنے کے لیے کچھ ممالک کو ثالثی کردار ادا کرنا پڑے گا۔ثالثی کردار ادا کرنے کے لیے امریکہ،اقوام متحدہ،پورپی یونین اپنا بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں اگر یہ لڑائی جاری رہی تو سوڈان اپنے ساتھ ساتھ اپنے ہمسایہ ممالک کے لیے بھی بہت سے مسائل پیدا کر دے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex