کالم

آج کی تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن ِ پاک کی تفہیم

راناشفیق خان

ساتویں تراویح
سورۃ یونس :10 ویں سورت
سورۃ یونس مکی ہے، اس کی 109 آیات اور 11رکوع ہیں۔ یہ گیارہویں پارہ کے چھٹے رکوع سے سولہویں رکوع تک ہے۔ اس سورت کا نام علامت کے طور پر سورت کی آیت 98 سے لیا گیا ہے جس میں حضرت یونس علیہ السلام کا نام اشارتاً آیا ہے۔ (سورت کا موضوع حضرت یونس یا ان کا قصہ نہیں) سورت توبہ کے بعد عموماً ہر سورت میں ایک ایک مضمون پر بحث ہے۔ سورۃ یونس کا موضوع دعوت الی القرآن، فہمائش اور تنبیہ ہے۔ مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ سورت یونس مکی دور کے آخری حصہ میں نازل ہوئی ہو گی کہ جب مکہ والوں کی طرف سے دعوت کی مزاحمت شدت اختیار کر چکی تھی، لیکن اس سورت میں ہجرت کے بارے میں کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا، اس لئے سمجھا جا سکتا ہے کہ ہجرت سے تھوڑا پہلے کے دور میں نازل ہوئی ہے۔ اس سورت مبارکہ میں توحیدِ ربوبیت اور حیاتِ اخروی کے دلائل دیئے گئے ہیں اور ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہے جو توحید اور آخرت پر ایمان لانے میں حائل رہتی ہیں۔
سورت کا آغاز ہے کہ ’’لوگوں کو تعجب اس بات پر ہے کہ انہی میں سے ایک شخص کو کس طرح پیغمبر بنایا گیا ہے اور کفار تو اس چیز کا یقین ہی نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ وہ تو جادو گر ہیں۔ اللہ کی توحید کو سمجھنے کیلئے آسمانوں اور زمین کی تخلیق، خود انسان کی پیدائش، جنت، دوزخ، سورج، چاند، دن ،رات کی تبدیلی وغیرہ بہت سی نشانیاںہیں۔ دنیا کی زندگی کی مثال ایسی سمجھو کہ بارش ہوئی تو کھیتی لہلہانے لگی لیکن پھر ہم کو قدرت ہے کہ ہم اس کھیتی کو تباہ کر دیں۔ اسی طرح انسان پیدا ہو کر بڑا ہوتا ہے، آخر فوت ہو جاتا ہے، اس مشاہدے سے اللہ کی قدرت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ پاک بھلائی کی طرف پکارتا ہے اور اس کی دعوت کو لینے والے بھلائی پاتے ہیں اور نہ لینے والے جہنم میں جاتے ہیں اور آخرت میں نیکی اور بدی سب کا پتا چل جائے گا۔
آپ ان سے پوچھئے کہ تم کو کون روزی دیتا ہے؟ کون سماعت اور بصارت کا مالک ہے؟ کون مردہ کو زندہ اور زندہ کو مردہ کر دیتا ہے؟ آپ یہ بھی پوچھیں کہ ان کے معبودوں میں سے کون ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے اور کون اس کا اعادہ کرتا ہے؟ وہ صرف اللہ ہے اور اس کا قرآن ایسا ہے جو اس کے سوا اور کوئی نہیں بنا سکتا اور اگر تم میں قدرت ہے تو بنا لائو اس کی جیسی کوئی سورت ، اگر تم سچے ہو۔ اور جھٹلانے والے کا انجام دیکھ لو اور اللہ خوب جانتا ہے مفسدوں کو اور اللہ تمہارے واسطے احکام اتارتا ہے، تو کیوں اپنی طرف سے بعض کو حلال اور بعض کو حرام قرار دے لیتے ہو؟ اللہ سے چھوٹی بڑی کوئی چیز پوشیدہ نہیں اور اللہ والے لوگوں کو کسی طرح کا خوف اور غم نہیں۔ دنیا اور آخرت دونوں میں ان کیلئے خوشخبری ہے۔ اور اللہ ہی کا سب کچھ ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور آپ دشمنوں کی سرگرمیوں کی پروا نہ کریں۔ اللہ ان کا زور توڑ دے گا۔آگے حضرت نوحؑ کا پھر موسیٰؑ وہارونؑ کا ذکر ہے کہ فرعون نے جادوگروں کو بلوایا لیکن وہ سب کے سب موسی علیہ السلام کے آگے باطل ٹھہرے اور اللہ کی بات ہی سچ رہتی ہے۔ موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرمایا گیا کہ وہ اپنی قوم کے واسطے مصر میں گھر بنائیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی نافرمانی کی وجہ سے اس کے مال ومنال کے لئے بددعا کی۔ آخر بنی اسرائیلی قوم دریا کے پار ہوئی لیکن فرعون غرق ہونے لگا تو ایمان لایا جو قبول نہ ہوا۔ اللہ نے اس کے مرنے کے بعد اس کا بدن دریا میں سے نکال کر ٹیلے پر رکھوا دیا تاکہ بعد والوں کو عبرت ہو۔
بہت سی بستیاں ایمان نہ لانے کی وجہ سے تباہ ہوئیں۔ یونس علیہ السلام کی قوم پر گو کہ عذاب منڈلا رہا تھا لیکن ایمان لانے کی وجہ سے وہ اس سے بچ گئے۔آپؐ فرما دیں کہ تم لوگ اگر میرے دین کے متعلق شک میں ہو ، تو مَیں کہتا ہوں کہ مَیں صرف اللہ کو پوجتا ہوں اور مجھے حکم ہے کہ مَیں ایمان والوں میں رہوں۔ اللہ ہی سب کی تکلیف کو دور کرنے والا اور بھلائی کو پہنچانے والا ہے، کسی کو اس کے علاوہ اس کا اختیار نہیں ہے اور وہی بخشنے والا مہربان ہے۔ راہ پر آنے والے اپنی بھلائی کیلئے راہ پاتے ہیں اور گمراہ لوگ اپنی ہی برائی کیلئے گمراہ ہیں۔ آپ ان لوگوں کیلئے وکیل نہیں۔(یعنی آ پ غم نہ کریں اگر وہ لوگ راہ پر نہیں آتے) اور اللہ ہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
سورۃ ہود: 11 ویں سورت
سورۃ ہود مکی ہے۔ اس کی 123 آیات اور دس رکوع ہیں۔ یہ گیارہویں پارہ کے آخر سے شروع ہوتی ہے۔ (صرف پانچ آیات گیارہویں پارہ میں ہیں) اور بارہویں پارہ کے دسویں رکوع تک ہے۔ اس سورت میں حضرت نوح علیہ السلام اور دیگر انبیا کا تذکرہ ہے مگر نام حضرت ہود علیہ السلام کے نام پر ہے جو عرب میں پہلے نبی تھے۔ سورۃ یونس اور سورۃ ہود ایک ہی مضمون کی تکمیل کرتی ہیں۔ اس میں بھی دعوت، فہمائش اور تنبیہ ہے، مگر سورۃ یونس کی نسبت دعوت مختصر ہے، فہمائش میں استدلال کم اور نصیحت زیادہ اور تنبیہ مفصل ہے۔
شروع ہی میں اللہ پاک کی طرف رجوع کرنے کا حکم ہے ورنہ سخت عذاب ہو گا۔ کفار اگر چھپ کر یا اوڑھ کر بھی مخالفت کی بات کریں، تب بھی اللہ کو علم ہو جاتا ہے اور دنیا میں کوئی جان دار ایسا نہیں جس کے رزق کا ذمہ اللہ نے نہیں لیا۔ وہ اس کے رہنے اور مرنے کے مقام سے واقف ہے۔ اسی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور وہ عرش پر ہے۔ وہ تم کو آزماتا ہے کہ کون شخص اچھا کام کرتا ہے اور کافر تو موت کے بعد کی زندگی سے متعلق آپ کی بات کو جادو کہتے ہیں ،لیکن جب ان پر قیامت کے دن عذاب ہو گا تو انہیں معلوم ہو گا کہ آخرت کا مذاق اڑانا کیسا ہوتا ہے ۔ انسان کاحال تو یہ ہے کہ اگر اسے کچھ راحت ملتی ہے اور وہ اس سے چھین لی جاتی ہے تو وہ ناشکری کرنے لگتا ہے۔ پھر اگر مصیبت کے بعد اس کو کچھ آرام مل جاتا ہے تو وہ پہلی کیفیت کو بھول جاتا ہے۔ یہ باتیں اللہ کو پسند نہیں۔ ثابت قدم اور عمل صالح والے لوگ مغفرت اور بڑا اجر پائیں گے۔ کفار کہتے ہیں کہ آپ پر خزانہ کیوں نازل نہ ہوا اور اس کیساتھ فرشتہ کیوں نہ آیا؟ وہ آپؐ کے قرآن پر بھی اعتراض کرتے ہیں تو آپؐ فرما دیں کہ اگر تم سچے ہو تو لے آئو اس جیسی سورتیں۔ دنیا کی خواہش کرنے والوں کو دنیا مل سکتی ہے، لیکن ان کو معلوم ہو جائے گا کہ ان کا سب کچھ ختم ہو گیا اور انہیں آخرت میں آگ ہی ملے گی۔ ایمان لانے والے موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بھی تھے، لیکن بہت منکر ہوئے۔ اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟ اب نوح علیہ السلام کی دعوتِ حق کا ذکر ہے کہ ان کی قوم کے سرمایہ داروں نے حق کی قبولیت کا معیار مال ودولت کو سمجھ لیا تھا اور وہ نوح علیہ السلام سے کہتے تھے کہ آپؐ کا ساتھ دینے والے مفلس اور نادار ہیں۔ نوح علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ
میں تم سے کوئی اجر تو نہیں مانگتا اور ایمان والوں کی غریبی اللہ کے نزدیک شرافت اور فضیلت کے منافی نہیں ہے اور مال ودولت سے خدا کی خوشنودی خریدی نہیں جاتی۔ خدا کی رضا صرف اس کے احکام پر چلنے سے حاصل ہوتی ہے ۔ نوح علیہ السلام کی قوم نے جب ایمان قبول نہ کیا سوائے کچھ لوگوں کے تو اللہ نے کشتی بنانے کا حکم دیا جس پر اس قوم کے سردار ہنستے تھے۔ نوح علیہ السلام نے فرمایا کہ تم ہم پر ہنستے ہو اور ہم تم پر ہنستے ہیں، دیکھ لینا کس پر عذاب آتا ہے۔ جب اللہ کے حکم سے طوفان آنے لگا تو نوح علیہ السلام کو حکم ہوا کہ وہ ہر جانور کا جوڑا اس کشتی میں رکھ لیں اور اپنے گھر والوں میں سے بھی اور جو ایمان لائے ہوں۔ نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کنعان کو سوار ہونے کیلئے کہا تو اس نے کہا کہ میںلگ رہوں گا کسی پہاڑ سے۔ نوح علیہ السلام نے سمجھایا کہ آج سوائے اللہ کے حکم کے کہ جس پر اس کی رحمت ہو ، کوئی بچانے والا نہیں،لیکن وہ لڑکا نہ مانا اور ڈوب گیا۔ پھر جب طوفان تھم گیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی تو نوح علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے میرے رب، میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے تھا اور تیرا وعدہ سچا ہے( کہ گھر والوں کو بچائے گا)۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ بیٹا تمہاری اہل میں سے نہیں کیوں کہ اس کے عمل صالح نہیں۔ اب قوم عاد کا ذکر ہے کہ ہود علیہ السلام نے ان کو اللہ کی بندگی کی تعلیم دی، استغفار اور توبہ کرنے کیلئے نصیحت کی ،لیکن ان لوگوں نے اپنے خدائوں کو چھوڑنا گوارا نہیں کیا۔ آخر ہود علیہ السلام اور ان کے ساتھی جو ایمان لے آئے تھے وہ تو بچا لئے گئے اور بقیہ قوم تباہ کر دی گئی۔ اب قوم ثمود کی بربادی کا ذکر ہے کہ ان لوگوں نے صالح علیہ السلام سے انکار اور سرکشی کی جس کا نتیجہ وہی ہوا جو اگلی قوموں کا ہوا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتوں کے آنے کا ذکر ہے کہ وہ اسحٰق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی بشارت لے کر آئے تھے، حالانکہ ان کی والدہ بوڑھی ہو چکی تھیں۔ وہ فرشتے لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ قوم ان کی طرف دوڑی تو لوط علیہ السلام نے اپنی بیٹیاں اس قوم کو بیاہ دینے کی پیشکش کی ،لیکن وہ قوم نہ مانی‘ پھر عذاب میں مبتلا ہوئی کہ ان کی بستی تہ وبالا کر دی گئی اور ان پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ اب شعیب علیہ السلام کی قوم کا ذکر ہے۔ یعنی اہلِ مدین دنیا پرست تھے۔ مال ودولت کے حریص تھے اور شعیب علیہ السلام کی مسلسل تعلیم سے مطلق اثر نہ لیتے تھے۔آخر ان پر بھی عذاب نازل ہوا اور وہ برباد ہوئے۔ موسیٰ علیہ السلام کی دعوت پر فرعون اور اس کے سرداروں کا انکار اور سرکشی کا نتیجہ بھی وہی دوزخ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Diyarbakır koltuk yıkama hindi sex