کالم

دشمن کی عید

سہیل کوثر

میرا قلم آج جس کرب کے ساتھ یہ کالم کے الفاظ لکھ رہا ہے اس کا اندازہ ہر وہ پاکستانی لگا سکتا ہے جو اس ملک سے پیار کرتا ہے۔ مسلمانوں کی عید تو آج سے چند ہفتے پہلے ہوئی ہر چہرہ پر مسرت سب اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنے ماں باپ کے ساتھ آزادی سے اپنے گھروں میں خوشیاں منا رہے تھے لیکن آج 9 مئی ہماری نہیں پاکستان کے دشمنوں کی عید تھی کیوں نہ ہو کیونکہ ہم نے خود ہی ان کو موقع دیا ہے آپس کی نااتفاقی سے آپس کی ہٹ دھرمی سے آج دشمن عید کی خوشی کی طرح خوشیاں منا رہا ہے کہ وہ پاکستانی عوام یہاں میں پاکستانی عوام کا لفظ اس لیے تحریر کر رہا ہوں کیونکہ لفظ قوم کی معراج تک ابھی ہم نہیں پہنچ سکے، پاکستانی عوام کے کردار سے دلی دکھ اور افسوس ہوا کہ ہم نےاپنی اس فوج کو جانی مالی نقصان پہنچایا ہے جس کے بل بوتے پر آج پاکستان میں ہم سکون کی نیند سوتے ہیں کیا ہمارا اپنی فوج اور پولیس کے لئے صرف توڑ پھوڑ جانی حملے کرنا ہی رہ گیا ہے کیا ہم صرف اس طرح سے ہی ایک قوم بننے نکلے ہیں کیا آج ہم اس تبدیلی کے خواہاں ہیں پاکستانی فوج ہے تو آپ ہیں۔
یہ سارے سیاستدان جو اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں جو اپنے مفاد کے لئے اپنے سب سے طاقتور ادارے فوج کو بھی نقصان پہنچانے کے درپے ہیں خدانخواستہ اگر آج فوج دو حصوں میں بٹ گئی تو ملک تو پہلے ہی کئی قوموں میں تقسیم ہو چکا ہے کہیں کوئی بلوچی ہے کہیں کوئی پٹھان ہے کہیں کوئی پنجابی ہے اور کہیں پر کوئی ایسی نئی قوم بنا کر بیٹھا ہوا ہے اس موقع پر اگر دشمن نے اپنی کوئی چال دی تو ہماری سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے دوسری طرف اگر ہم پاکستانی سیاست کی طرف چلیں تو یہاں بھی ایک المیہ ہے کہ اس ملک کے سیاستدان سیاست میں آنے سے پہلے فوج میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرتے ہیں اور الیکشن جیتنے کے بعد ان ورکروں کو نظر انداز کرکے اعلیٰ پوسٹوں پر انہیں ریٹائر فوجی افسروں کو لگاتے ہیں کہ ان کے پاس شاید سویلین میں کوئی اس قابل نہیں ہوتا کہ ان کو اس پوسٹ پر صرف ریٹائر فوجی افسر ہی لگایا جاتا ہے آج کوئی بھی پولیس افسر یا کسی بھی بڑے ادارے کا سربراہ سویلین نہیں فوجی ریٹائرڈ آفیسر ہیں یہی سیاستدان جب اقتدار میں آتے ہیں تو فوج میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور یہ عوام ان کے پیچھے لگ کر کر اپنے ملک اور اپنے طاقتور اداروں کو بھی کمزور کرنے پر درپے ہو جاتی ہے جس طرح کے 9مئ کے واقعہ میں دیکھنے کو ملا گزشتہ دنوں میں جیل روڈ پر جب میں اپنی صحافتی ذمہ داریوں نبھا رہا تھا تو ہمارے ہی کچھ پاکستانی اپنے ہی ٹیکسوں سے بنی ہوئی پولیس کی گاڑیوں فوجی گاڑیوں اور عمارتوں کو آگ لگا رہے تھے اور کچھ سول لباس میں فوجی بھائی وہاں سے سروس ہوسپٹل میں جانے کے لیے راستہ مانگتے نظر آئے کہ ہم نے آپ کے لیے سرحدوں پر اپنی جان کا نذرانہ دیا ہے آج میری ماں ہاسپٹل میں ہے میرا راستہ دیکھ رہی ہے اور مجھے راستہ دینے کی بجائے میری جان کے دشمن بنے ہوئے ہو ایک فوجی گاڑی میں آٹھ فوجی جوان بیٹھے صرف اپنی عوام اپنے بھائیوں کی صورت دیکھ رہے تھے کہ ہم کیا کریں ان کے پاس جدید اسلحہ جو کے ایک وار میں پچیس بندوں کو مار سکتا تھا لیکن ان کے الفاظ تھے کہ ہمیں اپنی عوام پر گولی چلانے کا نہ تو حکم ہے اور نہ ہی ہمارا ضمیر گوارا کر رہا ہے طاقت ہونے کے باوجود سلام ہے ان فوجی بھائیوں پر جنہوں نےگاڑی سے اتر کر نہ ان کے سامنے کھڑے ہوئے اور نہ ہی ان کو کوئی نقصان پہنچایا اس کے برعکس یہ تبدیلی کے پروانے ان فوجی گاڑی کی چابی نکال کر اپنی بہادری کا مظاہرہ کیا۔
کیا بطور پاکستانی ہم نے اپنی افواج سے یہی سلوک رکھنے کے لیے پاکستان بنایا ہے کہ ہم اپنے افواج کی ان قربانیوں کو بھول چکے ہیں جب 1965 میں ہندوستان نے رات کے اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کر دیا تھا ہزاروں ماؤں کے لال اس وقت اپنی ازدواجی زندگی میں مصروف تھے جن میں کئی افواج پاکستان کے جوان ایسے بھی تھے جن کی ابھی چند گھنٹے پہلے شادی ہوئی ہوگی لیکن جب پاکستان کی سرزمین پر دشمن میلی نظر ڈالیں تو اپنی چند گھنٹوں پہلے کی دولہن کو چھوڑ کر محاذ پر جا پہنچے جن کے ہاتھوں سے ابھی مہندی کا رنگ نہیں اترا تھاان شیر جوانوں کی ماؤں بہنوں کے ارمان پورے نہیں ہوئے تھے کہ وہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے سرحدوں پر جا پہنچے کہ آج انہیں بہنوں کے ساتھ ساتھ ان فوجی جوانوں کی قربانیوں کی بدولت کیا آج پاکستان قائم نہیں ہے کیا یہ حکم قربانی ہے کہ کوئی دلہن اپنے دولہا کو پہلی ہی رات محاذ پر جانے کی اجازت دے دی کیا یہ کم قربانی ہے۔ کارگل کا محاذ ہو چاہے وہ میرانشاہ کا علاقہ ہو یا سوات کے اندر غیر ملکی دہشت گرد ہوں یہ پاک فوج ہی تھی اور ہے جنہوں نے اندر کے گند کے ساتھ دشمن کو بھی جہنم رسید کر دیا کہ ہم بھول گئے کہ میجر عزیز بھٹی کئ دن تک واہگہ بارڈر پر بھوکے پیاسے اس زمین اور اپنی قوم کے لئے سیسہ دیوار بنے کھڑے رہے اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس پاکستان کی حفاظت کی اور بل آخر جام شہادت نوش کیا ہم ایک ایسے گروہ کے بہکاوے میں آکر اپنی ہی فوج کو برا کہنے اس کو پتھر مارنے پر اتر آئے۔9 مئی کے واقعہ میں کیا پاک فوج نے پتھر کھانے کے بعد کسی بھی اپنے شہری پر تشدد کیا. کیا۔ ہم نے ایک یادگار مجسمہ جو اس کی بہادری کی گواہی تھی اس کو توڑ کر اس کی اس قربانی کو داغدار کر دیا اس، میجر شیر خان کی میت جب پاکستان لائی گئی تو اس کی جیب سے دشمن کی فوج کے کمانڈر کا ایک رقعہ تھا کہ میں چاہے دشمن لیکن مجھے فخر ہے کہ میں ایک بہادر فوج کے بہادر جوان کے ساتھ لڑا اور اس نے بہادری کی مثال قائم کی اس کے انعام میں حکومت پاکستان کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ اس میجر شیر خان کو پاکستان ملٹری کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر سے نوازا جائے میں یہاں باور کروانا چاہتا ہوں کہ یہ دشمن کی گواہی ہماری بہادر فوج کے لیے تھی ۔ جناب چیف صاحب مجھے آپ سے اور پورے پاکستانی قوم سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں کہ آپ اس فوج کے سپہ سالار ہیں جنہوں نے نعمت اللہ شاہ ولی سرکار کی 850 سال پہلے کی گئی پیشنگوئی کے مطابق کفار کے خلاف غزوہ ہند لڑنا ہے سیاستدانوں کی بات کیا ہے آج وہ اپنے مفاد کے لیے پارٹی بھی تبدیل کرسکتے ہیں ان کو، بلائے طاق رکھتے ہوئے اس اسلامی مملکت اور اسلامی فوج کو غدار وطن اور اسلام کے دشمن َسےپاک کرکے یہ سرزمین پر احسان عظیم کریں کیونکہ’ مجھے ایسا کوئی گروہ نہیں چاہیے جو میری فوج کی حرمت کو پامال کرنے کی جسارت کرتا ہو‘۔ اور آخر میں اپنی پاکستانی عوام (قوم تو ابھی ہم بنے نہیں) کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہوش کے ناخن لے اور پیروں پر کلہاڑی نہ ماریں۔
’’ نہیں تو تمہاری داستاں نہ ہوگی داستانوں میں‘‘
پاک فوج زندہ باد
پاکستان پائندہ باد ….

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex