اس وقت جو پاکستان کے حالات چل رہے ہیں ان میں ہر گھر میں ضرورت ہے روز گار کی اس وقت ۔یہ حالات تو ہم گزشتہ کئی سالوں سے دیکھتے آ رہے ہیں ہم اپنے آج کو یہ سوچ کر گزار دیتے ہیں کہ آنے والا کل اچھا یا بہتر ہو گا اور آنے والے کل میں آ کر کہتے ہیں کہ گزر جانے والا وقت اچھا تھا اور اس میں زندگی گزر جاتی ہے کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ ہم انسانوں پر بچھتاوے کے آسیب کا سایہ ہے جو ہمیں جکڑے ہوئے ہے جو ہمیں آج میں جینے نہیں دیتا ۔ہم حال کو برا کہتے ہیں ماضی کو بہتر اور مستقبل کو بہترین کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں لیکن شکوے کی پرچھائی ہمارا ساتھ چھوڑنے کا نا م ہی نہیں لیتی آج آٹا ،گھی مہنگا ہے ماضی میں نہیں تھا ،آج مکان پکے اور رشتے کچے ہیں ماضی میں نہیں تھے ۔معاشی اور سماجی حالات میں تبدیلی یہی تو زندگی ہے اگر آپ حالات کو خود پر مسلط نہ کریں تو آپ حالات کو بدل سکتے ہیں لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب آپ خود کو بدلیں گے ،یہ بھی ٹھیک ہے کہ بے بسی میں انسان شکوے کے سوا کچھ کر نہیں سکتا مگر بے بسی کس بات کی اللہ نے انسان کو بے بس تو پیدا ہی نہیں کیا ۔تو ہم بے بسی کا لبادہ اوڑھے کیوں روتے ہوئے زندگی گزارتے اور پھر قبر میں چلے جاتے ہیں ۔بے بس انسان صر ف مرنے کے بعد ہے جس وقت جسم میں حرکت ہے اس وقت کوئی انسان بے بس نہیں ۔ دنیا میں کامیاب ہونے والے اور حالات کو بدلنے والے لوگ بھی انسان ہی ہیں ان کو بھی تکلیف میں درد ہوتا ہے بھوک لگتی ہے سینے میں دل دھڑکتا ہے رگوں میں لال ہی خون چلتا ہے مطلب کہ وہ بھی انسان ہیں تو کامیاب ہونے کیلئے آپ کو اپنے اندر سے ڈر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے یہ ڈر ہی ہے جو انسان کو ناکام ہونے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ایک ڈر ناکامی کا اور دوسری بات کہ کوئی کیا کہے گا ۔ان میں سے کوئی ایک بھی آپکے گھر کو چلا سکتا ہے یا آپکو کامیاب کر سکتا ہے نہیں کبھی نہیں ،آپ نے کبھی سڑک پر چلتے یا سفر کرتے دیکھا ہو یا محسوس کیا ہو کہ آپ منزل کی طرف جا رہے ہیں اور ہوا آپکی مخالف سمت چلتی ہے بلکل ایسے ہی کچھ لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں جو آپ کو کامیابی سے روکنے کیلئے آپ کی مخالفت پر اتر آتے ہیں ایسے لوگوں کو اپنی زندگی میں سے نکال دیں اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ان کی بات پر توجہ نہ دیں ایک بار آپ کچھ ٹائم کے لیے تنہا بیٹھ کر یہ سو چیئے کہ جو آپ کر رہے ہیں کیا یہ غیر اخلاقی تو نہیں کیا آپ دائرہ اسلام میں رہ کر کامیابی کی طرف جا رہے ہیں اگر آپ کو خود میں خامی ملے تو اپنی اصلاح کریں ،مگر کبھی ہمت نہ ہاریں ، ہر ادارے میں ہر دکان پر ٹریفک سگنل پر ،آپ خود دیکھیں ریسٹورنٹ میں شاپنگ مال پر یہا ں تک کہ ہر آفس میں مردوں کی تعداد کم اور خواتین زیادہ ہیں اور تو اور بعض اوقات یہ لگتا ہے ایسی کچھ خواتین کا لباس دیکھ کر جیسے ہم کسی غیر اسلامی ریاست میں رہ رہے ہوں نوکریوں کے انٹر ویوز میں جاب کیلئے لائنز لگی ہوتی ہیں مگر مردوں کی تعداد زیادہ اچھی تعلیم ہونے کے باوجود جاب لڑکی کو ہی ملتی ہے اور لڑکی بھی وہی جس کو دیکھیں تو پلٹ کے دیکھنے کو دل چاہے،با پردہ خواتین اور مرد بیچارے مایوس ہو کر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں کوئی ایسا مرد جو حقیقی برابری پر چلتا ہو تربیت اچھی ہو اسلام کو جانتا ہو تو وہی کسی با پردہ خاتون کو یا مرد کو جاب پر رکھے ۔مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ مرد سڑکوں پر ٹھیلے لگائے ،باپ کا کاروبار دیکھتے یا کسی فیکٹری میں 20سے 25 ہزار تنخواہ پر کام کرتے نظر آتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا یہ مستقبل ہے ہمارے پاکستان کا ،کیا جو دفتر میں بیٹھا انٹر ویوز لے رہا ہے اس کے بیٹے نے کل کو کام نہیں کرنا یا بیٹی نے کام نہیں کرنا ۔کیا عورت تماشا ہے جو عورت کو نمائش کیلئے رکھا جاتا ہے ہم پاکستان میں رہنے والے اتنی پستی میں جا چکے ہیں کہ ہماری مسلمان عورتیں اپنے جسم دکھا کر مختلف کمپنیوں کے برانڈ بیچ رہی ہیں اور آج کل تو دفاتروں میں یہ بات عام ہے لڑکی BOSSکے ساتھ تعلق میں ہے لعنت ہے ایسی عورتوں پر اور ایسے مردوں پر جن کو اپنے مذہب اسلام کی پہچان نہیں۔ اسلام میں عورت کو باہر نکل کر کام کرنے کی اجازت ہے مگر دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے اور میری ایسے تمام لوگوں سے درخواست ہے کہ اپنی اصلاح کرو کام کرو حلال کمائو کیا ایک باپ اپنی بیٹی کو اس لیے کام کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ وہ باہر جائے اور اپنے دفتر میں عشق لڑائے۔ میں محبت کوغلط نہیں کہتی مگر محبت کسی ایک انسان سےہوتی ہے۔کامیابی کی سیڑھی فحاشی نہیں ۔اگر برقعہ نہیں پہننا تو لباس تو مسلمانوں والا پہن سکتی ہیں عورت کو اسلام نے اعلیٰ مقام دیا ہے خود کو نہ گرائیں میں پھر کہتی ہوں کہ عورت کو چاہیئے خود اپنی حدود قائم کرے ۔ عورت خود کو مضبوط کرے تو کسی مرد کی جراءت نہیں کہ وہ عورت کو بات کرے کچھ غلط مرد اور غلط عورتوں نے ہمارے معاشرے کو تباہ کر دیا ہے ہم لوگ ڈانس کی ویڈیوزکو ٹرینڈنگ پر لے آتے ہیں مگر حقوق کے لیے لڑنا نہیں سکھا رہے۔
Read Next
کالم
اپریل 5, 2024
رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ماہِ رمضان
کالم
اپریل 5, 2024
رمضان المبارک کے فضائل
کالم
اپریل 4, 2024
رمضان المبارک: عظمت، حرمت اور فضیلت والا مہینہ
کالم
اپریل 4, 2024
رمضان المبارک کی اہمیت
کالم
مارچ 23, 2024
یوم قرارداد پاکستان کے مظاہر اور آج کا پاکستان!
کالم
مارچ 21, 2024
امام مسجد کی دل کھول کر خدمت کیجیے
کالم
مارچ 21, 2024
خدا را ! بیچاری چڑیا کومعدومی سے بچائیں
کالم
مارچ 21, 2024
ہم شرمندہ ہیں
کالم
مارچ 21, 2024
جیلوں کے مسائل اور وزیر اعلیٰ مریم نواز
اپریل 5, 2024
رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ماہِ رمضان
اپریل 5, 2024
رمضان المبارک کے فضائل
اپریل 4, 2024
رمضان المبارک: عظمت، حرمت اور فضیلت والا مہینہ
اپریل 4, 2024
رمضان المبارک کی اہمیت
مارچ 23, 2024
یوم قرارداد پاکستان کے مظاہر اور آج کا پاکستان!
مارچ 21, 2024
امام مسجد کی دل کھول کر خدمت کیجیے
مارچ 21, 2024
بچوں کا ادب: ستار فیضی کی کہانی’’بھوکی کتیا‘‘ کا فنی و فکری جائزہ
مارچ 21, 2024
خدا را ! بیچاری چڑیا کومعدومی سے بچائیں
مارچ 21, 2024
ہم شرمندہ ہیں
مارچ 21, 2024