کالم

اقبال خلیل سے طارق جمیل،کیا صورتیں تھیں کہ پنہاں ہوگئیں

مدثر قدیر

اقبال خلیل سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی اب مجھے یاد نہیں مگر میری ان سے 2005ء کے بعد سے متواتر ملاقاتیں رہیں جو کبھی پنجاب یونیورسٹی کی رجسٹریشن برانچ،شعبہ امتحانات کے بی اے سیکشن،انٹر سیکشن یاں پھر آفیسر خاص،ان سے جتنی بار بھی ملا ایک اپنائیت کا احساس رہا ان کی اور میری قدر مشترک گوالمنڈی تھی جو میری رہائش گاہ اور ان کا تعلق بھی شاہ ابولمعالی کے مزار کے اطراف سے تھا۔اقبال خلیل مرنجاں مرنج شخصیت اور ہمدرد انسان تھے مجھے جب بھی یونیورسٹی کے حوالے سے کسی کا م میں دشواری محسوس ہوئی ان سے رابطہ کیا اور انھوں نے مسئلہ حل کیا اور اس کے حل کے بارے میں اپنی رائے دی کہ اس کو ایسے حل کرو،مسائل کیا تھے دوستوں کی رجسٹریشن،رول نمبر کی عدم دستیابی یاں پھر ڈگری کے حصول میں رکاوٹ،ان کی خوبی تھی کہ انھوں نے یونیورسٹی کے معاملات کو بڑی نزدیک سے دیکھا تھا اور اس بارے میں ان کو مکمل آگاہی تھی۔2000ء میں جب میرا بی ایس سی کا رزلٹ آیا تو میرے نمبر 420تھے جو میرے لیے پریشانی کی بات تھی اور میں کسی بھی دوست،رشتہ دار کو اپنے اصل نمبر نہیں بتاتا تھا اسی دوران میں نے تعلیم جاری رکھی مگر میرے ذہن میں اس حوالے سے خدشات موجود تھے کہ یہ نمبر یاں تو کم ہونے چاہیے تھے یاں پھر ایک نمبر ذیادہ برحال برسوں بعد میں نے اقبال خلیل صاحب سے اس ضمن میں بات کی تو ہنس دیے کہنے لگے یار تمھارا پاسنگ ائیر کون ساتھا میں نے کہا 2000ء تو انھوں نے ایک لمحہ کو سوچااور کہنے لگے کہ تمھارا تو کام ہوچکا میں نے سوالیہ انداز میں کہا کیسے تو انھوں نے بتایا کہ کل اپنا رزلٹ کارڈ لے کر آنا میں بتاؤں گا،دوسرے دن میں اپنا رزلٹ کارڈ لے کر ان کے پاس پہنچا تو میرے پہنچنے سے قبل وہ درخواست لکھ چکے تھے انھوں نے مجھے بتایا کہ تمھارے ساتھ اسی سال ایک فوجی آفیسر کی بیٹی نے امتحان دیا تھا اور اس کے پانچ نمبر کم تھے جس پریونیورسٹی کی سڈیکیٹ نے فیصلہ کرکے ہر امیدوار کو 5نمبر اضافی دیے جو تمھیں بھی ملے ہیں اب تمھارا رزلٹ 425ہے پھر انھوں نے مجھے نیا رزلٹ کارڈ لاکر دیا جو سفید رنگ کا تھا انھی کے کہنے پر میں نے اسی وقت اپنی ڈگری کے لیے اپلائی کیاجو بعد میں مجھے گھر کے پتہ پر ملی۔ گزشتہ ماہ ان سے ٹیلی فون پر رابطہ ہوا مجھے کسی طالب علم کی ڈگری کے حصول پر بات کرنی تھی کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے اسوقت تک وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوچکے تھے اور یونیورسٹی ٹاؤن میں اپنے نئے گھر میں رہائش پذیر تھے انھوں نے میری بات کو غور سے سنا اور ا س کا حل بتایااور ساتھ ہی کہنے لگے کہ میرے ساتھ والے گھر میں متعلقہ برانچ کا آفیسر رہائش پذیر ہے اگر مجھے درخواست پہنچا دوتو میں اس کو دے دوں گا تاکہ کام جلد ہوجائے میں نے ان کا شکریہ ادا کیا یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی جو 25منٹ تک بزریعہ فو ن جاری رہی جس میں ماضی کی باتوں کو یاد کیاگیا گزشتہ روز میں نے وٹس اپ کو اوپن کیا تو لاہور ایجوکیشن رپورٹرز ایسوسی ایشن کے نیوز گروپ میں ترجمان
پنجاب یونیورسٹی خرم کی جانب سے ان کی وفات کی خبر شئیر کی گی جس پر دل افسردہ ہوگیا۔اسی طرح سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کے ذریعے مجھے کل پاکستان ٹیلیویژن کے معروف پروڈیوسر طارق جمیل کی وفات کی خبر ملی جو میرے لیے یکا یک دوسرے صدمے کی بات تھی ان سے میری پہلی ملاقات 1996ء کے بعد ہوئی مگر میں ان کے نام سے شناسا تھا کیونکہ1993ء میں میٹرک کے امتحان کے بعد میں نے علمی،ادبی محفلوں کا رخ کیا تو اداکار بننے کی خواہش پاکستان ٹیلی ویژن لے آئی انھی دنو ں کراچی مرکز سے ایک ڈرامہ آنچ کے نام سے ٹیلی کاسٹ ہورہا تھا جس کے پروڈیوسر طارق جمیل تھے یہ ڈرامہ سیریل اس دور میں ہٹ ہوئی اور کچھ سالوں بعد طارق جمیل کی لاہور ٹرانسفر ہوگئی اور ان کو جنجال پورہ کا پراجیکٹ دیا گیا ا س دوران میری ان سے ملاقاتیں شروع ہوئیں اور میں عمر کے اس حصے میں تھا کہ میرا شمار نہ بڑوں میں ہوتا تھا اور نہ ہی بچوں میں تو طارق جمیل نے مجھے کام نہیں دیا اس سیریل کے بعد انھوں نے اشفاق صاحب کے لکھے ڈرامہ سیریز حیرت کدہ کا پراجیکٹ شروع کیا ان دنوں مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور میرا ذیادہ وقت دیال سنگھ لائبریری میں گزرتا تھا جہاں پر منٹو،کرشن چندر اور منشی پریم چند کے افسانے پڑھتا تھا ان کی آب بیتیوں کی کتابیں بھی میں نے یہیں پڑھیں اسی دوران مجھے والد صاحب نے تصوف کے موضوع پر ایک کتاب تذکرہ غوثیہ اردو بازار سے لانے کو کہا اس کتاب کو لاکر سب سے پہلے میں نے اسے مکمل پڑھا اس کی پہلی کہانی بڑی سحر انگیز تھی اسی دوران رات کو جب حیرت کدہ کی پہلی قسط ٹیلی کاسٹ ہوئی تو میں دم بخود ہوگیا کہ یہ تو ہو بہو وہی کہانی ہے جو میں نے آج دوپہر کو کتاب میں پڑھی تھی میں دوسرے دن طارق جمیل کو ملا اور ان سے اس بارے میں کہا تو وہ چپ ہوگئے اس ملاقات کے بعد میں ان کے ریگولر ٹچ میں آگیا۔1999ء میں،میں تعلیمی حوالے سے مصروف تھا کہ اسی دوران منشا یاد کے ناول ٹاواں ٹاواں تارا پر انھوں نے ڈرامہ سیریل راہیں پر کام کا آغاز کیا اس میں میرے لیے ایک رول نکالا جو سلیم شیخ کے چھوٹے بھائی کا تھا جو مجذوب ہوتا ہے اور انھوں نے مجھے ڈھونڈنے کے لیے دو آدمی میرے گھر بھیج دیے کہ کل 4بجے پاکستان ٹیلی ویژچ پہنچ جاؤں اگلے دن جب میں سیٹ پر پہنچا تو مجھے ملے اور ڈانٹنے لگے کہ روز تم آجاتے ہو مگر گزشتہ 15دنوں سے کدھر ہو تم کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک چکا ہوں میں نے معذرت کی اور اپنا مدعا بیان کیا انھوں نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ اب یہ داڑھی نہ کٹوانا اور نہ ہی حجامت بنوانا۔مجھے لے کر وہ سیٹ پر پہنچے اور جس آرٹسٹ کو رول دے چکے تھے ا س سے معذرت کی اور کہا کہ یہ کردا ر سائیں یونس اس کے لیے ہی بنایاہے تم کو اس پائلٹ پراجیکٹ کی منظوری کے بعد دوسرا کردار دے دوں گا اور انھوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور ادکار کو ڈرامہ میں ایک رول دیا۔ڈرامہ راہیں اپنے وقت کا ہٹ سیریل ثابت ہوا مگر مجھے اس کے بعد کام نہیں ملا اور میں نے اپنی لائن تبدیل کرلی۔گزشتہ ماہ محمد قوی خان کے انتقال پر ریڈیو لاہور سے قومی پروگرام کا اعلان ہوا تو مجھے اس حوالے سے تاثرات کا کہا گیاتو میں نے ان کو فون کیا کیونکہ طارق جمیل واحد شخصیت تھے جو پہلے تو قوی خان کومتعدد ڈراموں میں ڈائریکٹ کرچکے تھے اور اب ان کے ساتھ اداکار کی حیثیت سے بھی کام کررہے تھے انھوں نے قوی خان کے فن اور شخصیت پر مدلل اظہار خیال کیا اور ان سے جڑی اپنی یادیں بتائیں یہ میری ان سے آخری گفتگو تھی آج جب یہ سطور تحریر کررہاہوں تو نہایت اداسی کا عالم ہے کہ جو ملے تھے راستے میں اب پنہاں ہوگے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex