پاکستانتازہ ترینکالم

افتراق و انتشار، نتیجہ نکلنے کو ہے؟

مصطفیٰ کمال پاشا

پارلیمان ہمارے نظام سیاست و ریاست میں ایک مقتدر ادارہ ہے، پارلیمان عوام کی خواہشات کا آئینہ ہوتی ہے عوام اپنا حق رائے دہندگی استعمال کر کے اپنی پسند و ناپسند کا اظہار کرتے ہیں اپنی خواہشات و ترجیحات ووٹ کے ذریعے، پارلیمانی نمائندوں کے انتخاب کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں۔ پارلیمان نے عوامی خواہشات اور ترجیحات کے مطابق دستور پاکستان (1973ء) تشکیل دیا ہے۔ پاکستان ایک وفاق ہے اور صوبے اس کی اکائیاں ہیں جو دستور 1973ء کے ذریعے مملکتِ پاکستان کی لڑی میں پروئی ہوئی ہیں۔ اس دستاویز کی تخلیق کو 50سال ہو چکے ہیں طالع آزما جرنیلوں نے اس کے ساتھ کھلواڑ بھی کیا عدلیہ کو ساتھ ملایا۔ عدلیہ نے آئین کے ساتھ جرنیلوں کے کھلواڑ میں ان کا ساتھ دیا۔ پاکستان آج جن مشکل حالات میں گھرا ہوا ہے،ہماری معیشت کی جو بُری حالت ہے، ہماری سیاست جس طرح پریشان و منتشر ہے، ہماری معاشرت جس دیوانگی کا شکار ہے اس کی جملہ وجوہات میں سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں عوام کی رائے کی بالادستی، عوامی خواہشات اور آدرشوں کا احترام نہیں کیا گیا، اس گھناؤنے فعل میں جہاں طالع آزما جرنیل اور عدلیہ شامل رہی وہاں ہمارے کئی سیاست دان اور سیاسی جماعتیں بھی شرمناک کردار کی حامل رہی ہیں۔ جرنیلی حکمرانوں اور ان کی غیر آئینی حکومتوں کو جہاں اعلیٰ عدلیہ جواز مہیا کرتی رہی ہے وہاں سیاست اور سیاسی جماعتوں کا کردار بھی شرمناک رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) ہو یا ق، ل ہو یا میم، پیپلزپارٹی پیٹریاٹ ہو یا ذوالفقار علی بھٹو، محمد نوازشریف اور عمران خان، سب لوگ اپنے اپنے پسندیدہ جرنیلوں اور ان کی غیر آئینی حرکات کو سپورٹ کرتے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاستدانوں کی ایک بڑی کھیپ جرنیلوں اور ایجنسیوں کے زیر سیادت پروان چڑھ چکی ہے اور نو آموز جوانوں سرمایہ کاروں کی ایک کثیر تعداد ایسی ہی راہوں پر محو سفر ہے اور اپنا مستقبل ان کے ساتھ وابستگی میں روشن دیکھتی ہے۔
ہمارے سیاسی افق پر طلوع ہونے والی عظیم سیاسی قوتوں کے پیچھے ایسا ہی میکانزم کارفرما رہا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف ہمارے ہاں کھل کھلا کر آئینی پامالی کے مرتکب ہوئے ہیں ان سب کو ان کے ہم خیال سیاستدانوں نے مکمل سیاسی سپورٹ مہیا کی اور عدلیہ نے ان کے ناجائز ادوار حکمرانی کو سندِ جواز عطا کی ہے۔ پاکستان توڑنے والے جرنیل کو پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ منتخب وزراء اعظم پھانسی بھی چڑھائے گئے، جلاوطن بھی ہوئے اور سرعام گولی سے بھی مار دیئے گئے۔ بہرحال اب پاکستان فی الحقیقت ایک عظیم بحرانی کیفیت کا شکار ہو چکا ہے۔ سیاسی انتشار برپا ہے سیاست پراگندہ ہو چکی ہے، سیاسی گندگی نے ہماری سماجیات کو بھی گندہ کر دیا ہے، غلیظ کر دیا ہے۔ معیشت بھی الجھ چکی ہے،گردش زر رُک گئی ہے، افراطِ زر روز افزوں ہے، سیاست اور معیشت ایک دوسرے میں اس طرح گڈ مڈ ہو چکے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چل رہا کہ کون کس کی وجہ سے گرداب کا شکار ہے اور یہ بھی نظر نہیں آ رہا ہے کہ معاملات کیسے ٹھیک ہوں گے۔
سب سے خطرناک اور پریشان کن بات آئینی اداروں کا ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہونا ہے۔ پہلے ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں کو لڑاتی رہی نواز شریف کو منظر سے ہر قیمت پر ہٹانے کی خواہش نے عمران خان کو میدان سیاست میں تگڑا کیا۔ اب تو بات کھل چکی ہے کہ ہمارے چیفس اور آئی ایس آئی چیفس پراجیکٹ عمران خان کی کامیابی کے لئے ہر آئینی و قانونی ادارے پر غالب آ چکے تھے۔ عدالتی ہوں یا الیکشن کمیشن کا آر ٹی ایس، ایف آئی اے ہو یا ٹیپ، سب کو اسی پراجیکٹ میں لگا دیا تھا حتیٰ کہ 2018ء میں عمران خان کو مسلط کر دیا گیا۔ لیکن 44ماہ کے دوران ہی بڑوں کو پتہ چل گیا کہ ان سے غلطی ہو گئی ہے۔اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان نے جو طرزعمل اختیار کیا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام آئینی ادارے اپنی اپنی وقعت کھو چکے ہیں۔ فوج نے پہلے ہی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا برملا اعلان کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ تقسیم ہو چکی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی رائے بھی نہیں طرزعمل بھی تقسیم ہے وہاں پر مکمل طور پر افتراق وانتشار پایا جاتا ہے۔ سیاست اور سیاست دان بھی الجھے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ ایک بالا آئینی ادارہ ہے لیکن پارلیمان تو سب سے بالا ادارہ ہے پارلیمان آئین کی خالق ہے اور اس لئے وہ بالاترین ادارہ ہے لیکن اب تو سپریم کورٹ اس کی بالادستی کو بھی للکار چکی ہے۔ سپریم کورٹ کے تین ججوں کے فیصلے نے تو ایگزیکٹو کے آئینی اختیارات بھی سنبھال لئے ہیں۔ الیکشن کمیشن ایک خود مختار آئینی ادارہ ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس کی خود مختاری پر بھی لات مار دی ہے۔جاری منظر کا سب سے خطرناک پہلو عامتہ الناس میں پائی جانے والی بے چینی، بے چارگی، ابتری اور بے یقینی ہے۔ عام آدمی کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے قدر زرکی گراوٹ اور ہوشربا مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے 21فیصد شرح سود کے باعث کاروبار ناممکن ہو چکا ہے۔ معاشی شرح نمو نہ ہونے کے برابر ہے، بے روزگاری عام ہے اور اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ کہیں بھی بہتری کی امید نظر نہیں آ رہی ہے، لوگوں کا اپنے حال پر بھی ایمان و یقین ختم نہیں ہوا بلکہ اپنے مستقبل سے بھی یقین ختم ہو گیا ہے، کسی ذی شعور کو اس بارے میں شک نظر نہیں آتا کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے جس کا نہ تو کوئی حال ہے اور نہ ہی مستقبل۔ سیاسی عمل کو بار بار ڈی ریل کرنے والی فوج بھی کچھ کر نہیں پائی ہے۔ پہلے جب سیاسی افراتفری ہوتی تھی تو فوج آکر فوری طور پر معاملات ٹھیک کر دیتی تھی اب تو وہ بھی تائب ہو چکی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ پر بھی اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ جاری خوفناک حالات میں بیچ بچاؤ کرانے والی کوئی قوت نظر نہیں آ رہی ہے۔ ابتری آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ انجام پتہ نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex