کالم

ریٹائرمنٹ کے بعد؟

رائو منظر حیات

ایک بڑے صاحب نے اپنے ایک جونیئر ماتحت کو نوکری سے برخاست کر دیا۔ کوئی پندرہ برس پہلے کا ذکر ہے۔ بڑے صاحب‘ حد درجہ سخت گیر اور طاقتور انسان تھے۔ لوگوں سے ہاتھ بھی کم ہی ملاتے تھے۔ تنی ہوئی گردن اور مسکراہٹ کے بغیر چہرہ‘ ہر دم اپنے ماتحتوں پر غصہ فرماتے تھے۔انھیں دفتر آتے دیکھ کر اسٹاف کی اکثریت ادھرادھر ہو جاتی تھی کہ صبح کی ڈانٹ سے بچ سکیں۔ صاحب کلین شیو تھے۔ یعنی داڑھی مونچھ کے بغیر۔ کوئی چھ برس پہلے ریٹائر ہوئے۔اس کے بعد تین برس کے لیے ایک اور سرکاری نوکری پر براجمان رہے۔ اور آج سے ٹھیک تین برس پہلے لاہور کی ایک پوش آبادی میں منتقل ہو گئے۔ شروع شروع میں ملنے والوں کی معقول تعداد تھی۔ پھر گھٹتے گھٹتے حد درجہ کم ہوتی چلی گئی۔ موصوف سے دن ذرا مشکل سے گزرتا تھا۔
لہٰذا ‘ شام کو واک کرنے کا معمول بنا لیا۔ عجیب اتفاق یہ کہ بڑے صاحب نے اپنے جس اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو برخاست کیا تھا۔ وہ بھی اسی پارک میں سیر کرتا تھا۔ سرکاری نوکری سے نکلنے کے بعد چھوٹا سا کاروبار شروع کیا ۔ اور خدا کے فضل سے پھلنا پھولنا شروع ہو گیا۔ وہ خاصا متمول ہو گیا۔ ستم دیکھیئے کہ دونوں‘ یعنی بڑے صاحب اور ان کے ہاتھ سے نوکری سے نکلنے والا شخص ایک ہی وقت میں ‘ اس پارک میں سیر کرتے تھے۔بڑے صاحب کا نام انور رکھ لیتا ہوں۔ اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا نام قدرت لکھ دیتا ہوں۔ یہ دونوں فرضی نام ہیں۔ قدرت صاحب نے ایک دن مجھے فون کیا کہ وہ ملنا چاہتے ہیں۔ مقررہ وقت پر دفتر تشریف لے آئے۔ قدرت نے آتے ہی کافی منگوائی۔ دس منٹ کی پرسکون خاموشی کے بعد کہا کہ ڈاکٹر صاحب ‘ یہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارے سینئر افسروں کو کیا ہوجاتا ہے؟ ان کی تو جون ہی بدل جاتی ہے۔میرے پلے کچھ بھی نہ پڑا۔ کیا بات ہوئی! خیر تو ہے۔ قدرت نے حد درجہ اعتماد سے واقعہ بتانا شروع کیا۔ شام کو پارک میں واک کر رہا تھا کہ ایک باریش انسان نے روک کر مجھے گلے سے لگا لیا۔ لمبی سفید چمکتی ہوئی داڑھی‘ ماتھے پر محراب کا نشان‘ کرتے شلوار میں ملبوس تھے۔ شلوار ٹخنوں سے کافی اوپر تھی۔ قدرت‘ اس شخص کو بالکل نہ پہچانتا تھا۔باریش انسان فرمانے لگے کہ قدرت صاحب دنیا مکمل طور پر فانی ہے۔ ہمیں ایک دوسرے سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ لوگوں کے لیے آسانیاں فراہم کرنی چاہیں اور بس آنے والی زندگی کی فکر کرنی چاہیے۔ قدرت کو آواز جانی پہچانی لگی۔ سوال کیا کہ حضرت آپ کون ہیں۔ اور میرا نام کیسے جانتے ہیں۔ انور ہوں اور آپ جیسے اچھے افسر میرے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ آپ تو سرکاری کام میں حد درجہ ملکاں رکھتے تھے۔قدرت نے حد درجہ احترام سے کہا کہ آپ وہی تو نہیں ہیں۔ جنھوں نے مجھے نوکری سے نکالا تھا۔ انور صاحب کا جواب تھا کہ بس مجھے آپ کے کولیگز نے بہت بھڑکایا تھا۔ اور آپ کے متعلق شدید غلط فہمی ہو گئی تھی۔ قدرت نے اس سے صرف یہ کہا کہ جناب آپ کی وجہ سے مجھے بہت زیادہ دنیاوی تکلیف ہوئی تھی۔بہر حال اللہ بے نیاز ہے۔ اس نے مجھے‘ اوقات سے زیادہ نوازا ہے۔ یہ کہہ کر‘ اس نے انور صاحب سے ہاتھ ملایا اور پارک سے نکل آیا۔ اس نے پارک میں سیر کا وقت ہی تبدیل کر لیا تاکہ انور صاحب سے اتفاقیہ ملاقات بھی نہ ہو۔ قدرت نے مجھ سے سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب ہمارے دبنگ ترین افسروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ہو جاتا ہے۔ان کا غصہ‘ رعب دبدبہ اور تکبر منٹوں میں کیسے غائب ہو جاتا ہے۔ یہ اتنے حلیم۱ الطبع کیونکر بن جاتے ہیں۔ اور پھر یکدم حددرجہ مذہبی کیوں نظر آنے لگتے ہیں۔ وہ شخص جس نے میرا کیرئر تباہ کر ڈالا۔ آج اتنا میٹھا کیسے بن گیا۔ میرے پاس قدرت کی کسی بات کا
کوئی جواب نہیں تھا۔غور سے دیکھیے تو بڑے سے بڑا افسر بھی اکثر اوقات ریٹائرمنٹ کے بعد مکمل طور پر تبدیل سا ہو جاتا ہے۔ تلخی کی جگہ حد درجہ انکساری آ جاتی ہے۔ جہاں بھی اپنے کسی جونیئر کو ملے تو بڑی چاہ اورتپاک سے ملتے ہیں۔ اکثر اوقات تو ہاتھ ملاتے ملاتے گلے لگ جاتے ہیں۔یہ سب کچھ کیا ہے اور کیوں ہے۔ سب سے پہلے طالب علم کے طور پر اپنی بات عرض کروں گا۔ ریٹائرہوئے تین برس ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد ذاتی کاروبار شروع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حد درجہ برکت اور وسعت عطا فرمائی ہے جو سہولتیں سرکاری زندگی میں خال خال ہی ملتی ہیں۔ خدا کے فضل سے دستیاب ہیں۔ مولا نے میرے اوپر ہر کرم فرمایا ہے۔ دن میں آٹھ سے تیرہ گھنٹے کام بھی کرتا ہوں۔نفیس دفتر بھی موجود ہے۔ سرکاری نوکری میں جن جن افراد نے میرے ساتھ عداوت کا رویہ رکھا ۔ ان کے نام تک بھول چکا ہوں۔ اس لیے کہ خدا نے دست غیب سے آگے بڑھنے کا راستہ متعین کیا ہے۔ بہرحال اپنی بات بالکل نہیں کرنا چاہتا۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ افسران کی واضح اکثریت ریٹائر منٹ سے تھوڑا پہلے ‘ سیاست دانوں اور مقتدر طبقے کے سامنے ایڑیاں رگڑنی شروع کر دیتی ہے تاکہ کوئی ترنوالہ والی نوکری مل جائے۔جہاں سہولتیں ہی سہولتیں ہوں۔ وہ یہ ایکسٹینشن حاصل کرنے کے لیے ہر سطح پر گرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اور اس میں کسی قسم کی کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ کچھ نہ بن سکے تو خشک نوکری حاصل کرنے کے لیے بھی جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔چند پسندیدہ لوگوں کو لقمہ تر مل جاتا ہے۔ باقی ‘ گاڑی اور ادنیٰ سے دفتر کے لیے زندگی وار دیتے ہیں۔ مگر ایک حد درجہ اکثریت بھی ہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد‘ دوسری نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ان میں چند لوگ جعلی شاندار ماضی کو یاد کرتے کرتے‘ اپنے کمرے تک محدود ہو جاتے ہیں۔عجیب سا چڑچڑا پن ان کی شخصیت میں داخل ہو جاتا ہے۔ حالات ‘ واقعات کو کوستے کوستے چند سال بعد رزق خاک بن جاتے ہیں۔ ان کے فون کی گھنٹی بہت کم ہی بجتی ہے۔ کیونکہ کوئی انھیں یاد نہیں کرتا۔ زندگی کے یہ چند سال‘ ان کے لیے زہر قاتل ہوتے ہیں۔ بہرحال ایسے ریٹائرڈ افسران آپ کو کبھی کبھی ‘ کہیں مل ہی جاتے ہیں۔ اور یہ بڑی سفلی محبت سے ملتے ہیں۔
اس قبیل سے آگے نکلیے۔ ہاں یاد آیا ۔ ایک جابر افسر کے متعلق چند ہفتے پہلے ان کے ایک عزیز نے بتایا کہ وہ کئی کئی ہفتے اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلتے۔ بہر حال اب دوسری قسم کے ریٹائرڈ افسران کی عرض کرتا ہوں۔ یہ یک دم حد درجہ مذہبی لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ویسے اللہ کی مرضی ہے کہ کب ‘ کس کو ہدایت دے ڈالے۔ مگر یہ مخصوص لوگ ‘ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد یک دم اتنے مذہبی سے ہو جاتے ہیں کہ انسان حقیقت میں حیران ہو جاتا ہے۔ اپنا حلیہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ مسجد ‘ جہاں پہلے خال خال ہی جاتے تھے۔اس کی صفائی ستھرائی تک کا خیال کرتے ہیں۔ ذاتی طور پر یہ قبیل اپنی سرکاری زندگی میں ہر برا کام ‘ بڑے آرام سے کرتے رہے ہیں۔ ان کی جعلی انکساری ‘ ریٹائرمنٹ کے بعد ہی نمودار ہوتی ہے۔
میرے ایک دوست‘ چوہدری صاحب کا خیال ہے کہ اس قبیل کے لوگ اپنی زندگی میں اپنے کولیگز کے ساتھ ہر سرکاری زیادتی فرماتے رہے ہیں۔ان کے شعور میں اس کا رد عمل یعنی Guilty انھیں سکون سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ افسروں کی ترقی اور پوسٹنگ میں یہ اتنی سفاکی برتتے تھے کہ ان کے اندر احساس محرومی زندہ سانپ کی طرح انھیں ڈستا رہتا ہے۔ اس رد عمل کو کم کرنے کے لیے اور اپنی سابقہ حرکتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ مذہب کو ایک ڈھال بنا کر استعمال کرتے ہیں۔ریٹائرڈ افسروں کی ایک اقلیت‘ ذاتی کام شروع کرتی ہے۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ وہ اکثر بھرپور طریقے سے سپھل ہو جاتے ہیں۔ ویسے یہاں ایک قسم کے افسروں کا ذکر ضرور کرنا چاہوںگا۔ یہ لوگ اپنی سرکاری نوکری کے طویل دورانیے میں ماتحوں اور عام لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ان پر ریٹائرمنٹ کا بہت کم اثر پڑتا ہے۔ ان کی خوشبودار شخصیت کے اردگرد‘ دوستوں کا جمھگھٹا لگا رہتا ہے۔ نوکری کے بعد یہ مزید صحت مند ہو جاتے ہیں۔ واک کرتے ہیں۔ خوب ورزش کرتے ہیں ۔ اپنی زندگی کو حد درجہ فعال طریقے سے گزارتے ہیں۔ان کی طویل عمری کا اصل راز‘ ان کی لوگوں سے یگانگت اور حسن سلوک ہے۔ جو قدرت انھیں اپنی طرز پر واپس کر رہی ہوتی ہے۔ آپ جب بھی ان سے ملیں‘ وہ اسی مسکراہٹ اور اپنائیت سے ملیں گے‘ جس طرح انھوں نے تمام سرکاری زندگی بتائی ہے۔دراصل سرکاری زندگی ایک بہت بڑے جنگل کی طرح ہے جس میں ہر طرح کے جانور دستیاب ہوتے ہیں۔ کچھ دوسروں کو چیر پھاڑ کر کے شاد ہوتے ہیں اور کچھ ڈال ڈال پر خوبصورتی بکھیرتے زندگی گزار دیتے ہیں۔ اب یہ سرکاری افسر کی مرضی ہے‘ کہ وہ کونسا راستہ چنتا ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex