کالم

حل: عوام برائے آئین۔آئین برائے عوام

ڈاکٹر مجاہد منصوری

قارئین کرام! پُرخطر ہوگئے ملکی آئینی و انتظامی اور اس کی کوکھ سے نکلےسنگین سیاسی و اقتصادی بحران کے حل کے طور پر آج ’’آئین نو‘‘ کا نیا بیانیہ (NARRATIVE)پیش کیا جا رہا ہے جو یہ ہے:’’ عوام برائے آئین۔ آئین برائے عوام‘‘ مقصد ایک تو بحران کی اصل اور سب سے بڑی وجہ عوام الناس کی سطح (گراس روٹس لیول) پر آگہی ہے۔ جبکہ دوسرا اس (آگہی) کے زور پر عوام (جو اطلاق آئین کے اصل بینی فشری ہونے چاہئیں اور آئین کے مطابق ہیں) کو دستور کی ازخود حفاظت کے لئے متحد ہونےکا شعور پیدا کرنا ہے کہ موجودہ حکومت واضح طور پر آئین شکنی کی مرتکب ہو چکی ۔ اسی عوامی شعور اور اتحاد کی طاقت سے آنے والے برسوں اور عشروں میں عوام بمطابق آئین خود اپنے حقوق کی بازیابی کے قابل ہوں گے۔ اب یہ راہ اختیار کرکے عوام آئین کی اہمیت اور حساسیت کو خود سمجھیں، اور اس کی حفاظت اور اپنے اتحاد کی بنیاد پر آئین کے مکمل اطلاق کو ممکن بنائیں۔ اسی روڈ میپ کو اختیار کرکے ہمارے بالائی سطح کے ریاستی ادارے بھی عین آئین پر کاربند رہتے اپنا کردار ادا کرتے مستحکم و منظم ہوں گے۔ اسی طور عوام کا اعتماد بحال ہو کر حقیقی ارتقا کی راہ لے گا، جس کے بینی فشری عوام بن سکیں گے اور خود حکومتوں اور اداروں کے آئین کو روندنے، توڑنے اور مسلسل اس کی سنگین خلاف ورزیوں سے جو موجود پُر خطر صورتحال بنی ہے،وہ بتدریج ختم ہوگی۔ اتنی جلد یا دیر سے جتنی تیزی سے یا تاخیر سے ہم نے اس راہ راست کو اختیار کیا ہے۔
قارئین کرام! جاری پرآشوب و پریشان کن مزید بڑھتے قومی بحران کے تناظر میں ’’آئین نو‘‘ کے اس بیانیے میں اب ایک منفرد اضافہ کالم (آئین نو) میں ہی ڈیڑھ عشرے سے اختیار کئے گئے نریٹیو ’’آئین کا مکمل اطلاق اور تمام شہریوں پر قانون کا یکساں نفاذ‘‘ میں کیا گیا ہے۔ وقتاً فوقتاً حالات حاضرہ کی ضرورت کے مطابق اس بیانیے کا استعمال تادم جاری ہے۔ یہ ’’آئین نو‘‘ میں تمام تر ملکی مسائل کے پراثر اور نتیجہ خیز حل کے طور پر سینکڑوں کی فری کوئنسی میں ہو چکا جو ’’آئین نو‘‘ کے آرکائیو میں محفوظ ہے۔ اب نئے زیر بحث بیانیے میں گھمبیر ملکی صورتحال کی مناسبت سے جو منفرد زاویہ اختیار کیا جا رہا ہے اس کا تعلق آئین کے مکمل اطلاق کے ساتھ اس کی حفاظت سےبھی ہے، اس لئے کہ تمام ملکی ریاستی ادارے اور سب سیاسی جماعتیں نہ صرف آئین کے مکمل اطلاق اور سب شہریوں پر قانون کے یکساں نفاذ میںناکام ہوئی ہیں بلکہ انہوں نے بڑی بے رحمی سے آئین کو عوام کے حقوق کا محافظ اور ضامن بنانے کے بجائے اس کو روند اور اپنی سیاسی اور طبقاتی ضرورتوں کے لئے استعمال کرکے اب موجود بحران میں توڑ بھی دیا۔ عدلیہ شدید دبائومیں ہے۔ سو آئین کی حفاظت کا بوجھ بھی اب عوام پر آن پڑا ہے۔
قارئین کرام! ذرا نہیں انہماک سے سوچئے! ماہ رواں کی 15 تاریخ کو آئین پاکستان موجود مافیا راج (اولاگرکی حکومت) کی سخت خلاف آئین و عدل مزاحمت کے نتیجے میں ٹوٹ چکا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جو اسمبلیاں عین آئین کےمطابق تحلیل ہوئی تھیں اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تبھی تو اس اقدام کو چیلنج کئے بغیر دونوں صوبوں میں بمطابق آئین نگراں حکومتیں تشکیل دی گئیں۔ جو 90روزہ اقتدار بغرض الیکشن و بمطابق آئین اقتدار سنبھالتے ہی پی ڈی ایم حکومت آئین شکن لائن ٹو کرکے تمام اقدامات اپنی خالق حکومتی، اپنی آئینی ذمہ داری کو پس پشت ڈال کر الیکشن سے منحرف ہو کر فسطائی پالیسی پر بے رحمانہ اور قطعی غیر قانونی اقدامات پر جت گئیں۔حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے عملاً انکاری کی مرتکب ہوئیں۔ پی ڈی ایم کی ججز کو دہشت زدہ کرنے کے ارتکاب میں ان کی معاون بنی ہوئی ہیں۔ الیکشن کمیشن اپنی آئینی خود مختاری کے باوجود اس سارے غیر آئینی کھلواڑ میں حریف سیاسی جماعت کے خلاف سیاسی انتقام کا ذریعہ بن چکا ہے۔ جس پاپولر جماعت سے اس کے راست موقف کہ ’’تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن بمطابق آئین و عدالتی حکم کرائے جائیں‘‘ کی حفاظت کی توقع تھی اور اس کے لئے سرگرم ہوئی، اس کی قیادت ثانوی لیڈر شپ اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈائون سے انہیں اپنے جان و عزت کے لالے پڑ گئے ہیں۔ ایسے میں اب بحران کا حل فقط آئینی ہی ہو سکتا ہے اور ایک بڑے آئینی تقاضے کو حکومتی آئین شکنی کے بعد اب عوام ناکہ کوئی پارٹی، حکومت یا ادارہ آئین کا محافظ رہ گیا ہے۔ آئین عوام کا اور عوام آئین کے محافظ رہ گئے۔ دونوں اپنا کام کیسے کریں؟ یہ ملین ڈالر سوال جبکہ آئین ایک مکمل ٹیکنیکل سبجیکٹ ہے۔ لیکن پی ڈی ایم کے منجھے ’’گستاخ‘‘ بیرسٹروں نے منطقی چیخ پکار سے الیکشن کے انعقاد کی حد تک تو کافی آگہی پیدا کردی ۔آفرین ہے بیرسٹر اعتزاز احسن اور سابق گورنر لطیف کھوسہ اور بار ایسوسی ایشنز کے عہدیداروں پر جو خود کو پاکستان کا وفادار اور باشعور پارٹی بازی سے بالا سمجھ کر اپنی پاکستانیت بلند درجے پر نبھا رہے ہیں۔اولاگرکی (مافیا راج) عشروں سے آئین کو فقط اپنے لئے استعمال کرکے HAVS کا کوہ ہمالیہ بن بیٹھا اور HAVE NOTS کو گڑھے میں ڈال کر تاج راج اور ٹھاٹھ باٹ کے جزیرے سے دھونس دھاندلی اور کرپشن زدہ حکومت کا مرتکب ہے۔ ’’آئین نو‘‘ میں تو تجاویز آئیں گی کہ پرامن نہتے اور مہنگائی میں پسے عوام آئین کی حفاظت کیسے کریں؟ قارئین خودبھی سوچیں! وماعلینا الالبلاغ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex