کالم

خطرے کی گھنٹی

رفیع صحرائی

کسی بھی کاروبار یا شعبے میں جب نان پروفیشنل لوگ داخل ہو جاتے ہیں تو وہ کاروبار یا شعبہ آہستہ آہستہ زوال کی جانب بڑھنے لگتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ایک دفعہ تباہی کے بعد دوبارہ کسی کاروبار، شعبہ یا صنعت نے کامیاب سنبھالا لیا ہو۔
ہماری فلم انڈسٹری کے ساتھ یہی کچھ تو ہوا تھا۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہماری فلم انڈسٹری عروج پر تھی۔ ہر سال اوسطاً ساٹھ سے ستر فلمیں ریلیز ہوتی تھیں۔ بڑے بڑے نام فلم انڈسٹری سے جڑے ہوئے تھے۔ بہترین کہانی نویس، اعلیٰ پائے کے شعرا ء، وقت کے عظیم ہدایتکار اور سمجھدار فلمساز اس انڈسٹری کا حصہ تھے اور انڈین فلموں کو برابر کی ٹکر ہی نہیں دے رہے تھے بلکہ ہماری پوری فلموں اور گیتوں کا چربہ انڈین فلم انڈسٹری والے بنا رہے تھے۔ اسّی کی دہائی سے نان پروفیشنل لوگ انڈسٹری میں داخل ہوناشروع ہوئے۔ کالے دھن کی آمد انڈسٹری میں ہوئی تو جینوئن فلم ساز کنارہ کشی اختیار کرنے لگے۔ پھر کہانی میں سنجیدگی کی جگہ لچر پن نے لے لی۔ ولگر گیتوں کا چلن عام ہو گیا۔ جینوئن لوگ انڈسٹری سے دور کر دیے گئے اور نان پروفیشنل لوگوں کا غلبہ ہو گیا۔ نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا۔ فلم انڈسٹری کا بھٹہ بیٹھ گیا۔ سٹوڈیوز ویران ہو گئے اور سینما اونرز نے سینما گرا کر ہوٹل، پلازے یا شاپنگ مال تعمیر کر لیے۔آج کل یہی مسئلہ اخباری صنعت اور الیکٹرونک میڈیا کو درپیش ہے جس کا صحیح معنوں میں ادراک نہیں کیا جا رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا اس وقت بڑی تیزی کے ساتھ الیکٹرونک میڈیا کو نگل رہا ہے اور اگر بڑے اخباری اداروں یا میڈیا ہائوسز نے کوئی حل نہ نکالا تو یہ صنعت بھی بری طرح ڈوبنے کا خطرہ ہے۔آج کل بڑے چھوٹے تقریباً تمام اخبارات ای پیپر کی صورت میں گوگل، فیس بک اور ٹویٹر پر دستیاب ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے اخبارات کی سرکولیشن کافی کم ہو گئی ہے مگر سوشل میڈیا کی بدولت اخبار پڑھنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اخبارات کو اس سے معقول آمدن ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نیوز چینل کی بھرمار نے عوام کی خبروں تک رسائی کو تیز رفتا اور آسان بنا دیا ہے۔ منافع بخش کاروبار سمجھتے ہوئے بہت سے لوگ الیکٹرونک میڈیا کی طرف متوجہ ہوئے اور بڑے بڑے میڈیا ہائوسز وجود میں آ گئے۔ بڑے چینلز کے درمیان مسابقت کی دوڑ شروع ہو گئی جو تاحال جاری ہے۔ عوام کو اس سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ انہیں نیوز کے علاوہ دیگر معیاری پروگرام بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ آپ ان ڈیجیٹل چینلز کو یوٹیوب پر براہِ راست بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آج کل شدید مہنگائی کی وجہ سے اخبار چھاپنا اور پھر اسے سرکولیٹ کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے جس کا حل ای پیپر کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ صحافت سے دلچسپی رکھنے والے تعلیم یافتہ اور انرجیٹک لوگوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ای پیپرز کا اجرا ء کر کے نہ صرف اپنے شوق کی تکمیل کو ممکن بنانے میں کامیابی حاصل کی بل کے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر خود کو منوا بھی لیا۔ یہ تعلیم یافتہ لوگ نئے آئیڈیاز اور صلاحیتوں کے جوہر سے مالا مال تھے۔
جس طرح فلم انڈسٹری میں نان پروفیشنل لوگ گھسے تھے اسی طرح اب صحافت میں بھی نان پروفیشنل لوگ بڑی تعداد میں وارد ہو گئے ہیں۔ یہ باصلاحیت لوگوں کی محنت کو چوری کرتے ہیں یا معمولی معاوضے پر خریدتے ہیں اور اچھی خاصی کمائی کر لیتے ہیں۔ آن لائن اخبارات کا دھندا آج کل عروج پر ہے۔ نہ ڈیکلریشن کی ضرورت، نہ کاغذ کے کوٹے کے لیے بھاگ دوڑ۔ نہ لمبے چوڑے عملے کی ضرورت اور نہ ہی کسی دفتر کے قیام کا تردد کرنا پڑتا ہے۔ اخبارات اور نیوز ایجنسیوں کی ویب سائٹس سے بنی بنائی خبریں مل جاتی ہیں۔ کالم اور اداریہ بھی کسی اخبار سے نقل کر کے اخبار چند منٹوں میں تیار کر لیا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں نے باقاعدہ اسے دھندے کے طور پر اختیار کر رکھا ہے۔ وہ دوسرے اخبارات اور ویب سائٹس سے لے کر اپنے کمپیوٹر میں مختلف خبریں، مضامین اور کالم جمع کر لیتے ہیں۔ یہ اپنے ڈیزائن کردہ اخبار کو مختلف لوگوں کے ہاتھ مختلف ناموں سے فروخت کر دیتے ہیں۔ اور وہ بھی معمولی قیمت پر۔ اخبار اور ڈیزائن وہی رہتا ہے۔ صرف پیشانی تبدیل کر دی جاتی ہے اور ایک نیا اخبار ظاہر کر کے ’’گاہک‘‘ کو بیچ دیا جاتا ہے۔آپ اخبار چھپوانا چاہتے ہیں۔ چیف ایڈیٹر، ایڈیٹر اور اخبار کا نام تجویز کیجیے۔ چند منٹ کے اندر ہی آپ کو اپنے اخبار کی پی ڈی ایف فائل مل جائے گی۔ بعض کاریگر تو اس معاملے میں بھی زیادہ محنت نہیں کرتے۔ مختلف اخبارات کا ایک ایک صفحہ جوڑ کر پورا اخبار تیار کر لیتے ہیں۔ آپ کے لیے ضروری نہیں کہ آپ تعلیم یافتہ ہوں۔ آپ چِٹّے ان پڑھ ہو کر بھی اخبار کے چیف ایڈیٹر بن سکتے ہیں۔ عام طور پر آپ کو چھ سے دس ہزار روپے مہینہ میں پورے اخبار کی پی ڈی ایف فائل مہیا کر دی جاتی ہے۔ یعنی روزانہ دو سے تین سو روپے خرچ کر کےآپ پورا اخبار ’’چھپوا‘‘ لیتے ہیں۔
آن لائن اخبارات کے یہ ان پڑھ یا معمولی پڑھے لکھے چیف ایڈیٹرز اوسطاً سات آٹھ ہزار روپے خرچ کر کے کم از کم ساٹھ ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے ہر مہینے کما رہے ہیں۔ یہ اپنے اخبار کے لیے پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں بیورو چیف، ڈپٹی بیورو چیف، نمائندہ خصوصی، ڈسٹرکٹ رپورٹر،تحصیل رپورٹر، کرائم رپورٹر، سٹی رپورٹر، لیڈیز رپورٹر، اسپورٹس رپورٹر، شوبز رپورٹر اور دیگر بہت سے رپورٹر مقرر کرتے ہیں۔ انہیں پریس کارڈ جاری کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں اوسطاً پانچ ہزار روپے فی پریس کارڈ فیس وصول کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ ایک سے دو ہزار روپے فی رپورٹر ماہانہ فیس بھی چارج کرتے ہیں۔ یوں ہر مہینے انہیں اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی ہے۔ سنسر کی پابندیوں سے آزاد ان اخبارات کے رپورٹر اپنی رقم سود سمیت عوام سے وصول کر لیتے ہیں۔ اسی طرح کا دھندہ نام نہاد ڈیجیٹل ویب چینل بنا کر کیا جا رہا ہے۔ ان چینلز کے لوگو بھاری معاوضے کے عوض فروخت کیے جاتے ہیں۔ ماہانہ فیس الگ سے لی جاتی ہے۔ ویب چینلز کے یہ نمائندے اپنے ’’کلائنٹس‘‘ کے پاس مائیک لے کر پہنچ جاتے ہیں اور اپنا حصہ وصول کر لیتے ہیں۔
یہ آن لائن اخبارات اور ویب چینلز نہ کہیں رجسٹرڈ ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی اصول یا ضابطے میں آتے ہیں۔ جعلسازی کے اس دھندے نے پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا پر زبردست یلغار کر رکھی ہے۔ میڈیا ہائوسز اور اخبار مالکان کو مل جل کر اس سیلاب کے آگے بند باندھنا ہو گا، ان ویب چینلز اور آن لائن اخبارات کو کسی ضابطے اور قانون میں لانے کی کوشش کرنا ہو گی۔ کاپی رائٹ ایکٹ کے تحت ان جعل سازوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔ ویجیلنس ٹیمیں بنانا ہوں گی جو ایسے دو نمبر اخبارات اور چینلز پر نظر رکھیں گی۔ حکومت سے کوئی ایسا قانون پاس کروانا ہو گا جو کھمبیوں کی طرح اگے ان اخبارات اور چینلز کو ریگولیٹ کر سکے۔ ان کی انتظامیہ کے لیے تعلیمی معیار مقرر کرنا اور ان کی رجسٹریشن کروا کر انہیں ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا ورنہ فلم انڈسٹری کی طرح اخباری صنعت اور الیکٹرونک میڈیا بھی تباہی سے دوچار ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex