کالم

اداروں کا وقار اور حدود

محسن گورایہ

ملک کے سنجیدہ،جمہوریت پسند اورمحب وطن طبقات حکومت، پی ٹی آئی مذاکرات کی کا میابی کے لئے دعا گو ہیں مگر طرفین کے کچھ را ہنما اب بھی جلتی پر تیل ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے،عدلیہ اور پارلیمان اپنی اپنی حدود اور اختیار کا تعین خود کرنے پر بضد ہیں، اداروں میں مداخلت کی روائیت تو بہت پرانی ہے،مگر اب تک ریاست کے ستون اداروں کا وقار قائم تھا، جو اب ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ حالیہ بحران نے مقننہ اور عدلیہ کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے،بلا شبہ آئینی طور پر ہر ادارہ کی اپنی ایک توقیر ہے اور ہر ادارہ اپنی اپنی حدود میں خود مختار،آزاد ہے اور یہ حدود بھی آئین ہی متعین کرتا ہے،کہا جا رہا ہے پارلیمنٹ بالا دست ہے،بالکل ہے،کسی کو اس سے انکار نہیں،دعویٰ ہے پارلیمنٹ ہی قانون ساز ہے دوسرے کسی ادارے کو قانون سازی کا حق نہیں،تسلیم،آئین کا یہی تقاضا ہے، مگر دستور پاکستان پارلیمنٹ کو اسلامی تعلیمات اور بنیادی انسانی حقوق کیخلاف کسی بھی نوعیت کے آئین و قانون بنانے کی ممانعت کرتا ہے،آئین ہی اعلیٰ عدلیہ کو پارلیمنٹ کی قانون سازی پر نگران مقرر کرتا ہے،آئین ہی عدلیہ کو کسی آئینی الجھن کی صورت میں تشریح اور تعبیر کا حق تفویض کرتا ہے،مگر حکومت اعلیٰ عدلیہ کے اس حق کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں،اس کے نزدیک پارلیمنٹ کا فیصلہ ہی حتمی ہے مگر قومی اسمبلی کی اپنی صورتحال یہ ہے کہ وہ ایک مدت سے ادھوری ہے،حزب اختلاف کے بغیر چلائی جا رہی ہے،372کا ایوان 190ارکان سے چلایا جا رہا ہے، تحریک انصاف کے منحرف ارکان بھی ان میں شامل ہیں جن کو آئین ”بکاؤ گھوڑا“ کا نام دیتا ہے،نواز شریف دور میں منظور کی گئی ترمیم کے تحت پارٹی سربراہ یا پارٹی موقف کے مخالف چلنے والے رکن اسمبلی نہیں رہتے،اس صورتحال میں فیصلہ کن اتھارٹی اعلیٰ عدلیہ ہے، عدلیہ پی ٹی آئی ارکان کے استعفے کالعدم قرار دیکر قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کی اجازت دے چکی مگر سپیکر ان کو اجلاس میں شرکت سے روک رہے ہیں،اس ایشو پر فیصلہ بھی عدلیہ ہی کو دینا ہے مگر پالیمنٹ بالا دستی کے زعم میں عدلیہ کا یہ آئینی حق بھی تسلیم نہیں کر رہی۔
مقننہ اور عدلیہ کی طرح انتظامیہ کو بھی آئینی حدود و قیود میں خود مختار ادارہ آئین نے تسلیم کیا ہے مگر انتظامی معاملات میں حکومتی مداخلت کی روائیت اب ذہنی طور پر بیوروکریسی نے قبول کر لی ہے،ایسا نہ ہوتاا ور بیوروکریسی کو آزادی خود مختاری اور آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے دیا جاتا تو آج جو بد انتظامی ہے وہ نہ ہوتی،مگر سرکاری مشینری کو ہر دور میں حکمرانوں نے ذاتی اور پارٹی ملازم سمجھا اور قوانین و قواعد کی رتی بھر پروا نہ کی نتیجے میں پہلے بیوروکریسی بد دل خوفزدہ ہوئی اور پھر بیزار ہو کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی،ماتحت عدلیہ میں بھی حکومتی مداخلت عرصہ سے جاری ہے جس کے نتیجے میں نچلی سطح پر نظام انصاف تہس نہس ہوا بلکہ کرپشن نے بھی جنم لیا سدھار کی کوئی صورت بھی دکھائی نہیں دے رہی،اور اب اعلیٰ عدلیہ نشانے پر ہے،وجہ آئینی ہے نہ اخلاقی،بلکہ ذاتی،حکومت کا استحکام، طوالت، اقتدار کی حرص اور چاہ، ریاستی اداروں کی بنیادیں ہلا اور آئین کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے، نتیجہ افراتفری، انتشار اور فساد،اس فساد کے چھوٹے موٹے نمونے آئے روز ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کو معاشی دباؤ کا سامنا ہے، آئی ایم ایف نے ہمارا ناطقہ بند کر رکھا ہے ہم ابھی تک اپنے اداروں کی حدود کا تعین نہیں کر سکے، حالات میں بہتری کا تعلق صرف معاشی پالیسیوں سے نہیں ایسے طرز حکمرانی سے بھی ہے، جس میں شفافیت، جوابدہی، شراکت داری، اتفاق رائے، انصاف، قانون کی بلاتفریق عملداری اور حکومت کی اثرپذیری شامل ہو،یہ سب ہی ملک کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے،مگر اس کے بر عکس ہم یقین و بے یقینی،اعتماد اور عدم اعتماد کے بھنور میں پھنسے وقت صلاحیت اور وسائل بیدردی سے ضائع کر رہے ہیں،اچھی حکومت کا تصور ذہن میں آتے ہی ایک ماہر،تجربہ کار،فرض شناس اور دیانتدار حکومتی مشینری کاعکس ذہن میں آتا ہے،جی ہاں کسی بھی ریاست کی سلامتی اور بقاء کیلئے انتظامیہ ہی ہراول دستہ رہی ہے اور کسی بھی حکومت کی کامیابی میں انتظامی افسروں کا کلیدی کردار ہوتا ہے،مگر وائے حسرت کہ ہم اس فورس کے ہوتے ہوئے اس کے درست استعمال کے ہنر سے آ گہی نہ رکھنے یا اپنے سیاسی اور ذاتی و گروہی اختلافات کو ترجیح دینے کی وجہ سے اچھی حکومت سے بھی محروم ہیں اور اس انتظامی فورس جس کے ہر افسر کی تربیت پر قومی خزانے سے خطیر رقم خرچ کی گئی کو بھی ضائع کر رہے ہیں۔انتظامی افسروں اور سروس کی ایسی بے توقیری شائد پتھر کے دور میں بھی نہ دیکھی گئی ہو گی جو آج ہے، کسی افسر کو نہیں معلوم صبح وہ اس پوسٹ پر ہو گا یا نہیں، اس لئے کوئی سر درد لیتا ہے نہ دلجمعی سے فرائض منصبی ادا کرنے پر اس کی توجہ ہے، ایک عرصے سے پنجاب میں وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ حاوی ہے اور سول سیکرٹریٹ کا کردار محدود کر دیا گیا ہے، نگران دور میں اس محاذ پر کچھ بہتری لگ رہی ہے ، چیف سیکرٹری اپنے طور پر بھی کچھ فیصلے کر رہے ہیں،مگر دوسری طرف سیاسی طور پر نگران حکومت اپنا غیر جانبدارانہ کرداربہتر نہیں کر سکی۔
وفاق اور پنجاب کے درمیان وفاقی افسروں کے تنازعہ کے بعد پنجاب میں یہ سوچ پختہ ہوتی جا رہی ہے کہ سندھ کے طرز پر پنجاب میں بھی صوبائی کیڈر کے افسروں کو کرتا دھرتا اور با اختیار بنایا جائے ،پولیس کو وفاق کے چنگل سے نجات دلانے کیلئے ڈی ایس پی سطح کے افسروں کی براہ راست بھرتی ہو ،عجب بات ہے کہ وہ انتظامیہ جو حکومت کا چہرہ ہوتی ہے خود کئی گروپوں میں تقسیم ہے،حیرت یہ کہ ان گروپوں میں بھی کھینچا تانی ہے ایسی صورتحال میں حکمران طبقہ کیلئے لازم ہے کہ وہ نئے سرے سے اپنی ترجیحات کا تعین کرے اور اداروں کی کارکردگی بہتر بنائے۔سماجی و سیاسی علوم کے ماہرین گڈ گورننس کو آٹھ بنیادی اجزا کا مجموعہ قرار دیتے ہیں،جن میں شراکت داری، اتفاق رائے، تحرک، جوابدہی، شفافیت، منصفانہ پن اور قانون کی عملداری جیسے خواص شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں اچھی گورننس بدعنوانی کو کم کرتی ہے اور اس میں معاشرے کے کمزور طبقات کی آواز کو فیصلہ سازی کا حصہ بنایا جاتا ہے، جبکہ ملک کی موجودہ اور آئندہ ضروریات کو مد نظر رکھ کر اقدام کیا جاتا ہے، معاشی اور سماجی ترقی کا گڈ گورننس کے ساتھ گہرا تعلق ہے جب تک اچھی پالیسیز نہیں ہوں گی، ادارہ جاتی ڈھانچہ نہیں ہوگا، رول آف لا نہیں ہو گا۔،سٹیٹ، سوسائٹی اور حکومت کے درمیان باہم مربوط ورکنگ ریلیشن شپ نہیں ہو گی تو ظاہر ہے اس کا فرق معیشت پر پڑے گا اور اگر حکومت اور اس کی انتظامیہ میں تال میل ایک نہیں ہو گا تو سماجی اور معاشی امتزاج بھی بے کار کی رسم ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex